کچھ خواتین کو سپرم سے الرجی کیوں ہوتی ہے؟

جسمانی رطوبتوں میں پائے جانے والے مخصوص الرجین سے بھی الرجی پیدا ہو سکتی ہے۔یہ وہ مادے ہوتے ہیںجو زیادہ تر لوگوں کے لیے بے ضرر ہوتے ہیں لیکن الرجی والے لوگوں کے مدافعتی نظام کو زیادہ رد عمل کا باعث بنتے ہیں۔
الرجی
Getty Images

مورا کو لگتا ہے کہ کنڈوم نے ان کی جان بچائی۔ مورا اب 43 سال کی ہیں اور اوہائیو امریکہ میں رہتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ انھیں یہ مسئلہ زندگی کے دوسرے عشرے میں ہونے لگا۔ غیر محفوظ سیکس کرنے کے بعد انھیں اپنی ٹانگوں کے اوپری حصوں میں جلن محسوس ہونے لگی۔

انتباہ: اس مضمون میں جنسی اصلاحات اور موضوعات کا ذکر کیا گیا ہے

مورا (رازداری کی وجہ سے نام تبدیل کر دیا گیا) کے لیے اپنے ساتھی کو اس کے بارے میں بتانا آسان نہیں تھا۔ اس لیے ان کے جانے کے بعد وہ خود کو اچھی طرح دھو لیتیں۔

انھوں نے ذاتی صفائی کے لیے بہت اقدامات کیے۔

لیکن حالات سدھرنے کے بجائے مزید خراب ہوتے گئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ، انھوں نے سوجن اور لالی بھی محسوس کرنا شروع کردی۔ یہ تب ہوتا جب ان کا جسم سپرم کے ساتھ رابطے میں آتا۔

رفتہ رفتہ ماورا کا اس شخص سے رشتہ ٹوٹ گیا۔ پھر وہ کسی ایسے شخص کو دیکھنے لگیں جو کنڈوم استعمال کرنے کی پابندی کرتا۔

وہ بتاتی ہیں ’پہلے تو کوئی مسئلہ نہیں ہوا تھا، لیکن ایک دن ہم سیکس کے بعد بستر پر لیٹ گئے تو پھر سے وہی شکایت ہوئی۔‘

مورا، جنھیں دمہ اور دیگر الرجیز بھی ہیں، کا خیال ہے کہ اس دن کنڈوم لیک ہو گیا تھا۔ وہ اور اس کے اب طویل عرصے سے ساتھی دونوں کنڈوم استعمال کرنے میں پہلے کی نسبت زیادہ محتاط ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی سپرم الرجی کے بارے میں اس وقت تک لاعلم تھیں جب تک یہ ان کے ساتھ نہیں ہوا۔

اگرچہ یہ کیسز کافی نایاب ہیں، کچھ لوگوں کے جسم اب بھی دوسرے انسانی جسموں پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔

اس مسئلے کو اکثر غلط سمجھا جاتا ہے اور اس سے نہ صرف صحت، بلکہ کام، رشتے اور متاثرہ فرد کی پوری زندگی متاثر ہوتی ہے۔ لیکن یہ حالت کیسے پیدا ہوتی ہے اور اس کے بارے میں کیا کرنا ہے یہ بڑی حد تک ایک معمہ بنی ہوئی ہے۔

کیا یہ واقعی الرجی ہیں، یا یہ کچھ اور ہے؟ جیسا کہ سائنسدان اس حالت کے اسرار سے پردہ اٹھا رہے ہیں، انسانی جسم کی کیمسٹری اور انسانی جسم کی بیماریوں سے لڑنے کی صلاحیت کی خصوصیات کے بارے میں بھی نئی سمجھ پیدا ہو رہی ہے۔

جسمانی رطوبتوں یا سیالوں سے الرجی

سپرم
Getty Images

جسمانی رطوبتوں میں پائے جانے والے مخصوص الرجین سے بھی الرجی پیدا ہو سکتی ہے۔الرجین وہ مادے ہوتے ہیںجو زیادہ تر لوگوں کے لیے بے ضرر ہوتے ہیں لیکن الرجی والے لوگوں کے مدافعتی نظام کو زیادہ رد عمل کا باعث بنتے ہیں۔

برطانیہ میں ایک کیس میں، میووں سے الرجی والی ایک خاتون کو ایک ایسے شخص کے ساتھ جنسی تعلق کرنے کے بعد دانے نکلے اور ان کا دم گھٹنے لگا جس نے صرف چند گھنٹے قبل مختلف قسم کے گری دار میوے کھائے تھے۔

اگرچہ اس شخص نے اس دوران اپنے دانتوں، ناخنوں اور جلد کو صاف کیا تھا، لیکن گری دار میوے سے شدید الرجی والے کچھ لوگوں کو بوسہ کرتے ہوئے بھی الرجی پیدا ہوتے دیکھا گیا ہے۔

تاہم، گری دار میوے کھانے کے بعد بوسہ کرنے سے الرجک ردعمل کے معاملات عام ہیں۔

تاہم، بعض اوقات پھل، سبزیاں، سمندری غذا اور دودھ کے استعمال کے بعد تھوک سے الرجی بھی دیکھی گئی ہے۔

اینٹی بائیوٹک سے الرجی والی خواتین کو یہ دوائیں لینے والے لوگوں کے ساتھ سیکس اور (ممکنہ طور پر) اورل سیکس کے بعد الرجک رد عمل پیدا ہوتا ہے۔

لیکن ان خارجی الرجیوں کے علاوہ، بعض جسمانی رطوبتوں میں موجود بعض پروٹین بھی ردعمل کو متحرک کر سکتے ہیں۔

سپرم اس طرح کے سب سے عام سیالوں میں سے ایک ہے۔

سیمین الرجی (سیمینل پلازما انتہائی حساسیت) اس کے سامنے آنے کے بعد مختلف علامات کا سبب بنتی ہے۔

یہ خارش والی جلد کے دانوں سے لے کر ممکنہ طور پر جان لیوا الرجک رد عمل تک ہیں جسے اینافلیکسزکہا جاتا ہے۔ یہ وہ حالت ہے جب مدافعتی نظام الرجین پر زیادہ رد عمل ظاہر کرتا ہے، جس کی وجہ سے جسم میں اچانک اور تیزی سے مختلف علامات پیدا ہوتی ہیں۔

الرجی
Getty Images

سنہ 2024کے ایک تحقیقی مقالے کے مطابق، اگرچہ 100 سے کم کیسز ریکارڈ کیے گئے ہیں، لیکن یہ عام طور پر 20 سے 30 سال کی عمر کے لوگوں میں دیکھا جاتا ہے۔

اس حسّاسیت کو اکثر سیمینل پلازما میں موجود پروسٹیٹ کے مخصوص اینٹیجن سے جوڑا گیا ہے۔ یہ سیال سپرم میں وافر مقدار میں موجود ہوتا ہے اور الرجی اس پروٹین سے ہوتی ہے سپرم سے نہیں۔

جوناتھن برنسٹین جو کہ امریکہ میں یونیورسٹی آف سنسناٹی کے کالج آف میڈیسن میں الرجی اور امیونولوجی پر توجہ مرکوز کرنے والے کلینیکل میڈیسن کے پروفیسر ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ یہ مکمل طور پر واضح نہیں ہے کہ سپرم الرجی والے لوگوں کے جسموں میں کیا ہوتا ہے۔ برنسٹین کے مطابق، جانوروں کے ماڈلز اور متاثرہ انسانوں کی کمی کی وجہ سے اس حالت پر کوئی بڑی تحقیق نہیں کی جا سکتی۔

سپرم الرجی کے معاملات جسم کے کسی مخصوص حصے میں ہو سکتے ہیں یا پھر پورے جسم میں بھی پھیل سکتے ہیں۔

جب یہ سپرم کے رابطے کی جگہ تک محدود ہوتا ہے، تو یہ اکثر اندام نہانی میں یا اس کے ارد گرد رپورٹ کیا جاتا ہے۔ علامات میں سیکس کے فوراً بعد شدید درد اور جلن ہونا شامل ہو سکتا ہے۔

لیکن سپین کے ایک کیس میں ایک خاتون، جنھیں اندام نہانی سے جنسی تعلقات کے بعد پہلے کبھی الرجی نہیں ہوئی تھی، وہ بے ہوش ہوگئیں۔

ان میں سپرم کے سیال کے لیے انتہائی حساسیت کی تصدیق ہوئی۔ امریکہ میں ایک عورت کو غیر جنسی حالت میں بھی سوجن اور دانے نکلنے کا سامنا کرنا پڑا جب ان کی جلد پرسپرم لگ گئے۔

جوناتھن برنسٹین کا کہنا ہے کہ یہ تیزاب کی طرح محسوس ہوتا ہے۔ ان کے ایک مریض نے اسے ’اندام نہانی میں ہزاروں سوئیاں پھنسنے کی طرح‘کے احساس کے طور پر بیان کیا۔

چونکہ سیمین الرجی کے ماہرین بہت کم ہیں اس لیے برنسٹین کے مریض دور دور سے آتے ہیں۔

برنسٹین زیادہ تر خواتین کو دیکھتے ہیں، لیکن ان کا کہنا ہے کہ ان کے علاج سے سپرم کی الرجی والے کسی بھی فرد کو فائدہ ہو سکتا ہے۔

برنسٹین کا کہنا ہے کہ زیادہ تر مریضوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے یا انھیں دوسرے علاج دیے جاتے ہیں کیونکہ ڈاکٹر نہیں جانتے کہ ان سے کیسے نمٹا جائے۔

مردوں کے ساتھ جنسی تعلق رکھنے والے مردوں میں سپرم الرجی کے حوالے سے اعداد و شمار کی شدید کمی ہے۔

برنسٹین کا کہنا ہے کہ انھوں نے ایسا کیس کبھی نہیں دیکھا۔

ان کی رائے میں ان علامات کی وجہ اندام نہانی کا خاص ماحول بھی ہو سکتا ہے۔

علاج کیا ہیں؟

الرجی
Getty Images

ایک علاج میں برنسٹین نے مریض کے ساتھی کی سپرم کو اس کی جلد میں انجکشن لگایا تاکہ اسے غیر حسّاس بنایا جا سکے۔

یہ طریقہ مردانہ پوسٹ آرگیزمک سنڈروم کے علاج سے ملتا جلتا ہے یہ ایک غیر معمولی حالت ہے جس میں مرد اپنے ہی سپرمسے حساسیت کا شکارہوتے ہیں۔

’لیکن یہ مہنگا ہے، مریضوں کو اس کی قیمت ادا کرنی پڑتی تھی کیونکہ نمونے تیار کرنے کا بہت کام لیبارٹری میں کیا جاتا تھا۔‘

برنسٹین اور ان کے ساتھیوں نے پایا کہ یہ علاج ایک بار کیے جانے پر بھی کارآمد ہے۔

سب سے پہلے انھوں نے نطفے کو سیمینل سیال سے الگ کیا۔ اس کے بعد انھوں نے مریض کی شدت کے لحاظ سے سیمنل فلوئڈ کو دس ملین میں ایک حصہ یا ایک ملین میں ایک حصہ تک پتلا کیا۔

خاتون
Getty Images

پھر پندرہ منٹ کے وقفے سے یہ محلول مریض کی اندام نہانی میں ڈالا گیا۔ مریض کی ذرخیزی بڑھانے کے لیے محلول میں سپرم کی مقدار بتدریج بڑھائی گئی۔ پورے عمل میں مریض کی نگرانی کی گئی۔ نتیجے کے طور پر، ’ان کے پورے جسم میں کوئی بڑا ردعمل نہیں تھا اور وہ غیر محفوظ جنسی تعلقات کے قابل ہو گئے تھے۔‘

اس مریض ساتھی کے ساتھ کم از کم ایسا ہی ہوا۔

سیمنل پلازما کی انتہائی حساسیت کو اکثر غلط سمجھا جاتا ہے اور غلط تشخیص کیا جاتا ہے۔ سیکس کے دوران جسم کے دیگر سیالوں کے تبادلے کے بارے میں بھی بہت کم معلومات دستیاب ہیں۔

سروائیکو ویجائنل سیال سے ممکنہ الرجی کے بارے میں بھی تقریباً کوئی شائع شدہ تحقیق نہیں ہے۔ سروائیکو ویجائنلسیال خواتین کی طرف سے ان کے اندام نہانی سے خارج ہوتا ہے، جو اس علاقے کو چکنا کرتا ہے اور اسے جراثیم سے بچاتا ہے۔

جانکووسکی پولینڈ کی نکولس کوپرنیکس یونیورسٹی میں ڈرمیٹولوجی اور وینیرولوجی کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ انھوں نے کم از کم ایک ایسے شخص کا علاج کیا ہے جو کئی دوسرے ڈاکٹروں کو دکھانے کے بعد ان کے پاس آیا تھا۔

مریض نے بتایا کہ سیکس کے تقریباً 30 منٹ بعد ان کا رضو تناسل سرخ ہو گیا اور خارش ہو گئی۔ اس کے بعد ان کے چہرے پر بھی خارش تھی۔ جانکووسکی کے مطابق مریض کا خیال تھا کہ یہ الرجی ہے لیکن ڈاکٹروں نے اس کا مذاق اڑایا اور ان کے خیال کو مسترد کردیا۔

تاہم، جانکووسکی نے جنسی سرگرمیوں کے دوران خواتین کی طرف سے پیدا ہونے والے سروائیکو-اندام نہانی کے سیال پر غور کیا۔

مریض علاج کے بعد بالآخر صحت یاب ہو گیا۔

پیچیدہ جذباتی اثرات

اس معاملے سے متاثر ہو کر، جانکووسکی اور ان کے ساتھیوں نے ایک مطالعہ کیا جو 2017 میں شائع ہوا تھا۔ ان کے مطالعے میں شامل 25 فیصد ماہر امراض جلد نے ایسے معاملات دیکھے تھے تاہم زیادہ تر کو ایسی حالت کے ہونے کا شبہ تھا۔

اس کے جذباتی اثرات پیچیدہ ہو سکتے ہیں، اور دونوں پارٹنرز کو متاثر کر سکتے ہیں۔ جذباتی اثر مریض اور ساتھی دونوں کے لیے پیچیدہ ہو سکتا ہے۔

اس تحقیق کے مطابق متاثرین کو سیکس کے بعد لالی، خارش، جلن، سوجن اور دانے نکلنے کی شکایت ہوتی ہے۔ اس کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ سروائیکو-ویجائنل سیال سے الرجی اتنی ہی عام ہے جتنی کہ سپرم سے الرجی۔

خیال کیا جاتا ہے کہ یہ صرف امریکہ میں کئی ہزار افراد کو متاثر کرتی ہے۔

سپرم اور سروائیکو ویجائنل فلوئڈ سے الرجی کے درمیان ایک فرق یہ ہے کہ کنڈوم علامات سے زیادہ راحت نہیں دے سکتے کیونکہ وہ رانوں کے آس پاس کے حصے کو نہیں ڈھانپتے۔

ان لوگوں کے لیے جو اپنے ساتھی کے کسی خاص پہلو سے الرجک ہیں، اس کے نتائج سنگین ہو سکتے ہیں۔ مورا کا خیال ہے کہ سپرم کے لیے ان کی حسّاسیت نے ان کے بچے پیدا نہ کرنے کے فیصلے میں اہم کردار ادا کیا۔

اگرچہ مورا کا رشتہ محفوظ ہے اور ان کے ساتھی کنڈوم استعمال کرنے میں خوش ہیں۔

وہ کہتی ہیں ’انھوں نے مجھے بتایا کہ وہ پریشان ہیں کہ مجھے ان کے سپرمسے الرجی ہے، لیکن وہ اس کے لیے مجھے الزام نہیں دیتے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.