انڈیا سے ’ایک ہی چھلانگ میں‘ پاکستان آنے والا پانچواں لنگور کیسے ریسکیو کیا گیا؟

image
بہاولنگر کی سرحدی پٹی پر سورج چڑھتے ہی ایک عجیب سی ہلچل مچ گئی تھی۔ درختوں کی شاخوں سے اچھلتا ہوا لمبی دم والا ایک مہمان خاموشی سے سرحد پار کر کے پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھ چکا تھا۔

یہ کوئی جاسوس یا مہاجر نہیں تھا بلکہ ایک انڈین لنگور تھا جو اپنی ایک ہی چھلانگ سے نہ صرف سرحد عبور کر گیا بلکہ علاقے میں اس کی آمد کے باعث ہنگامہ مچ گیا۔

محکمہ وائلڈ لائف کی ٹیم اس کے تعاقب میں تھی اور یہ مقامی شہری کے گھر کی چھت پر جا بیٹھا تھا۔

محکمہ وائلڈ لائف  کے اہل کاروں نے بالآخر پانی کی ٹینکی پر چڑھ کر اسے قابو کر لیا لیکن یہ پہلا لنگور نہیں جو انڈین سرحد عبور کر کے پاکستان میں داخل ہوا ہو۔ اس سے پہلے بھی کئی لنگور سرحد پار کر کے پاکستان آ چکے ہیں۔ 

یہ تحصیل منچن آباد کے ایک سرحدی قصبے منڈی صادق گنج کے علاقے میں آیا تھا جسے بہاولنگر چڑیا گھر منتقل کر دیا گیا جہاں اب اس کی صحت کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔

اسسٹنٹ چیف وائلڈ لائف نذر عباس جو اس علاقے میں برسوں سے جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے کام کر رہے ہیں، بتاتے ہیں کہ اب تک اس سرحدی علاقے سے پانچ لنگور ریسکیو کیے جا چکے ہیں۔ 

ان کے بقول ’یہ انڈین نسل کے لنگور ہیں۔ سرحدی علاقہ ہونے کی وجہ سے یہ گھومتے پھرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اب تک صرف نر لنگور ہی سرحد پار کر کے آئے ہیں۔‘

نذر عباس کے مطابق ان لنگوروں کے سرحد پار کرنے کی ایک وجہ ان کا اپنا ذاتی سماجی ڈھانچہ بھی ہے۔

اس سے پہلے بھی کئی بار انڈیا سے لنگور سرحد پار کر کے پاکستان آ چکے ہیں (فوٹو: محکمہ جنگلی حیات)

وہ بتاتے ہیں کہ ’لنگوروں کے خاندان میں نر لنگوروں کے درمیان مادہ لنگوروں کی وجہ سے تنازعات ہوتے ہیں۔ جو نر ہار جاتے ہیں یا زخمی ہو جاتے ہیں وہ اپنی حفاظت کے پیش نظر دور جانے کے لیے سرحد کے اس پار آ جاتے ہیں۔ ان کی دم لمبی ہوتی ہے اور وہ لمبی چھلانگیں لگانے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو وہ بس ایک چھلانگ میں سرحد پار کر لیتے ہیں۔‘

محکمہ وائلڈ لائف کے مطابق اس بار یہ لنگور ایک شہری کے گھر میں گھس گیا تھا۔

مقامی لوگوں نے اسے پکڑ کر محکمہ وائلڈ لائف کو اطلاع دی لیکن ہر بار کی طرح اس بار بھی لنگور کی آمد نے ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا۔

نذر عباس بتاتے ہیں کہ لوگ اکثر ان جانوروں کے ساتھ چھیڑ خانی کرتے ہیں۔

وہ مزید بتاتے ہیں کہ ’معلوم نہیں کیوں لیکن ہمارے لوگوں کو ان کی آزادی اچھی نہیں لگتی۔ وہ ان کے پیچھے پڑ جاتے ہیں، پتھر مارتے ہیں یا تنگ کرتے ہیں۔‘

نذر عباس نے کہا کہ ایک بار تو حالات اس حد تک بگڑ گئے کہ ایک شہری نے لنگور کو گولی مار دی تھی۔

’ہم نے اس کے خلاف باقاعدہ مقدمہ درج کیا تھا اور لنگور کو ریسکیو بھی کیا۔‘

اس بار بھی لنگور نے ایک شہری کو زخمی کیا لیکن نذر عباس کا کہنا ہے کہ ’جب تک آپ انہیں تنگ نہیں کرتے وہ درختوں پر بیٹھے رہتے ہیں اور کسی کو نقصان نہیں پہنچاتے۔‘

محکمہ وائلڈ لائف کے مطابق لنگور ایک شہری کے گھر میں گھس گیا تھا (فوٹو: محکمہ وائلڈ لائف)

لنگور کو پکڑنا کوئی آسان کام نہیں کیونکہ ان کی چھلانگ لگانے کی صلاحیت اتنی ہوتی ہے کہ آپ جب اس تک پہنچتے ہیں تو یہ اگلے مقام پر پہنچ جاتے ہیں۔

محکمہ وائلڈ لائف کی ٹیم نے اسے پکڑنے کے لیے والی بال کے جال کا استعمال کیا اور اہل کاروں کو پانی کی ٹینکی پر چڑھنا پڑا تاکہ لنگور کو محفوظ طریقے سے قابو کیا جا سکے۔

نذر عباس کہتے ہیں، ’ہماری اولین ترجیح یہ ہوتی ہے کہ جانور کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔‘

مقامی لوگوں نے جب لنگور دیکھا تو اسی وقت محکمہ وائلڈ لائف کو اطلاع کر دی تاہم اس دوران مقامی لوگوں نے اس کی تصویریں اور ویڈیوز بنائیں جو سوشل میڈیا پر وائرل ہیں۔

اس سے قبل سال 2021 میں بھی ایک لنگور بہاولنگر کی آبادی میں گھومتا رہا تھا۔

تین دن تک وہ دکانوں اور گھروں کی چھتوں پر مستیاں کرتا رہا۔ مقامی انتظامیہ نے روایتی جال، ڈنڈوں اور رسیوں کی مدد سے اسے پکڑنے کی کوشش کی لیکن لنگور ہر بار چکمہ دینے میں کامیاب ہو جاتا۔ بالآخر محکمہ وائلڈ لائف کی مدد سے اسے پکڑ لیا گیا تھا۔

گزشتہ روز جو لنگور سرحد عبور کر کے پاکستان آیا تھا اسے ریسکیو کر کے چڑیا گھر منقتل کیا جا چکا ہے جہاں اس کا طبی معائنہ کیا جا رہا ہے۔

نذر عباس بتاتے ہیں کہ ’ان کے پاس اب پانچ لنگور ہیں۔ پہلا لنگور میں نے سال 2012 میں بہاولپور کے علاقے ہارون آباد سے ریسکیو کیا تھا جب میں وہاں انسپکٹر تھا۔ اس کے بعد بہاولنگر، منچن آباد اور دیگر علاقوں سے بھی لنگور ریسکیو کیے گئے ہیں۔‘

چڑیا گھر میں ان لنگوروں کی دیکھ بھال کی جاتی ہے لیکن نذر عباس کا کہنا ہے کہ یہ جانور اپنے قدرتی ماحول میں زیادہ خوش رہتے ہیں۔

’تاہم بدقسمتی سے جب یہ سرحد پار کر لیتے ہیں تو ہمارے پاس انہیں چڑیا گھر منتقل کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا۔‘

نذر عباس کا کہنا ہے کہ لوگوں کی جانب سے جنگلی جانوروں کے ساتھ بدسلوکی کی ایک بڑی وجہ تعلیم کی کمی ہے۔

ٹیم نے لنگور کو پکڑنے کے لیے جال کا استعمال کیا (فوٹو: وائلڈ لائف)

’لوگ مداری کو پیسے دے کر بندر کے کرتب دیکھتے ہیں لیکن اگر وہی جانور جنگل سے نکل کر ان کے سامنے آ جائے تو اس پر پتھر پھینکتے ہیں۔‘

وہ شہریوں سے اپیل کرتے ہیں کہ اگر کوئی غیر معمولی جنگلی جانور نظر آئے تو فوری طور پر محکمہ وائلڈ لائف کو اطلاع دی جائے۔

’ہماری ٹیم فوری کارروائی کرتی ہے تاکہ نہ جانور کو نقصان پہنچے اور نہ ہی لوگوں کو۔‘

دوسری طرف جنگلی حیات کے تحفظ کے حوالے سے کام کرنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ مقامی سطح پر محکمہ وائلڈ لائف کے پاس جانوروں کو ریسکیو کرنے کے لیے آلات کی کمی ہے۔

محکمہ وائلڈ لائف کے مطابق اس لنگور کو والی بال نیٹ کے ذریعے ریسکیو کیا گیا جبکہ ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اسے ایک بند صندوق میں رکھ کر چڑیا گھر منتقل کیا جا رہا ہے۔

جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے فہد ملک بتاتے ہیں کہ ’اس لنگور کو ریسکیو کرنے کے بعد جس طریقے سے لے جایا جا رہا ہے وہ پیشہ ورانہ طریقہ نہیں ہے۔ کسی بھی جانور کو صرف ریسکیو کرنا ہی ضروری نہیں ہوتا بلکہ اسے محفوظ طریقے سے محفوظ مقام پر منتقل کرنا بھی از حد ضروری ہوتا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’اس لنگور کو اتنی گرمی میں ایک بند صندوق میں لے جایا جا رہا ہے جبکہ ایسے محکموں کے پاس ہوا ہوا دار پنجرے بھی ہوتے ہیں جن کا استعمال ایسے مواقع پر کیا جا سکتا ہے۔‘


News Source   News Source Text

پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.