اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو ایران پر حملہ کرنے کے مقاصد میں ناکامی کے باوجود امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ہدایت پر ایران کے ساتھ جنگ بندی پر آمادہ ہوگئے ہیں۔
نیتن یاہو نے اپنے بیانات میں کہا تھا کہ ان کے ایران کے ساتھ جنگ کرنے کے مقاصد میں اولین مقصد رجیم چینج تھا یعنی وہ ایران کے موجودہ ایرانی نظام حکومت کو فرسودہ، جارحیت پسند اور تشدد آمیز سوچ کا مظہر قرار دیتے آئے ہیں اسی لیے وہ چاہتے تھے کہ ایران میں نظام حکومت تبدیل ہو اور اس بات کی توثیق امریکی صدر ٹرمپ نے بھی کی تھی۔ البتہ نیتن یاہو اس مقصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہے۔
اسرائیلی وزیراعظم کا دوسرا بڑا مقصد ایران کے جوہری پروگرام کو نیست و نابود کرنا تھا۔ البتہ اسرائیل کے پاس اسے تباہ کرنے کی صلاحیت نہیں تھی اور وہ امریکی صدر کی منت سماجت پر اتر ہوا تھا کہ وہ اس جنگ میں شامل ہوکر ایران کے جوہری پروگرام کو تباہ کردے۔ امریکا نے اسرائیلی اصرار کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے ایران کی تین جوہری تنصیبات، نطنز، فردو اور اصفحان پر براہ راست حملہ کرتے ہوئے انہیں تباہ کرنے کا دعویٰ کیا۔
ایران نے حملوں کی شدید مذمت بھی کی، جوابی وار بھی کیا اور دعویٰ کیا کہ اس کا جوہری پروگرام اپنی جگہ برقرار ہے۔ اطلاعات ہیں کہ امریکا نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے سے قبل آگاہ کردیا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ اس کا مقصد ایران کو اتنا وقت دینا تھا کہ وہ تابکاری مواد وہاں سے متنقل کردے تاکہ کسی بڑی تباہی سے ایران، اس کے عوام اور خطے کو محفوظ رکھا جاسکے۔ اسرائیل اپنے اس مقصد کو حاصل کرنے میں بھی کامیاب نظر نہیں آیا۔
ایران پر حملہ کرنے کا اسرائیل کا تیسرا اہم مقصد یہ تھا کہ ایران کے حملوں سے اسرائیل کو محفوظ رکھا جا سکے۔ لیکن ایران نے جنگ کے دوران تقریبا پانچ سو سے زائد میزائل داغے جنہوں نے اسرائیل کی اہم تنصیبات سمیت دیگر علاقوں کو بھی نشانہ بنایا۔ اس دوران ایران نے تیز رفتار میزائل بھی داغے جنہیں اسرائیل کا دفاعی نظام روکنے میں ناکام رہا۔ ایرانی میزائلوں نے اسرائیل میں خاصی تباہی مچائی جس کا تخمینہ اسرائیل لگا رہا ہے۔
اسرائیل اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود ایران کے میزائل پروگرام کو تباہ کرنے اور ایران کے میزائلوں سے مستقبل میں بھی اپنے عوام کو محفوظ کرنے میں ناکام رہا۔
اسرائیلی وزیراعظم نے تینوں مقاصد میں ناکامی کے باوجود دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے ایران پر حملہ کرنے کے اپنے بیشتر اہداف حاصل کرلیے ہیں۔ البتہ سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ملک کے اندر انہیں اپوزیشن کی زبردست تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسرائیل کا اندرونی سیاسی منظر نامہ بتا رہا ہے کہ زرا گرد بیٹھنے کے بعد ایران کی رجیم تبدیل کرنے کے خواہاں نتین یاہو کو اپنی کرسی بچانے کے لئے جدوجہد کرنا پڑے گی۔
اس جنگ سے اسرائیل کے طاقتور ہونے کا تاثر بھی ایران نے زائل کردیا ہے اور دنیا کو پیغام دے دیا ہے کہ ایران سے جنگ چھیڑنے کا مطلب طویل جنگ بھی ہوسکتی ہے جس میں نقصان ایران سمیت حملہ آور ملک کا بھی برابر ہوگا۔