پی ٹی آئی میں اندرونی اختلافات: کیا واقعی معاملات ’مائنس عمران خان‘ تک پہنچ چکے ہیں؟

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد جس طرح جماعت پر کریک ڈاؤن کیا گیا اور اہم رہنماؤں کو پارٹی چھوڑنے پر مجبور کیا گیا اس کے اثرات اب نظر آنا شروع ہوئے ہیں۔
عمران خان
Getty Images

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اندر اختلافات کی خبریں گذشتہ کئی عرصے سے گردش کر رہی ہیں اور قائدین کی ایک دوسرے پر تنقید اور اب علیمہ خان کا ’مائنس عمران خان‘ کے حوالے سے بیان ان خبروں کو تقویت دے رہا ہے۔

اڈیالہ جیل کے باہر ایک صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے سابق وزیرِ اعظم کی بہن علیمہ خان کا کہنا تھا کہ ’میرا خیال ہے کہ اب (عمران خان) مائنس ہی ہو گئے ہیں۔‘

ایک اور صحافی نے انھیں بتایا کہ خیبر پختونخوا اسمبلی میں صوبائی بجٹ عمران خان کی اجازت کے بغیر ہی منظور کر لیا گیا اور اراکین پارلیمنٹ کہتے ہیں کہ وہ علی امین گنڈاپور کو نہ نہیں کہہ سکتے۔ اس بات کا جواب دیتے ہوئے علیمہ خان نے کہا کہ ’اگر بوجھ نہیں اُٹھا سکتے تو گھر چلے جائیں۔‘

علیمہ خان کی اس گفتگو کے بعد خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ امین گنڈاپور کا بھی ایک ویڈیو پیغام منظرِ عام پر آیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ ’مائنس عمران خان اس وقت ہی ہو گا جب ہم زندہ نہیں ہوں گے۔‘

یہ ایسے بیانات ہیں جن پر اب کھل کر بحث کی جا رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ شاید ملک کی سیاست میں کوئی بڑی تبدیلی آ سکتی ہے۔

اگرچہ جماعت کے اندر اختلافات کی باتیں 2024 کے انتخابات کے دوران ہی شروع ہو گئی تھیں لیکن اس بارے میں کوئی کھل کر بات نہیں کرتا تھا لیکن اب جماعت میں مرکزی سطح اور خیبر پختو نخوا میں دھڑے بندی اور تنظیمی سطح پر بار بار ایک دوسرے پر تنقید پی ٹی آئی میں مزید اختلافات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد جس طرح جماعت پر کریک ڈاؤن کیا گیا اور اہم رہنماؤں کو پارٹی چھوڑنے پر مجبور کیا گیا اس کے اثرات اب نظر آنا شروع ہوئے ہیں۔

دوسری جانب جماعت کے قائدین اور کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس وقت جماعت کے اندر اگرچہ مایوسی ہے لیکن جس دن عمران خان کا کوئی بھی اہم بیان، اپیل یا عمران خان خود سامنے آگئے اس دن جماعت ایک بار پھر اپنے پیروں پر کھڑی ہو جائے گی۔

علیمہ خان
Getty Images
ایک صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے سابق وزیرِ اعظم کی بہن علیمہ خان کا کہنا تھا کہ ’میرا خیال ہے کہ اب (عمران خان) مائنس ہی ہو گئے ہیں‘

پی ٹی آئی کے اندر اختلافات اور جماعت کی اندرونی سیاست کی تفصیل میں جانے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ علیمہ خان کو ’مائنس عمران خان‘ سے متعلق بیان دینے کی ضرورت کیوں پڑی اور خیبر پختونخوا کے بجٹ میں ایسا کیا تھا جس کی منظوری پارٹی رہنماؤں کے درمیان تنازع کی وجہ بن گئی۔

تنازع کی وجہ بجٹ یا کچھ اور؟

خیبر پختونخوا حکومت کے حالیہ بجٹ پیش کرنے اور اس کی منظوری کے بعد جاری بیان بازی پر قائدین کی جانب سے تنقید اور وضاحتیں سامنے آ رہی ہیں۔

منگل کو عمران خان سے جیل میں ملاقات کرنے والی ان کی بہن نورین خان نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی اپنے بھائی سے ملاقات تقریباً 15 منٹ جاری رہی اور ان کے مطابق اس دوران عمران خان کا کہنا تھا کہ صوبائی بجٹ کے لیے ان کی منظوری ضروری تھی اور ملاقات کی اجازت کے لیے سپریم کورٹ سے رابطہ کیا جا سکتا تھا۔

نورین خان نے بتایا کہ ’عمران خان چاہتے تھے کہ یہ بجٹ ان کی مشاورت سے پیش اور منظور کیا جاتا۔‘

نورین خان سے جب پوچھا گیا کہ پی ٹی آئی کے اندر اختلافات کی باتیں ہو رہی ہیں تو انھون نے کہا کہ ’جب گھر کا سربراہ نہ ہو تو بچوں میں اختلاف ہوتا ہے لیکن عمران خان جب آئیں گے تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘

اس سے قبل وزیر اعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے خیبر پختونخوا کا بجٹ پیش کرتے وقت کہا تھا کہ جب تک ان کی ملاقات عمران خان سے نہیں کروائی جاتی تب تک وہ بجٹ منظور نہیں کریں گے لیکن پھر جماعت کا ایک اجلاس ہوا اور اس میں بجٹ منظور کرنے کی قرار داد منظور کی گئی۔

اس کے بعد علی امین گنڈا پور نے اپنے موقف میں تبدیلی لاتے ہوئے ایک ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ بجٹ منظور نہ کرنے کی صورت میں وفاق کی جانب سے فنانشل ایمر جنسی نافذ کی جا سکتی تھی جس سے خیبر پحتونخوا میں ان کی حکومت کو ختم کیا جا سکتا تھا۔

بجٹ کے بارے میں وزیرِ اعلیٰ کے مشیر مزمل اسلم سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’صوبائی حکومت نے اپنی بھرپور کوشش کی کہ عمران خان سے ملاقات ہو جائے تاکہ بجٹ میں عمران خان کی مشاورت شامل ہو۔ اب اگر بجٹ پیش نہ کیا جاتا تو آئندہ سال اخراجات پورے کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا۔‘

علی امین گنڈاپور
Getty Images
خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ ’مائنس عمران خان اس وقت ہی ہو گا جب ہم زندہ نہیں ہوں گے‘

خیبر پختونخوا اسمبلی میں بجٹ کی منظوری پر جب پی ٹی آئی کے صوبائی صدر اور رُکن قومی اسمبلی جنید اکبر سے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’میں اس بارے میں کوئی بات نہیں کر سکتا کیونکہ میرا عمران خان سے رابطہ ہی نہیں اور مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ عمران خان نے خیبرپختونخوا کے بجٹ کے بارے میں کیا کہا، اس لیے میں نہ تو اس کے حق میں کوئی بات کرسکتا ہوں اور نہ ہی اس کے خلاف۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’عمران خان صاحب مخصوص لوگوں کو ہی ملنے کی اجازت ملتی ہے، وہی ملتے ہیں اور وہی باتیں کرتے ہیں۔‘

کیا عمران خان مائنس ہو رہے ہیں؟

حالیہ انتخابات میں پی ٹی آئی کو سب سے زیادہ ووٹ ملے ہیں اور تجزیہ کاروں کے مطابقان ووٹوں کی وجہ صرف عمران خان ہیں۔

دو روز قبل اڈیالہ جیل کے باہر عمران خان سے ملاقات کے بعد عمران خان کی بہن علیمہ خان نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ جب خواتین ملاقات کے دن جیل میں آ کر بیٹھ سکتی ہیں تو پھر ان کے نام پر ووٹ لینے والے ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’میرا خیال ہے مائنس ہی ہو گئے۔‘

اس کے بعد علی امین گنڈاپور کا ویڈیو بیان سامنے آیا جس میں انھوں نے ’اندرونی اور بیرونی سازشوں‘ کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ خیبر پختونخوا میں ان کی حکومت ختم کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ وہ عمران خان کے ساتھ ہیں اور ان کے حکم پر ایک لمحے میں اپنی حکومت ختم کر سکتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ اب بھی کوشش کر رہے ہیں کہ عمران خان سے ان کی ملاقات ہو سکے اور ان کا مشورہ یا ترمیم اب بھی بجٹ میں شامل کی جا سکتی ہے۔

تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ عمران خان ایک برس سے زیادہ کے عرصے سے اڈیالہ جیل میں ہیں اور ان کے مخالفین ہر اس موقع کا فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں جس سے پی ٹی آئی کی مقبولیت میں کمیلائی جا سکے۔

صحافی و تجزیہ کار علی اکبر نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’پی ٹی آئی ایک مقبول جماعت ہے اور اس میں مائنس عمران خان کی باتیں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں۔‘

پی ٹی آئی
Getty Images
حالیہ انتخابات میں پی ٹی آئی کو سب سے زیادہ ووٹ ملے

’اب ایک مرتبہ پھر مائنس عمران خان کا بیانیہ اچھالا جا رہا ہے، اب جب عمران خان جیل میں ہیں اور ان سے رابطے محدود ہیں تو ایسے میں ان کی مخالف جماعتیں خاص طور پر پاکستان مسلم لیگ نواز اور اسٹیبلشمنٹ کوئی ایسا موقع جانے نہیں دیتے جس سے اس جماعت کی مقبولیت میں کمی لائی جا سکے۔‘

مردان سے منتخب رکن قومی اسمبلی عاطف خان کے بارے میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ اور ان کے ساتھ چند دیگر رہنما علی امین گنڈا پور کی پالیسیوں سے اختلاف رکھتے ہیں۔

ان سے جب رابطہ کر کے اس حوالے سے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’پی ٹی آئی عمران خان کے ساتھ متحد ہے، جو کچھ بھی عمران خان کہتے ہیں سب اس پر عمل کرتے ہیں کیونکہ سب کو معلوم ہے جس نے بھی عمران خان کی مخالفت کی، اس کا حشر پھر پرویز خٹک، محمود خان یا اس طرح کے دیگر لوگوں کی طرح ہی ہوا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’مائنس عمران خان‘ نہیں ہو سکتا کیونکہ کارکنان اور لوگ عمران خان کے ساتھ ہیں اور جن کو عمران خان نے جو بھی عہدہ دیا، وہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں۔

کیا کارکنان مایوس ہیں؟

خیبر پختونخوا کی سیاست میں پی ٹی آئی کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ صوبے میں لگاتار اس جماعت کی تیسری مرتبہ حکومت قائم ہے اور احتجاجی مظاہروں میں آج بھی صوبے سے بڑی تعداد لوگ شریک ہوتے ہیں۔

ان احتجاجی مظاہروں میں کارکنان زخمی اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکاروں کے ہاتھوں گرفتار بھی ہوتے رہے ہیں۔

حالیہ دنوں میں جماعت جس بحران کا شکار ہے اس بارے میں بات کرنے کے لیے بی بی سی نے کچھ ایسے کارکنوں سے رابطہ کیا جو مشکل وقت میں جماعت کے ساتھ رہے ہیں۔

ان میں سے ایک سعید خان بھی ہیں۔ ان کے بھائی کوسزا سنائی گئی تھی لیکن بعد میں وہ رہا کر دیے گئے تھے۔

عمران خان
Getty Images
خیبر پختونخوا کی سیاست میں پی ٹی آئی کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ صوبے میں لگاتار اس جماعت کی تیسری مرتبہ حکومت قائم ہے

انھوں نے کہا کہ ’کارکنان اس وقت قائدین کے بیانات اور جماعت میں ہلچل سے مایوس نظر آ رہے ہیں لیکن وہ کسی بھی شخص کو اپنا رہنما نہیں مانتے، وہ صرف عمران خان کو مانتے ہیں۔‘

پی ٹی آئی کے کچھ ایسے کارکنان بھی ہیں جنھوں نے اب سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے۔

ایک ایسے ہی کارکن نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ وہ عمران خان کی تقریروں سے متاثر ہوئے تھے اور سیاستدان بننے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن حالیہ دنوں میں جو ملکی سیاست کے حالات ہیں اس نے انھیں مایوس کر دیا۔

دوسری جانب تجزیہ کار علی اکبر کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی اس وقت ایک مشکل دور سے گزر رہی ہے لیکن ’پی ٹی آئی کا مطلب عمران خان ہے، یہ جماعت عمران خان کے نام پر قائم ہے اور جس دن بھی عمران خان رہا ہوئے یا انھوں نے تحریک یا احتجاج کی کال دی تو اس دن سب ایک ساتھ ہوں گے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.