سندھ پولیس کے سابق افسر نے کچے کے ڈاکوؤں کے پاس سندھ پولیس سے بھی جدید ہتھیاروں کی موجودگی کا انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ کچے میں ڈاکو گذشتہ کئی سال سے روزانہ کی بنیاد پر لوگوں کو تاوان کے لیے اغوا کرنے کے ساتھ لوٹ مار بھی کر رہے ہیں ۔
پولیس کے ایک سینئر آفیسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ڈاکوؤں کو محکمہ پولیس کے افسران اور اہلکاروں کی پشت پناہی بھی حاصل ہے جو انہیں خفیہ طور پر پیشگی اطلاعات پہنچاتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ محکمہ پولیس نے اس حوالے حکومت سندھ کو آگاہ بھی کیا تاہم اب تک سہولت کار پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی نہ ہوسکی۔
سندھ حکومت نے 2024 اور 2025 کے بجٹ میں جدید ہتھیاروں کی خریداری پر 2 ارب روپے خرچ کیے تاہم اب بھی ڈاکوؤں کے پاس پولیس سے جدید ترین ہتھیار موجود ہیں۔
کچے کے ڈاکوؤں کے پاس کون کون سے جدید ہتھیار ہیں؟
ڈاکوؤں کے پاس سندھ پولیس کے ڈرون کو کنٹرول کے لیے جدید ترین ڈیوائس سمیت راکٹ لانچر اور جدید رائفلز موجود ہیں۔ اس حوالے سے سابق سینئر سپرٹنڈنٹ آف پولیس تنویر تنیو کا کہنا تھاکہ ڈاکوؤں کے پاس جدید ترین ہتھیار ہیں جبکہ پولیس کے پاس جدید ہتھیار جی تھری ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ڈاکوؤں کے ہتھیاروں کی رینج 3 کلو میٹر جبکہ پولیس کے پاس موجود ہتھیاروں کی رینج صرف 500 میٹر ہے۔ سندھ حکومت کی جانب سے دیے گئے ٹینک کو روکنے کے لیے ڈاکوؤں کی جانب سے کئی کلومیٹر طویل اور گہری خندق کھود دی جاتی ہے جس میں کئی پولیس اہلکاروں کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات سامنے آچکی ہیں۔
ڈاکوؤں تک جدید ہتھیاروں کی رسائی سے متعلق آج تک درست معلومات نہ مل سکیں کہ ان کے پاس جدید ہتھیار کیسے پہنچتے ہیں؟ گذشتہ سال ایک واقعہ پیش آنے کی اطلاع آئی کہ حکومت سندھ کے ایک مشیر کا بیٹا ڈاکوؤں تک ہتھیار پہنچانے جارہا تھا جسے پولیس نے بھاری اسلحہ سمیت پکڑ لیا تھا۔
مقامی لوگوں کے مطابق ڈاکوؤں کو سیاسی پشت پناہی ضرور حاصل ہے جس کی وجہ سے آج تک ان کے خلاف کوئی بڑا اور فیصلہ کن آپریشن نہیں ہوسکا۔
ڈاکوؤں کو ہتھیاروں کی رسائی کئی راستوں سے ہونے سے متعلق بھی الزامات لگے، سندھ اسمبلی میں سابق اپوزیشن لیڈر حلیم عادل شیخ نے کئی بار بتایا کہ کچے کے ڈاکوؤں پر پکے کے ڈاکوؤں کا ہاتھ ہے۔
عوامی حلقوں نے سوال اٹھایا کہ کیا آنے والے دنوں میں سندھ اور پنجاب پولیس مشترکہ طور پر گرینڈ آپریشن کرکے کچے کا پورا علاقہ ڈاکوؤں سے خالی کرا سکتی ہے؟
کیونکہ آئے روز اغوا برائے تاوان کی وارداتوں اور لوٹ مار کی وجہ سے کئی خاندان کچے کے آس پاس شہروں سے ہجرت کرکے دوسرے شہروں کی طرف چلے گئے ہیں۔ کئی ہندو خاندان ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔جیکب آباد کشمور اور پنجاب سندھ باڈر پر لوگوں کے آنے جانے میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔