وہ چہروں سے مسکراتی تھیں، کیمرے کی چمک میں جگمگاتی تھیں، ناظرین کے لیے انٹرٹینمنٹ کا ذریعہ تھیں… مگر زندگی کے پردے پر اُن کا آخری سین ایسا تھا کہ دل دہل گیا۔
ہم بات کررہے ہیں ان 2 اداکاراؤں کی جن کی بے بسی میں ہونے والی حالیہ اموات نے لوگوں کی روح تک کو جھنجھوڑ ڈالا ہے۔ مرتے ہوئے کسی کا منہ میں پانی ڈالنا تو دور بلکہ ان کی موت کا تو دنوں، ہفتوں کسی کو پتا ہی نہ چلا۔ لوگ حیران ہیں آخر کیسے اپنے تھے جو اپنے ہی خون سے اس قدر بیگانہ تھے؟ کسی نے حال پوچھنے کے لئے فون کیوں نہیں کیا؟ رابطہ نہ ہونے پر تشویش کیوں نہ ہوئی؟
عائشہ خان جو چند ہفتے پہلے کراچی کے علاقے گلشن اقبال کے ایک فلیٹ میں مردہ پائی گئیں، ایک بزرگ خاتون تھیں جن کے کئی بچے تھے، اکیلے زندگی گزارنے والی عائشہ شوبز انڈسٹری میں ایک جانا پہچانا چہرہ تھیں۔ انتقال کے 2 ہفتے بعد ملنے والی ان کی لاش پر لوگوں نے ان کے بچوں کے رویے پر کئی سوال اٹھائے۔ البتہ کسی نے کوئی بیان دیا نہ صفائی۔ عائشہ خان کی تدفین انتہائی خاموشی سے کی گئی اور ایک باب ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا۔
دوسری طرف حمیرا اصغر، جو ایک نوجوان اداکارہ تھیں، کئی مہینوں تک ان کی لاش کمرے میں پڑی رہی لیکن نہ تو کسی اپنے نے حال پوچھا نہ تو کسی پرائے نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ ہاں جب کرایہ ادا نہ ہوا تو مالک مکان گھر کے اندر داخل ہوا جہاں حمیرا، زمانے کی اذیتوں سے کب کا چھٹکارا حاصل کرچکی تھیں۔
حمیرا کے گھر والوں نے بیٹی کی لاش تک وصول کرنے سے انکار کردیا۔ لوگ صدمے میں ہیں کہ آخر کون سا جرم اتنا بڑا ہوتا ہے کہ سگا خون موت کی خبر سن کر بھی پتھر بن جائے؟ حمیرا کے گھر کی بجلی کئی مہینوں پہلے کاٹی جاچکی تھی، کرایہ ادا نہیں ہوا تھا۔ کیا اتنی کسمپرسی کے حالات میں انھوں نے کسی سے مدد نہیں مانگی ہو گی؟ کوئی اپنوں سے کس حد تک منہ پھیر سکتا ہے اس بات کا ثبوت ان دو مرنے والیوں نے دے دیا۔
یہ دونوں کہانیاں صرف موت کی نہیں، بلکہ ان بے آواز چیخوں کی ہیں جو کسی نے نہ سنیں۔ یہ صرف دو فنکاراؤں کا زوال نہیں، بلکہ رشتوں، تعلقوں اور انسانی احساس کی موت ہے۔ عائشہ خان کی لاش دو ہفتے تک فلیٹ میں پڑی رہی اور کوئی بیٹا، کوئی بیٹی، کوئی جاننے والا اُن کی غیر موجودگی پر چونکا تک نہیں۔ اور حمیرا اصغر… وہ ایک ایسی بیٹی ثابت ہوئیں جنہیں مرنے کے بعد بھی اپنے والد کی طرف سے قبولیت نہ ملی۔
کیا یہ وہی معاشرہ ہے جہاں بیٹی کو رحمت کہا جاتا ہے؟ کیا یہی وہ سماج ہے جو بڑھاپے کا احترام سکھاتا ہے؟ اگر ایک اداکارہ جو لاکھوں دلوں کو مسکراہٹیں دے گئی، تنہا مر جائے اور مہینوں تک کسی کو خبر نہ ہو، تو اصل بیماری ہماری بے حسی ہے۔
ان اموات نے ہمیں آئینہ دکھا دیا ہے۔ وہ آئینہ جس میں صرف دو چہرے نہیں، بلکہ ایک پورا معاشرہ لاشوں پر خاموش تماشائی بن کر کھڑا نظر آتا ہے۔ اگر آج ہم نے ان کہانیوں سے سبق نہ لیا، اگر ہم نے اپنے بزرگوں، بیٹیوں، بھائیوں، بہنوں، اور دوستوں کے دلوں تک پہنچنے کی کوشش نہ کی، تو کل شاید یہ کہانی کسی اور کے نہیں، خود ہمارے اپنوں کی ہو۔
یہ محض فنکارائیں نہیں تھیں، یہ وہ چراغ تھیں جو بجھتے وقت بھی معاشرے کی سچائی کو روشنی میں لے آئیں۔ شاید اب بھی وقت ہے رشتوں کو صرف رشتے نہ رہنے دیں، اُن میں احساس، موجودگی، اور محبت واپس لائیں… ورنہ اگلی لاش پھر صرف کسی اداکار کی نہیں، شاید انسانیت کی ہو گی۔