پروفیسر پاؤلو نے برازیل کے ریو ڈی جنیرو میں برکس سربراہی اجلاس سے ایک دن قبل نیوز چینل آر ٹی کو دیے انٹرویو میں کہا تھا کہ انڈیا برکس کے اندر ایک بڑا مسئلہ ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ نے برکس ممالک پر بغیر کسی استثنی کے دس فیصد اضافی ٹیرف لگانے کا اعلان کیا ہےبرازیل کے معروف ماہر اقتصادیات اور برکس نیو ڈیولپمنٹ بینک کے سابق نائب صدر پروفیسر پاؤلو نوگیرو بیتستا کا ایک تبصرہ سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔
پروفیسر پاؤلو نے برازیل کے ریو ڈی جنیرو میں برکس سربراہی اجلاس سے ایک دن قبل نیوز چینل آر ٹی کو دیے انٹرویو میں کہا تھا کہ انڈیا برکس کے اندر ایک بڑا مسئلہ ہے۔
پروفیسر پاؤلو نے کہا تھا کہ 'انڈیا شاید برکس کے اندر ایک بڑا مسئلہ ہے۔ کئی لوگ کہتے ہیں کہ انڈیا برکس کے اندر ایک ٹروجن ہارس ہے۔ مودی اسرائیل اور نتن یاہو کی حمایت کیسے کر سکتے ہیں؟ مودی نتن یاہو کے ساتھ اچھے تعلقات کیسے رکھ سکتے ہیں؟ جب انڈیا کے وزیر اعظم غزہ میں اسرائیل کی نسل کشی کی حمایت کریں گے تو وہاں کے لوگ کیا سوچیں گے؟ انڈیا ایران کے نیوز روم میں اسرائیل کی حمایت کیسے کر سکتا ہے؟ انڈیا کو چین کا ڈر ہے اسی لیے وہ امریکہ سے قربت رکھتا ہے۔ لیکن برکس کے اندر کی یہی (انڈیا) سب سے بڑی کمزوری ہے۔'
ٹروجن ہارس یونانی دیومالائی کہانی کا استعارہ ہے۔ اس میں دشمنوں نے چال چلتے ہوئے محاصرہ تو ختم کر لیا لیکن اپنا لکڑی کا ایک بڑا گھوڑا چھوڑ دیا تھا۔ اس گھوڑے کے اندر سپاہی تھے۔ حریفوں کو خبر نہ ہوئی اور اس گھوڑے کو اپنی فصیل کے اندر لے آئے۔ موقع ملتے ہی سپاہی گھوڑے سے نکلے اور حملہ کر دیا۔ پروفیسر پاؤلو برکس میں انڈیا کو اس ٹروجن ہارس کے طور پر دیکھتے ہیں۔'
دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے برکس کے رکن ممالک پر اضافی 10 فیصد محصول (ٹیرف) عائد کرنے کی دھمکی دی ہے۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ برکس امریکی کرنسی ڈالر کے اثر کو کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ٹرمپ نے یہ بھی کہا ہے کہ برکس کے کسی بھی رکن ملک کو ٹیرف سے چھوٹ نہیں ملے گی۔
امریکہ برکس کے بارے میں اپنی بے چینی کا اظہار کرتا رہا ہے۔ برکس کو مغرب مخالف گروپ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ دوسری طرف انڈیا کواڈ کا بھی حصہ ہے جسے چین مخالف گروپ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ روس اور چین کواڈ کے بارے میں بے چینی کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ ایسے میں انڈیا کے لیے توازن برقرار رکھنا کسی بڑے چیلنج سے کم نہیں ہے۔
اتوار کو برکس سربراہی اجلاس کے اختتام پر ایک مشترکہ بیان جاری کیا گیا جس میں ایران پر اسرائیل اور امریکہ کے حملے کی مذمت کی گئی۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل غزہ سے اپنی فوجیں نکال لے۔ برکس نے اسرائیل سے غیر مشروط مستقل جنگ بندی کی اپیل کی ہے۔
ایس سی او سے برکس میں کیا تبدیلی آئی؟
ابھی چند ہفتے قبل چین میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے رکن ممالک کے وزرائے دفاع کا اجلاس ہوا۔ اس ملاقات کے بعد جاری مشترکہ بیان میں ایران پر اسرائیل کے حملے کی مذمت کی گئی۔ لیکن انڈیا نے اس بیان سے خود کو الگ کر لیا۔
ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں ایسا کیا بدل گیا کہ انڈیا نے شنگھائی تعاون تنظیم میں اسرائیل کی مذمت کرنے سے خود کو دور کر لیا اور برکس کے اعلامیہ میں اسے قبول کر لیا۔
دہلی میں قائم جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں سینٹر فار رشین اینڈ سینٹرل ایشین اسٹڈیز کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر راجن کمار کہتے ہیں کہ ایس سی او اور برکس کے مشترکہ بیان میں بنیادی فرق ہے۔
ڈاکٹر راجن کا کہنا ہے کہ 'برکس کے بیان میں پہلگام میں دہشت گردانہ حملے کی مذمت کی گئی ہے۔ سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ پاکستان کا نام نہیں لیا گیا ہے لیکن انڈیا میں سرحد پار دہشت گردی کا مطلب پاکستان ہے۔ دوسری طرف ایس سی او کے مشترکہ بیان میں پہلگام میں دہشت گرد حملے کی مذمت نہیں کی گئی۔ اسی وجہ سے انڈیا نے مشترکہ بیان سے خود کو دور کر لیا۔ یہ انڈیا کے موقف میں تبدیلی کی ٹھوس وجہ ہے۔'
ڈاکٹر راجن کمار کہتے ہیں: 'جہاں تک ٹرمپ کی دھمکی کا تعلق ہے، انڈیا ان دھمکیوں کے سامنے نہیں جھکے گا۔ وزیر تجارت پیوش گوئل نے بھی واضح کیا ہے کہ انڈیا تجارتی سودے ڈیڈ لائن پر نہیں کرتا بلکہ اپنے مفادات کے مطابق کرتا ہے۔ ٹرمپ نے پی ایم مودی سے ملاقات کے بعد ٹیرف کا اعلان کیا۔ ٹرمپ کی پالیسی بہت غیر متوقع ہے۔ ایسی صورت حال میں انڈیا ٹرمپ پر بھروسہ نہیں کر سکتا ہے اور نہ ہی امریکہ کے لیے پورے گلوبل ساؤتھ کو چھوڑ سکتا ہے۔ اگر ٹرمپ کے ساتھ بات نہیں بنتی تو انڈیا برکس کی طرف دیکھے گا۔'
کیا انڈیا برکس کے اندر ایک ٹروجن ہارس ہے؟ فرانس میں انڈیا کے سابق سفیر جاوید اشرف کا کہنا ہے کہ اگر کوئی برکس کو مغرب مخالف گروپ کے طور پر دیکھتا ہے تو انڈیا اس کے لیے مسئلہ بن سکتا ہے۔
جاوید اشرف کا کہنا ہے کہ 'اگر پروفیسر پاؤلو برکس کو مغرب مخالف گروپ کے طور پر دیکھتے ہیں تو وہ انڈیا سے مایوس ہوسکتے ہیں۔ لیکن انڈیا برکس کو مغرب مخالف گروپ کے طور پر نہیں دیکھتا۔ انڈیا اپنے مفادات کے لیے برکس سے جڑا ہوا ہے اور کسی کے خلاف متحرک ہونے کے لیے نہیں۔'
انڈیا کی اسرائیل کے ساتھ نزدیکیاں دیگر برکس ممالک کو قابل قبول نہیںخارجہ پالیسی اپنے مفاد میں
جاوید اشرف کا کہنا ہے کہ 'انڈیا نہ تو مغرب کی مخالفت کرنے کے لیے برکس میں ہے اور نہ ہی چین اور روس کی مخالفت کے لیے کواڈ میں۔ انڈیا اپنے مفادات کے لیے دونوں گروپوں میں شامل ہے۔ انڈیا اس قسم کی تجارتی ڈیل نہیں کر سکتا جو ٹرمپ چاہتا ہے۔ انڈیا کے اپنے تحفظات ہیں۔ دنیا اس وقت جن تضادات سے گزر رہی ہے، انڈیا کسی ایک گروپ کا وفادار نہیں رہ سکتا۔ جوانڈیا کی خارجہ پالیسی یا اس پر منافقت کا الزام لگاتے ہیں انھیں اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔ مغرب تو اس کے بارے میں بالکل شکایت نہیں کر سکتا۔'
مودی حکومت پر تنقید کرنے والے بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ انڈیا کی خارجہ پالیسی زیادہ واضح نہیں ہے۔ بلکہ بہت سے معاملات میں تذبذب کا شکار نظر آتی ہے۔
ایمیٹی انسٹی ٹیوٹ آف ڈیفنس اینڈ سٹریٹجک سٹڈیز میں اسسٹنٹ پروفیسر اپراجیتا پانڈے کا کہنا ہے کہ اگر روس، امریکہ یا چین انڈیا کی خارجہ پالیسی پر تنقید کرتے ہیں تو وہ اپنے مفادات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایسا کرتے ہیں۔
ڈاکٹر اپراجیتا پانڈے کہتی ہیں: 'انڈیا کی خارجہ پالیسی اس کے قومی مفادات کے لیے ہے، برکس میں ڈالر کو کمزور کرنے کی بات ہو رہی ہے، لیکن یہ چین کا ایجنڈا ہے۔ انڈیا نے واضح کر دیا ہے کہ وہ برکس کی الگ کرنسی کے حق میں نہیں ہے۔ اسی طرح اگر انڈیا کواڈ میں ہے تو یہ چین کے بڑھتے ہوئے غلبے کو دیکھتے ہوئے ہے۔ روس یا چین انڈیا کی خارجہ پالیسی کا تعین نہیں کر سکتا۔ اسرائیل کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں، اس لیے کہ وہ انڈیا کا زراعت اور دفاعی شراکت دار ہے، اسرائیل ہمیں ٹریکٹر سے لے کر آبپاشی تک نئی چیزیں فراہم کر رہا ہے۔'
ڈاکٹر اپراجیتا پانڈے مزید کہتی ہیں: 'انڈیا برکس میں چین کی کٹھ پتلی نہیں بن سکتا، یعنی ڈالر کے غلبے کو مسترد کرکے انڈیا یوآن کی بالادستی کو قبول نہیں کر سکتا، اس سے انڈیا کو کیا فائدہ ہوگا؟ برکس ایک ایسی تنظیم ہے جس میں چین کا غلبہ ہے، اس میں شامل ہونے والے نئے ممالک کے رویے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ چین نے مشرق وسطیٰ میں بڑی سرمایہ کاری کی ہے۔ مصر، ایران اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) میں چین نے بڑی سرمایہ کاری کی ہے۔ اگر یہ ممالک برکس میں شامل ہو گئے ہیں تو وہ صرف چین کے مفادات کی حفاظت کریں گے۔ انڈیا ایک گروپ میں اچھا کہلانے کے لیے اپنے مفادات کو بالائے طاق نہیں رکھ سکتا۔'
واحد سپر پاور نہیں
تھنک ٹینک کارنیگی اینڈومنٹ کے سینیئر فیلو ایشلے جے ٹیلس نے رواں ماہ امریکی میگزین فارن افیئرز میں انڈیا کی خارجہ پالیسی پر ایک طویل مضمون لکھا ہے۔ ٹیلس کا کہنا ہے کہ انڈیا کی عظیم حکمت عملی ہی عظیم مقصد کے راستے میں آ رہی ہے۔
ایشلے جے ٹیلس نے لکھا کہ 'رواں صدی کے آغاز سے، امریکہ انڈیا کو ایک بڑی طاقت بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ جب جارج ڈبلیو بش صدر تھے تو امریکہ انڈیا کے سویلین نیوکلیئر پروگرام کے حوالے سے ایک بڑے معاہدے پر آمادہ ہوا تھا۔ یہ اس وقت تھا جب انڈیا کا جوہری پروگرام متنازع تھا کیونکہ اس کا تعلق جوہری ہتھیاروں سے تھا۔ جب اوباما صدر بنے تو امریکہ اور انڈیا کے درمیان دفاعی صنعت میں تعاون بڑھ گیا۔ اس کا مقصد فوجی صلاحیت کو بڑھانا تھا۔
'ڈونلڈ ٹرمپ کی پہلی مدت کے دوران، امریکہ نے پہلی بار انڈیا کے ساتھ حساس انٹیلی جنس کا اشتراک شروع کیا۔ ٹرمپ ہی نے انڈیا کو جدید ٹیکنالوجی دینا شروع کیا، اس سے پہلے امریکہ یہ ٹیکنالوجی صرف اپنے اتحادیوں کو دیتا تھا۔ بائیڈن صدر بنے تو امریکہ نے انڈیا کو ہائی ٹیک فائٹر جیٹ انجن ٹیکنالوجی دینا شروع کر دیا۔ انڈیا کے ساتھ فوجی تعاون میں بھی اضافہ ہوا۔ بش نے انڈیا کو 21ویں صدی کی ایک بڑی عالمی طاقت بنانے کا وعدہ کیا تھا۔'
ایشلے جے ٹیلس کا کہنا ہے کہ ان وعدوں کے پیچھے کی منطق بہت سادہ تھی۔ ٹیلس نے لکھا ہے کہ 'امریکہ چاہتا تھا کہ انڈیا سرد جنگ کے دور کی دشمنی سے نکل جائے۔ سرد جنگ کی دشمنی کی وجہ سے ہی دونوں عظیم جمہوریتیں الگ الگ سمتوں میں کھڑی تھیں۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد دونوں ممالک کے ایک دوسرے کے خلاف ہونے کی کوئی وجہ نہیں رہی۔'
ایشلے جے ٹیلس نے لکھا: 'سرد جنگ کے بعد، امریکہ اور انڈیا کے درمیان عوام سے عوام کے رابطے بڑھے۔ انڈین تارکین وطن نے امریکی معیشت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ انڈیا نے بھی سرد جنگ کے بعد معاشی اصلاحات کیں اور امریکی کمپنیوں کے لیے اپنے بازار کھول دیے۔ ان فیصلوں کی وجہ سے دونوں ممالک کے مشترکہ مفادات بھی سامنے آئے۔ خاص طور پر اسلامی دہشت گردی کے خلاف جنگ، چین کے دبدبے کا خطرہ اور لبرل عالمی نظام کی حفاظت جیسی چیزیں تھیں۔ امریکہ کا اندازہ تھا کہ ایک مضبوط انڈیا امریکہ کو مزید مضبوط بنائے گا۔'
انڈیا امریکہ کے قریب جا رہا ہے لیکن اس کی روس کے ساتھ تاریخی قربت رہی ہےروس کا تاریخی اعتماد
لیکن سرد جنگ کے بعد بھی امریکہ طویل عرصے تک پاکستان کے قریب رہا۔ امریکہ پاکستان کو فوجی سازوسامان بھی فراہم کرتا رہا۔ یہاں تک کہ جب 1991 میں سوویت یونین ٹوٹ گیا، اس کے بعد بھی انڈیا-روس تعلق پر اعتماد قائم رہا۔ جب مغرب کے ممالک کشمیر کے بارے میں مخمصے کا شکار تھے تو اس وقت سوویت یونین نے کہا تھا کہ کشمیر انڈیا کا اٹوٹ حصہ ہے۔
سرد جنگ کے دوران سوویت یونین کئی بار اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی سطح پر اٹھانے کی تجویز کو ویٹو کر چکا ہے۔ انڈیا نے ہمیشہ کہا ہے کہ کشمیر انڈیا اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ مسئلہ ہے اور روس شروع سے ہی اس کی حمایت کرتا رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل ارکان میں سوویت یونین واحد ملک تھا جس نے 1957، 1962 اور 1971 میں کشمیر میں اقوام متحدہ کی مداخلت کی تجویز کو روکا تھا۔روس اب تک چھ بار اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں انڈیا کے خلاف تجاویز کو ویٹو کر چکا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر ویٹو کشمیر کے لیے تھے۔ سوویت یونین نے گوا میں پرتگالی راج کے خاتمے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں انڈیا کی فوجی مداخلت کو بھی ویٹو کر دیا تھا۔
ایشلے جے ٹیلس نے لکھا: 'لیکن انڈیا اور امریکہ تمام مسائل پر ایک ساتھ نہیں تھے۔ انڈیا ایسی دنیا نہیں چاہتا جس میں امریکہ واحد سپر پاور ہو۔ انڈیا ایک کثیر قطبی دنیا چاہتا ہے جس میں انڈیا کی بھی اپنی حیثیت ہو۔ اس مقصد کے تحت انڈیا مستقبل قریب میں نہ صرف چین کے چیلنج کو روکنا چاہتا ہے بلکہ جو بھی واحد سپر پاور بننا چاہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس میں امریکہ بھی شامل ہے۔
'انڈیا کا ماننا ہے کہ ایک کثیر قطبی دنیا عالمی امن اور اس کی ترقی کے لیے بہت اہم ہے۔ انڈیا اسے سٹریٹجک خود مختاری کہتا ہے۔ جیسے انڈیا امریکہ کے قریب رہتے ہوئے بھی مغربی ایران اور روس کے ساتھ رہتا ہے۔ انڈیا کو لگتا ہے کہ یہ پالیسی کثیر قطبی بین الاقوامی نظام کو برقرار رکھنے میں مددگار ثابت ہوگی۔ لیکن حقیقت میں یہ زیادہ کارگر نہیں ہے۔ اگرچہ انڈیا نے گذشتہ دو دہائیوں میں ایک اقتصادی طاقت کے طور پر ترقی کی ہے لیکن اتنی تیزی سے ترقی نہیں کر رہا کہ طویل مدت وہ امریکہ اور چین سے برابری کر سکے۔
'اس صدی کے وسط تک انڈیا جی ڈی پی کے لحاظ سے ایک بڑی طاقت بن سکتا ہے لیکن سپر پاور نہیں۔ فوجی طاقت کے لحاظ سے انڈیا جنوبی ایشیا میں روایتی طاقت کے طور پر اہم ہے لیکن اسے اپنے مقامی حریف پر زیادہ غلبہ حاصل نہیں ہے۔ مئی میں فوجی جھڑپ میں پاکستان نے چینی دفاعی نظام کے ساتھ انڈین لڑاکا طیارہ مار گرایا تھا۔ انڈیا سے جنگ کی صورت میں پاکستان کو چین کی حمایت حاصل ہوگی اور انڈیا دونوں محاذوں پر خوفزدہ رہے گا۔'