’’اسے فوراً بین کرو، یہ خود دوسروں پر کیچڑ اچھال کر پبلسٹی لیتا ہے‘‘
’’ایک عورت کے نذرانے کے عمل کا مذاق اڑانا انسانیت کی توہین ہے‘‘
’’یہ ذہنی مریض لگتا ہے، جسے عورتوں کی عزت کا کوئی پاس نہیں‘‘
ریشم پر تیز و ترش اور توہین آمیز الفاظ ادا کرنے والے پاکستانی آرتھوپیڈک سرجن اور خود ساختہ فلمی ناقد ڈاکٹر عمر عادل ایک بار پھر سوشل میڈیا کے کٹہرے میں کھڑے نظر آ رہے ہیں۔ اس بار اُنہوں نے اپنے پرانے تعلقات رکھنے والی، اور اب ’’دشمن‘‘ بن چکی، مشہور اداکارہ ریشم کو نشانہ بنایا اور ایسے الفاظ ادا کیے جنہیں سن کر سوشل میڈیا صارفین کے ساتھ ساتھ عوامی شخصیات بھی حیران اور نالاں ہو گئیں۔
آصف جٹ کے پوڈکاسٹ میں گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر عمر عادل نے ریشم کے بارے میں انتہائی توہین آمیز تبصرہ کیا۔ ان کا کہنا تھا:
"پاکستانی ریٹائرڈ اداکاراؤں کے پاس اب صرف پوڈکاسٹ کرنے کا کام رہ گیا ہے، جہاں وہ میرے خلاف بولتی ہیں۔ اے خاتون، تم اپنی قسمت پر رو۔ تمہیں کوئی شوہر نہیں ملے گا۔ تم ان بڑے دیگچوں میں صرف نذر کے کھانے ہی پکاتی رہو گی۔ تم کبھی شادی نہیں کرو گی، نہ ہی بچے ہوں گے۔ بس نذر کی دیگ پکاؤ اور اپنی شہرت اسی میں تلاش کرو!"
اس سے بھی آگے بڑھتے ہوئے انہوں نے نہ صرف ریشم بلکہ دیگر خواتین پر بھی غیر شائستہ انداز میں تنقید کرتے ہوئے کہا:
"جو دوسروں کے آنسوؤں کا مذاق اڑاتے ہیں اور فضول باتیں کرتے ہیں، میں انہیں انسان ہی نہیں مانتا۔ اور تم انہیں عورتیں کہتے ہو؟ وہ عورتیں نہیں، ڈائنیں ہیں!"
یہ الفاظ سن کر سوشل میڈیا پر غصے اور غم کی لہر دوڑ گئی۔ لوگ سوال کر رہے ہیں کہ کیا ریشم جیسی اداکارہ، جو اس وقت محرم کے مہینے میں نیاز تقسیم کرنے جیسے نیکی کے کاموں میں مصروف ہے، اُس پر اتنے گھٹیا الفاظ کہنا کسی بھی انسان، بالخصوص ایک ڈاکٹر کے شایانِ شان ہے؟
سوشل میڈیا صارفین نے ڈاکٹر عمر عادل کو "نفسیاتی مریض"، "عورتوں کی عزت نہ کرنے والا شخص" اور "خود پوڈکاسٹ میں بیٹھ کر دوسروں پر کیچڑ اچھالنے والا" کہہ کر آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ کئی لوگوں نے ان کے خلاف کارروائی اور ان کا میڈیا پر آنا بند کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
ریشم کی جانب سے تاحال کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا، تاہم سوشل میڈیا پر لوگ ان کے حق میں آواز بلند کر رہے ہیں، اور امید ظاہر کر رہے ہیں کہ وہ اس بدزبان تنقید کے باوجود خاموشی اور وقار کے ساتھ جواب دیں گی۔ جیسا کہ وہ ماضی میں کرتی آئی ہیں۔
یہ واقعہ ایک بار پھر یہ سوال اُٹھا رہا ہے کہ آیا آزادیِ اظہار کے نام پر کسی کو بھی دوسروں کی عزت تار تار کرنے کی اجازت ہونی چاہیے؟ اور اگر نہیں، تو اس حد سے تجاوز کرنے والوں کا احتساب کون کرے گا؟