یہ غلطیاں نہ ہوتیں تو آج شاید حالات ایسے نہ ہوتے... وزیراعظم عمران خان کی چار غلطیاں جو انہیں عدم اعتماد تک لے آئیں

image
 
اپنے جلسوں میں عمران خان نے بارہا دعویٰ کیا کہ وہ ملک سے بد عنوانی کا قلع قمع کریں گے اور عوام کو ایک نیا پاکستان دیں گے جہاں دوسرے ممالک سے لوگ نوکری کی غرض سے آئیں گے۔ سننے میں یہ ایک جنت کا نظارہ ہے۔ بیشک پاکستان ایک بہت ہی مشکل مرحلے سے گزر رہا ہے اور عوام نے بہت امیدوں کے ساتھ عمران خان کی پارٹی کو چنا جس کے پیچھے عمران خان کی عوام میں مقبولیت کا کافی عمل دخل ہے۔لیکن یہ امیدیں اب ٹوٹتی نظر آتی ہیں جو وزیراعظم کو عدم اعتماد تک لے آئیں ۔8 مارچ کو اپوزیشن نے وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد پیش کی۔ قرارداد میں عوام میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بڑے پیمانے پر پریشانی کا حوالہ دیا گیا۔ آئیے عمران خان حکومت یا پی ۔ٹی ۔آئی حکومت کی ان بڑی غلطیوں کا جائزہ لیتے ہیں جو انھیں عدم اعتماد کے دہانے پر لے آئیں۔
 
Electables کا شمول:
2013 کے انتخابات میں زبردست شکست کے بعد، پی ٹی آئی نے تیسری پارٹی کے طور پر اپنی جلد کو تیزی سے اتار دیا۔ عمران خان نے مختلف حکومتوں میں شامل رہنے والے سیاستدانوں کو اپنی پارٹی میں جمع کرنا شروع کردیا جسے مجبوری کا نام دیا گیا-ایک بار اقتدار میں آنے کے بعد، وزیراعظم عمران خان کی کابینہ مشرف دور کے ریمیکس البم سے مشابہت رکھتی تھی، جب کہ پنجاب کو خود اصل بینڈ یعنی گجرات کے چوہدریوں نے تھام لیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اقتدار میں آنے کے بعد الیکٹیبلز کو بھی سدھار کر ملک و قوم کی ترقی کے لیے تیار کیا جاتا لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوا- الیکٹیبلز نے جیتنے کے لیے لڑا، پہلے سے طے تھا۔ جیسے ہی پی ٹی آئی نے ڈگمگانا شروع کیا، یہ ہمیشہ کی طرح برسراقتدار آنے والے دروازے کی طرف لپکے۔ غرض عمران خان اپنے وزراء پر یقین کرتے ہوئے کہ سب بہترین چل رہا کی بنیاد پر چلتے رہے جبکہ اتحادیوں کو ہاتھ میں نہ رکھنا ان کی بڑی غلطی ثابت ہوئی ہے۔
 
اپوزیشن کو سزا دلوانا، بنیادی مقصد:
یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی کہ عوام نے ملکی مسائل کے حل کے لئے عمران خان کو چنا ہے نہ کہ بدلے کی آگ کو دیکھنے کے لئے۔ سزا دینا عدالت کا کام ہے - 17 اگست 2018 کو بطور وزیر اعظم ہاؤس سے ان کا پہلا خطاب غیر معمولی تھا: "جن لوگوں نے اس ملک کو لوٹا، جنہوں نے اسے قرض میں ڈال دیا، میں آج یہ عہد کرتا ہوں، میں اسے خدا کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ کہ میں ان میں سے کسی ایک کو بھی نہیں چھوڑوں گا۔" اس طرح کے بیانات وقتا فوقتاً دیے جاتے رہے جس سے انتقامی سیاست محسوس ہونے لگی- انتقامی سیاست نے کافی حد تک عمران خان حکومت کو نقصان پہنچایا ہے۔ عوام ان کے انتقامی بیانات سے تنگ آچکے ہیں وہ ان کی پروگریس دیکھنا چاہتے ہیں۔ کسی بھی جمہوریت کا بنیادی نظریہ یہ ہے کہ عوام اپنے نمائندوں کو منتخب کرتے ہیں، اور وہ نمائندے ایسے قوانین بناتے ہیں جو عوام کے لیے بہتر ہوں۔
 
image
 
عثمان بزدار کی بطور وزیراعلیٰ پنجاب تقرری:
عثمان بزدار کی بطور وزیر اعلیٰ پنجاب تقرری نے ہر قسم کی افواہوں کو جنم دیا۔ حتیٰ کہ ان کے اپنے لوگ بھی اس فیصلے سے خوش نہیں تھے۔ حکمران جماعت کی طرف سے ایک بھی قابل اعتبار وضاحت پیش نہیں کی گئی کہ اس شخص کو دو کروڑ لوگوں کی قسمت کیوں سونپی گئی۔ نتیجہ یہ نکلا گاہے بگاہے بزدار پر سوالات اٹھتے رہے لیکن عمران خان نے اس سلسلے میں کوئی خاطر خواہ اقدامات نہ کیے- آخر نوبت یہاں تک آپہنچی کہ اپنی ہی پارٹی کے کئی ساتھی خلاف ہوگئے-
 
 مہنگائی کا طوفان ۔۔ اپوزیشن کا ہتھیار:
" آپ نے گھبرانا نہیں ہے " یا " سکون تو صرف قبر میں ملے گا " یہ وہ بیانات ہیں جن کا فائدہ صرف اور صرف اپوزیشن کو ہوا اور انھوں نے اسی مہنگائی کو لے کر پی ۔ٹی ۔آئی حکومت کو ہدف بنانا شروع کر دیا عوام جنھوں نے بہت امیدیں لگا رکھی تھیں وہ تو آئے دن اس مہنگائی کے طوفان میں گھرتے چلے جا رہے ہیں سونے پہ سہاگہ عمران خان اور ان کی پارٹی کے جارحانہ بیانات جنھوں نے جلتی پر تیلی کا کام کیا۔ حکومت کو اس مسئلے پر خصوصی توجہ دینی چاہئے تھی اور ضروری اصلاحات کے زریعے عوام کو ریلیف دینا تھا ۔ بس حزب اختلاف نے ان کی اس کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عدم اعتماد کی تحریک چلا دی۔
 
image
 
نمبر گیمز:
اپوزیشن کو عدم اعتماد تحریک کو کامیاب کرنے کے لئے 172 ووٹ درکار ہیں۔حکومت کی اتحادی پارٹیز ، MQM,PMLQ, BAP میں سے کوئی دو پارٹیز اپوزیشن کا ساتھ دیں تو عدم اعتماد کامیاب ہو جائے گی۔
YOU MAY ALSO LIKE: