’لیکی‘ نامی شخص کون تھا اور 22 اکتوبر کی رات کیا ہوا تھا؟ ارشد شریف کی موت سے جڑے چند مشکوک دعوے اور اصل حقائق

image
 
’یہ پتھر یہاں کیوں رکھے ہیں؟‘ کچی، پتھریلی اور دُھول مٹی سے اٹی اُس ویران سڑک پر سفر کے دوران ارشد شریف کی زندگی کا یہ آخری سوال تھا۔
 
اب تک کی تحقیقات کے مطابق اس سوال کے کچھ دیر بعد وہ گولی لگنے سے ہلاک ہو گئے تھے۔
 
پاکستانی صحافی ارشد شریف 23 اکتوبر کی رات کینیا کے علاقے مگاڈی میں فائرنگ کے ایک واقعے میں ہلاک ہوئے تھے۔ اُن کی موت کو تقریباً دو ماہ ہونے کو ہیں مگر پاکستان اور کینیا میں جاری اس ’ٹارگٹڈ قتل‘ کی تحقیقات کے نتیجے میں سامنے آنے والی معلومات بظاہر اس کیس کو مزید پیچیدہ اور گھمبیر بنا رہی ہیں۔
 
بی بی سی کی ٹیم کینیا میں ہونے والی تحقیقات میں پیشرفت سے متعلق جاننے کے لیے نیروبی پہنچی اور اس کیس سے جڑے مختلف کرداروں سے بات چیت کی۔
 
ہم نے یہ سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ اب تک ہونے والی تحقیقات میں کس نوعیت کے تضادات اور خامیاں ہیں۔
 
بی بی سی کی ٹیم نے جہاں کینیا میں اعلیٰ عہدیداروں کے انٹرویوز کیے وہیں اس کیس کی تحقیقات سے منسلک افسران، فائرنگ رینج اور فارم ہاؤس کے ملازمین اور فائرنگ کے مقام کی قریبی آبادی کے علاوہ بعض دستاویزات تک رسائی بھی حاصل کی ہے تاکہ اس کیس میں پیشرفت کی معلومات جمع ہو سکیں۔
 
نیروبی روانگی سے قبل میں نے نومبر میں ارشد شریف کے اہلخانہ سے ملاقات کی اور سمجھنے کی کوشش کی کہ اس واقعے کے بعد اُن کی فیملی آج کہاں کھڑی ہے۔
 
’میں ذہنی طور پر اب تک یہ قبول ہی نہیں کر پائی کہ ارشد اس دنیا میں نہیں ہیں۔ جیسے وہ کبھی سوات چلا جاتا تھا، کبھی وزیرستان چلا جاتا تھا۔۔۔ میں آج بھی خود کو یہی بتاتی ہوں کہ وہ کہیں گیا ہوا ہے اور بس جلد ہی واپس آ جائے گا۔‘
 
ارشد شریف کی والدہ رفعت آرا علوی یہ بتاتے ہوئے آبدیدہ ہو گئیں۔ اُن کی عمر اب تقریباً 70 سال ہے اور کئی گھنٹے کی ملاقات میں صرف ایک بار میں نے ان کی آنکھوں میں آنسو دیکھے جب غالباً انھیں یہ خیال آیا کہ اُن کا بیٹا اب واپس نہیں آئے گا۔
 
ارشد شریف کی والدہ بار بار اپنے بیٹے کے قاتلوں کو سامنے لانے کا مطالبہ کرتی ہیں۔ وہ غصے میں ہیں اور کسی بھی شخص کا نام لینے سے گریز نہیں کرتیں۔
 
’میرے پاس اب اور کیا بچا ہے؟ کیا ہم عورتیں باہر دھکے کھائیں؟ مجھے اس ملک میں انصاف کی کوئی امید نہیں رہی۔‘
 
image
 
ارشد شریف اپنی نجی زندگی کو سوشل اور مین سٹریم میڈیا سے علیحدہ رکھنے کے قائل تھے اور یہی وجہ ہے کہ جب میں ان کی والدہ رفعت آرا علوی اور اہلیہ سمعیہ ارشد سے پہلی بار ملی تو انھوں نے دیگر اہلخانہ کے ہمراہ کئی گھنٹے آف کیمرہ بات کرنے کو ترجیح دی۔
 
اُن کے گھر میں ڈرائنگ روم اور لاؤنج کی دیواروں پر ارشد شریف، اُن کے بھائی میجر اشرف شریف اور والد جو پاکستان نیوی میں ملازم تھے، کی تصاویر، میڈلز اور شیلڈز آویزاں ہیں۔ اس کے علاوہ اہلخانہ کے پاس ارشد شریف کی اپنے بچوں کے ساتھ ہر موقع اور تہواروں کی تصاویر کے کئی البمز ہیں اور درجنوں ایسی تصاویر بھی جن پر جمی گرد اُن کی والدہ صاف کر رہی تھیں۔
 
’وہ ہر موقع پر تصویر بناتا تھا اور یادیں جمع کرتا رہتا تھا۔ ارشد ہر ہفتے دوستوں کی دعوت کرتا، ہم خواتین کھانا تیار کرتی تھیں مگر ہم کبھی اس کے دوست احباب سے نہیں ملے۔‘
 
یہیں ارشد شریف کی پہلی اہلیہ سمعیہ ارشد اپنے بچوں کے ہمراہ موجود تھیں۔ انھوں نے بتایا کہ ارشد شریف کو طویل عرصے سے دھمکیاں مل رہی تھیں۔ ان دھمکیوں کا سلسلہ اس قدر بڑھ گیا تھا کہ انھیں کچھ عرصے تک اپنے فون بند رکھنے پڑے تھے۔
 
image
 
’کافی عرصے سے دھمکیاں مل رہی تھیں اور ہم محتاط بھی تھے۔ مگر یہ اندازہ نہیں تھا کہ کوئی اس حد تک جا سکتا ہے۔ لوگ انھیں یہ مشورے بھی دیتے تھے کہ فی الحال پروگرام چھوڑ دو کیونکہ دھمکیاں مل رہی ہیں۔ یہ بھی دھمکی دی گئی کہ تمہارا پروگرام بند کروا دیں گے۔ پھر ایک وقت آیا کہ فون بند کرنے پڑے۔ انھیں پتا چلا ہو گا کہ ان کی کالز ٹیپ ہو رہی ہیں اور انھیں ٹریک کیا جا رہا ہو گا، سو کچھ عرصے کے لیے موبائل فونز آف کر دیے کہ یہ سلسلہ شاید تھم جائے۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔‘
 
ان کی والدہ کے مطابق ارشد شریف نے ہر کسی کو خط لکھے کہ ان کی جان کو خطرہ ہے۔ ’مگر کسی نے اس کی نہیں سنی۔ کسی نے اس کو تحفظ نہیں دیا۔ میں یہ نہیں جانتی کہ ان کی نیت کیا تھی لیکن اب ہر کوئی اس واقعے کو کیش کروا رہا ہے۔ میرا سوال ہے کہ وہ کون تھے جن کے کہنے پر ارشد کے خلاف درجن بھر ایف آئی آرز درج ہوئیں۔ یہ لوگ وہی ہیں جو ارشد کو ختم کرنا چاہتے تھے۔‘
 
ان کی والدہ کا اشارہ ان ایف آئی آرز کی جانب ہے جو صحافی ارشد شریف کے خلاف ان کے پاکستان چھوڑنے سے قبل مختلف شہروں میں کاٹی گئیں۔ ان کا پروگرام بند کر دیا گیا یہاں تک کہ ان کے نجی نیوز چینل اے آر وائے نے ان کی نوکری ختم کر دی۔
 
image
 
اس سے پہلے ارشد شریف کو اسٹیبلشمنٹ کے کافی قریب سمجھا جاتا تھا۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے خلاف رواں برس تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد ارشد شریف نے شدید الفاظ میں اسٹیبلشمنٹ اور سیاست میں ان کے مبینہ کردار پر تنقید شروع کی۔ جب فوجی قیادت اور عمران خان کے درمیان بیانیے کی جنگ شروع ہوئی تو ارشد شریف عمران خان کے ساتھ کھڑے تھے۔
 
جب ان کا پروگرام بند ہوا اور اے آر وائے نے ان سے الگ ہونے کا اعلان کیا تو ارشد شریف نے یوٹیوب پر وی لاگز کا سلسلہ شروع کیا۔ اپنے وی لاگز میں وہ موجودہ حکومت اور سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ کے خلاف کُھل کر بات کرتے۔
 
فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ اور ڈی جی آئی ایس آئی کی پریس بریفنگ کے دوران دعویٰ کیا گیا کہ ارشد شریف کے خلاف ایف آئی آرز کے اندراج کے بعد انھیں پاکستان سے جانے کا مشورہ دیا گیا اور اس ضمن میں انتظامات اے آر وائے نیوز نے کیے جبکہ انھیں ملک سے باہر جانے کے لیے پشاور ایئرپورٹ تک پہنچانے میں خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت نے معاونت کی۔
 
اس سے پہلے خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے ایک تھریٹ لیٹر جاری کیا گیا جس میں اس اندیشے کا اظہار کیا گیا کہ صحافی ارشد شریف کو قتل کیا جا سکتا ہے۔
 
ارشد شریف کی پاکستان سے دبئی روانگی
 
image
 
پاکستان سے روانگی کے بعد ارشد شریف کی پہلی منزل دبئی تھی جہاں انھوں نے دس دن قیام کیا۔ اُن کی اہلیہ دبئی میں ارشد شریف سے آخری بار بات کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ وہ کافی دباؤ کا شکار تھے۔
 
’انھوں نے بتایا کہ مجھے 48 گھنٹے میں دبئی چھوڑنے کا کہا گیا ہے۔ انھیں کہا گیا کہ جہاں مرضی جاؤ، بس دبئی سے نکل جاؤ۔ وہ بہت مضبوط اور بہادر آدمی تھا۔ وہ ہمت سے کام لیتا تھا مگر اس دن وہ دباؤ میں تھے۔ آج جب میں پیچھے مڑ کر دیکھتی ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ وہ کس قدر پریشان تھا اور ان لوگوں نے اس کو کتنے دباؤ میں رکھا ہوا تھا۔ میں سوچتی ہوں کہ شاید ان کے لیے راستے بنائے گئے، شاید یہ ایک منصوبے کا حصہ تھا۔ میں ابھی اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتی۔‘
 
دبئی سے نیروبی
ارشد شریف 20 اگست کو دبئی سے نکلے تو اُن کے پاس کینیا کا آن ارائیول ویزہ تھا۔ یہ ویزا انھیں نیروبی میں مقیم پاکستانی بزنس مین وقار احمد کے دعوت نامے کی بنیاد پر دیا گیا تھا۔
 
وقار احمد کے پاکستان اور کینیا کے تفتیشی اہلکاروں کو دیے گئے بیانات کے مطابق انھوں نے اس دعوت نامے کی وجہ اے آر وائے کے سینیئر عہدیدار اور چینل کے مالک سلمان اقبال کے کزن مرزا وصی کو بتاتے ہیں جو اُن کے مطابق اُن کے قریبی اور پرانے دوست تھے اور انھوں (مرزا وصی) نے ہی ارشد شریف کے لیے دعوت نامہ بھیجنے کی درخواست کی تھی۔
 
کینیا کے مقامی افراد اور سرکاری اہلکاروں کے مطابق وقار احمد اور اُن کے بھائی خرم احمد کینیا میں طویل عرصے سے مقیم ہیں اور یہاں پراپرٹی، تعمیرات کے کاروبار سے منسلک ہے۔ اس کاروبار کے علاوہ وہ اسلحے کی فروخت کا کام اور ’کوینیا ایمو ڈمپ‘ نامی فائرنگ رینج کی ملکیت بھی رکھتے ہیں۔ اس نجی فائرنگ رینج میں فائرنگ کی تربیت دی جاتی ہے۔
 
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس کیس سے منسلک متعدد افراد نے دعویٰ کیا کہ وقار احمد کو کینیا اور پاکستان کے مقتدر حلقوں تک رسائی حاصل ہے اور اُن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ’ویل کنیکٹڈ‘ ہیں۔
 
ارشد شریف 20 اگست کو کینیا کے دارالحکومت نیروبی پہنچے اور پھر دو ماہ تک وہ یہیں رہے۔
 
22 اکتوبر کی شب کیا ہوا؟
 
image
 
اب تک کی تحقیقات کے مطابق ارشد شریف وقار احمد کے بھائی خرم احمد کے ہمراہ 22 اکتوبر کی رات نیروبی سے مگاڈی کی جانب روانہ ہوئے۔ مگاڈی نامی علاقہ نیروبی سے تقریباً 110 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ کینیا کے گرم ترین علاقوں میں سے ایک ہے اور یہاں کی آبادی پانچ ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔
 
کم آباد اور انتہائی گرم ہونے کی وجہ سے یہاں لوگوں کی آمد و رفت کافی کم رہتی ہے۔ یہاں سے ایتھوپیا کی سرحد کچھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ مگاڈی کو ایک اور بات منفرد بناتی ہے اور وہ یہ ہے کہ اس علاقے کی ملکیت ایک معروف انڈین نجی کمپنی (ٹاٹا) کے پاس ہے۔
 
اسی علاقے میں وقار احمد کی ملکیتی ’کوینیا ایمو ڈمپ‘ نامی فائرنگ رینج بھی واقع ہے۔ تقریباً 2100 ایکڑ پر محیط اس فائرنگ رینج میں سپورٹس ہنٹنگ، نشانہ بازی اور دیگر سہولیات بھی موجود ہیں، جبکہ یہاں کیمپنگ کے انتظامات کے علاوہ گیسٹ ہاؤس اور ریسٹورنٹ بھی ہے۔ کوینیا ایمو ڈمپ کے مالک اور ارشد شریف کے میزبان وقار احمد امریکی حکومت کے ساتھ معاہدے کے تحت اس فائرنگ رینج میں امریکی انسٹرکٹرز کے ذریعے سپیشل تربیت فراہم کرتے ہیں۔
 
image
 
ارشد شریف 22 اکتوبر کی رات مگاڈی میں ’کوینیا ایمو ڈمپ‘ پہنچے۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق 23 اکتوبر کی صبح ارشد شریف نے وقار احمد اور خرم احمد کے ہمراہ ناشتہ کیا اور اب تک ہونے والی تفتیش کے مطابق دن کا باقی حصہ خرم احمد کے ہمراہ گزارا۔
 
اس رات وقار احمد نے وہاں موجود امریکی انسٹرکٹرز کے اعزاز میں ایک ڈنر کا اہتمام کیا اور ارشد شریف سمیت وقار کی اہلیہ، خرم اور ان کی اہلیہ جبکہ ایموڈمپ کے شریک مالک جمشید بھی اس ڈنر میں موجود تھے۔ خرم احمد نے کینیا میں پولیس حکام کو بتایا ہے کہ اُس رات وہ ارشد شریف کے ہمراہ ساڑھے آٹھ بجے ڈنر سے فارغ ہوئے اور اپنی سفید رنگ کی لینڈ کروزر میں نیروبی کی جانب روانہ ہو گئے۔
 
image
 
اس دوران علاقے میں ایک مرسڈیز کی چوری اور اغوا کی اطلاع پولیس کو موصول ہوئی اور پھر ایمو ڈمپ کے قریب واقع پولیس کے جنرل سروس یونٹ یعنی جی ایس یو کے اہلکاروں نے ایموڈمپ کو جاتی کچی سڑک پتھروں کے ذریعے بلاک کی تاکہ چوری یا اغوا ہونے والی مرسڈیز گاڑی کو بازیاب کروایا جا سکے۔ جب ارشد شریف اور خرم احمد کی گاڑی یہاں سے گزری تو فائرنگ کے واقعے میں ارشد شریف کو سر اور سینے میں دو گولیاں لگیں اور وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔
 
خرم احمد نے اپنے بھائی وقار اور پھر جمشید کو فون پر فائرنگ کی اطلاع دی۔ اس دوران ان کی گاڑی کا ٹائر پھٹ چکا تھا مگر وہ اپنے بھائی کے مشورے کے مطابق یہاں سے تقریباً 25 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع جمشید کے ملکیتی ٹنگا فارم ہاؤس پہنچے۔ کینیا کی پولیس اور پاکستانی تفتیش کاروں کو دیے گئے بیان کے مطابق وقار احمد نے اے آر وائے کے مرزا وصی اور پھر سلیمان اقبال سے بھی بات کی اور ارشد شریف کی ہلاکت کی خبر اُن تک پہنچائی۔
 
image
 
بعدازاں وقار احمد، اُن کی اہلیہ، جمشید اور فارم ہاؤس سے منسلک دیگر لوگ بھی یہاں آئے اور پھر پولیس بھی اس فارم ہاؤس میں پہنچی۔ ارشد شریف کی ڈیڈ باڈی کو یہاں سے مردہ خانے منتقل کیا گیا اور اس کے بعد پاکستان خبر پہنچا دی گئی۔
 
وقار احمد میت کے ہمراہ مردہ خانے تک گئے، جبکہ خرم احمد، جمشید کے ہمراہ نیروبی چلے گئے۔
 
اس موقع پر پولیس نے اسے غلطی قرار دے کر خرم سے معافی مانگی اور بات ختم ہو گئی۔
 
یہ کہانی یہاں تک بہت سادہ سی نظر آتی ہے۔ لیکن اس کہانی میں اُس وقت موڑ آیا جب پولیس نے پہلے اسے ’مسٹیکن آئی ڈینٹٹی‘ (غلط شناخت) کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکت قرار دیا اور بعدازاں یہ بیان دیا کہ گاڑی سے جی ایس یو اہلکاروں پر فائرنگ کی گئی تھی جس کے بعد جوابی فائرنگ کی گئی۔
 
بی بی سی نے اس واقعے کے فوراً بعد کینیا میں ریکارڈ کا حصہ بننے والی دستاویزات اور پاکستان کی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کی رپورٹ کا تفصیلی اور تقابلی جائزہ لیا اور ایسے کئی افراد سے براہ راست بات چیت کی جو اس کیس کی تحقیقات کر رہے ہیں یا اس واقعے سے بالواسطہ یا بلاواسطہ منسلک ہیں۔
 
ان تمام ملاقاتوں اور دستاویزات کے بعد ہم آپ کو وہ تضادات بتائیں گے جو تحقیقات میں سامنے آئے ہیں اور ان سوالوں سے بھی آگاہ کریں گے جو ان بیانات اور رپورٹس کے بعد جواب طلب ہیں۔
 
لیکن اس سے پہلے ہم آپ کو کینیا میں سفر کے دوران پیش آنے والے چند واقعات سے متعلق بتاتے ہیں۔
 
نیروبی پہنچنے پر ہم نے سب سے پہلے مختلف یونٹس میں پولیس اہلکاروں سے رابطہ کرنا شروع کیا جو اس کیس سے جڑے تھے۔ مجھے اس وقت حیرت ہوئی جب ہم سے معلومات کے بدلے رشوت (رقم) کا مطالبہ کیا گیا۔ یہاں تک کہ پولیس کے انسپیکٹر جنرل کے دفتر سے رابطے کے موقع پر یہ کہا گیا کہ ’آپ ہم سے رقم طے کر لیں، پھر ہم آپ کا (انسپکٹر جنرل سے) رابطہ کروائیں گے۔‘
 
image
 
ایسا تاثر ملا کہ ارشد شریف کے مبینہ قتل جیسا ہائی پروفائل کیس ’برائے فروخت‘ ہے اور پولیس سے منسلک مختلف افراد موقع کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ مگر یہ حقیقت زیادہ تشویشناک ہے کہ اس نوعیت کے ہائی پروفائل کیس میں اگر رشوت طلب کرنا اس قدر عام ہے تو پولیس سے کوئی بھی انتہائی اقدام بعید از قیاس نہیں ہے۔
 
ہم نے کوینیا ایمو ڈمپ میں اس مقام تک جانے کی کوشش بھی کی جہاں ارشد شریف نے ڈنر کیا تھا۔ تاہم یہاں موجود ریسٹورنٹ کے پاس پہنچنے پر جب ملازمین نے مالکان سے رابطہ کیا تو انھیں منع کر دیا گیا۔ وہاں موجود ایک ملازم نے ہمیں بتایا کہ ’یہاں کچھ عرصہ پہلے ایک پاکستانی کا قتل ہوا ہے جس کا الزام ہمارے مالکان پر لگا ہے۔ اس کے بعد یہاں انڈیا اور پاکستان کے لوگوں کی آمد پر پابندی ہے۔ اور صحافیوں کو تو بالکل اجازت نہیں۔‘
 
کوینیا ایمو ڈمپ جانے سے پہلے ہم کیسیرین پولیس سٹیشن گئے۔ یہ وہی پولیس سٹیشن ہے جہاں وہ گاڑی موجود ہے جس میں ارشد شریف کو نشانہ بنایا گیا۔ اس کے علاوہ ارشد شریف کی ہلاکت کے بعد ٹیمیں بھی اسی پولیس سٹیشن سے روانہ کی گئی تھیں جنھوں نے اُن کی میت کو مردہ خانے منتقل کیا تھا اور پوسٹ مارٹم کروایا تھا۔ پولیس سٹیشن میں موجود ارشد شریف کی گاڑی کی اگلی نشست پر اُن کے خون کے علاوہ سر کے بال ابھی بھی چپکے ہوئے ہیں۔
 
image
 
اس رات ارشد شریف کے قتل کے حوالے سے مختلف دعوے سامنے آ رہے تھے۔ ان میں سے ایک جی ایس یو کا ہے جو کینیا کی پولیس کا پیراملٹری یونٹ ہے اور اس کا کام ملک میں کسی قسم کی بدنظمی، پرتشدد مظاہروں اور انتشار کو قابو کرنا ہے۔
 
جی ایس یو کے سابق اہلکار جارج مساملی کے مطابق یہاں دستوں کی تعیناتی کے لیے حکم انسپکٹر جنرل کے دفتر سے آتا ہے اور آئین کے تحت حکومت کی اجازت کے بغیر اُن کی تعیناتی نہیں کی جاتی۔ اس کے علاوہ کسی بھی موقع پر تعیناتی کے حوالے سے ان کی دستوں کی تعداد اور سربراہی سے متعلق بھی قوانین موجود ہیں۔
 
جی ایس یو اہلکاروں کی پوزیشنز کا فرق
ایمو ڈمپ کوینیا کی جانب جاتی ایک کچی سڑک پر یہ واقعہ پیش آیا تھا۔ ہمیں ایموڈمپ کے اس حصے سے جائے وقوعہ تک پہنچنے میں تقریباً 25 منٹ لگے۔ یہ پتھریلا اور غیرہموار راستہ ہے جہاں گاڑی کی رفتار ایک حد تک ہی رکھی جا سکتی ہے۔
 
وہ مقام جہاں روڈ بلاک کیا گیا تھا دراصل ایک خشک نالے کی گزرگاہ ہے اور یہاں پانی کے بہاؤ کے لیے سڑک کے نیچے دو بڑے پائپ نصب ہیں۔ انھی کے اوپر سڑک پر پتھر رکھ کر اسے بلاک کیا گیا تھا۔ یہاں جی ایس یو کے چار اہلکار تعینات تھے جن میں سے ایک گاڑی کا ڈرائیور تھا۔
 
ان اہلکاروں کی سربراہی چیف انسپکٹر یوٹا جوزف کر رہے تھے اور ان کے ساتھ دو سپاہی تھے۔ ان تمام افراد کے پاس ہتھیار موجود تھے۔
 
بی بی سی کو موصول ہونے والی معلومات کے مطابق جی ایس یو کے اہلکاروں نے اس واقعے کے اگلے روز اس معاملے کی تفتیش کرنے والے پولیس اہلکاروں کو بتایا کہ یوٹا جوزف نالے کے بائیں جانب کھڑے تھے جبکہ دونوں سپاہی ان سے کچھ فاصلے پر اس نالے کے دائیں جانب کھڑے تھے۔
 
موقع پر موجود اہلکاروں نے پولیس کو بتایا کہ جب ارشد شریف کی گاڑی آئی تو یوٹا جوزف نے انھیں رکنے کا کہا اور فلیش لائٹ کا استعمال بھی کیا مگر وہ نہیں رُکے۔ گاڑی نے پتھروں کا بیریئر کراس کرنے کی کوشش کی اور اسی دوران گاڑی سے ان پر فائرنگ بھی ہوئی۔
 
فائرنگ سے نالے کے دائیں جانب کھڑے سپاہیوں میں سے ایک کو گولی لگی۔ ان کے مطابق گولی لگتے ہی وہ نالے کی جانب بھاگے اور وہاں نصب ایک پائپ میں چھپ گئے۔ انھوں نے پولیس حکام کو بتایا کہ وہ سخت تکلیف میں تھے۔
 
image
 
وہاں موجود دوسرے اہلکار نے دعویٰ کیا کہ وہ بھی اپنے ساتھی کے پیچھے نالے میں چلے گئے اور اس دوران گولیاں چلنے کی آواز آتی رہی۔ ان کے مطابق جب وہ باہر نکلے تو گاڑی جا چکی تھی اور اس کا پیچھا کرنے کے بجائے ہمیں یہ حکم دیا گیا کہ زخمی ساتھی کو ٹریننگ کیمپ لے جائیں تاکہ انھیں طبی امداد دی جا سکے۔
 
تاہم اس واقعے کے تقریباً ڈیڑھ ہفتے بعد جی ایس یو کے ان اہلکاروں کی جانب سے دیا گیا بیان مکمل طور پر مختلف ہے۔
 
پاکستان کی انویسٹیگیشن ٹیم کو ان اہلکاروں نے مختلف پوزیشنز کا بتایا ہے۔ اُن کے مطابق جب انھیں گاڑی کی آمد کی اطلاع ملی تو وہ گھات لگا کر بیٹھ گئے۔ ان کے مطابق یہ دونوں سپاہی نالے میں نصب پائپ کے ساتھ گھات لگا کر بیٹھ گئے اور جب گاڑی پہنچی تو ان پر فائرنگ کی گئی اور اسی وجہ سے ان دونوں اہلکاروں نے بھی جوابی فائرنگ کی۔
 
فائرنگ کی ٹائمنگ پر تضاد
فائرنگ کی ٹائمنگ سمجھنے کے لیے بی بی سی کی ٹیم نے نہ صرف مختلف دستاویزات کا جائزہ لیا بلکہ اس حوالے سے مختلف لوگوں سے بات بھی کی۔ جب تحقیقات سے جڑے ایک سرکاری افسر نے مجھے یہ بتایا کہ انھیں نو بج کر 36 منٹ پر افسران بالا کی طرف سے مگاڈی میں فائرنگ کی اطلاع اور وہاں پہنچنے کا حکم ملا تو میں یہ سوچ رہی تھی کہ محض چھ منٹ میں فائرنگ کی اطلاع اور ٹیم کی تعیناتی کے بارے میں حکم کیسے مل سکتا ہے۔
 
لیکن آگے چل کر اندازہ ہوا کہ اس کیس سے منسلک ہر شخص کا بیان دوسرے سے مختلف ہے۔
 
سب سے پہلے خرم احمد ہیں جن کے مطابق وہ رات ساڑھے آٹھ بجے ارشد شریف کے ہمراہ کوینیا ڈمپ سے نکلے اور رات نو بج کر 30 منٹ پر فائرنگ کا واقعہ پیش آیا۔ کینیا کی پولیس کو بھی خرم احمد، ان کے بھائی وقار احمد اور جی ایس یو کے اہلکاروں نے ابتدا میں یہی ٹائم بتایا۔
 
لیکن ان سب کے بیانات کا باریکی سے جائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ ہر کسی کا بیان مختلف ہے۔ خرم احمد کے مطابق فائرنگ نو بج کر 30 منٹ پر ہوئی، ان کے بھائی وقار احمد کے مطابق خرم نے انھیں نو بج کر 20 منٹ پر ایک فون کال کے ذریعے فائرنگ کی اطلاع دی۔ جی ایس یو کے مطابق فائرنگ نو بج کر 45 منٹ پر ہوئی جبکہ تحقیقات کرنے والے ایک پولیس افسر کے مطابق انھیں نو بج کر 36 منٹ پر فون کر کے بتایا گیا کہ مگاڈی میں فائرنگ کا واقعہ پیش آیا ہے۔
 
لیکن بی بی سی نے اس واقعے کے مقام سے تقریباً پانچ منٹ کی ڈرائیو پر واقع مسائی قبیلے کے چند افراد سے بات کی اور سمجھنے کی کوشش کی کہ انھیں اس رات فائرنگ کے بارے میں کیا یاد ہے۔
 
بی بی سی سے دو ایسے افراد نے بات کی جو اس واقعے کے وقت نہ صرف اس سڑک سے گزرے بلکہ انھیں فائرنگ کی آوازیں بھی سنائی دیں مگر ان کے اوقات یکسر مختلف ہیں۔ ان میں سے ایک شخص نفتالی وشیرہ نے بی بی سی کو بتایا کہ اس رات انھوں نے رات ساڑھے 10 سے 11 بجے کے دوران فائرنگ کی آواز سنی۔
 
image
 
’یہ فائرنگ بس چند سیکنڈ کے لیے ہوئی تھی۔ یہاں کیونکہ فائرنگ رینج ہے اور جی ایس یو کا ٹریننگ کیمپ ہے۔ ہم فائرنگ کی آوازیں سننے کے عادی ہیں۔ ہمیں پتہ ہے کہ جب تربیت کے دوران فائرنگ کی جاتی ہے تو اس کی آواز اور اوقات کار کیا ہوتے ہیں۔ مگر اس رات یہ مختلف تھی۔‘
 
اسی علاقے میں موجود ایک اور شہری نے بتایا کہ وہ نو بجے تک اپنے دوستوں کے ہمراہ ایک بار میں بیٹھے تھے اور نو بجے وہ چار دوست دو موٹر سائیکلوں پر اسی کچی سڑک پر روانہ ہوئے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ ساڑھے نو بجے کے قریب یہاں سے گزرے اور پھر دوست کو اس کے گھر چھوڑ کر واپس آئے، مگر اس تمام سفر کے دوران یہاں سڑک پر نہ کوئی پتھر پڑے تھے نہ راستہ بلاک کیا گیا تھا۔‘
 
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ساڑھے نو سے 10 بجے کے دوران یہ روڈ بلاک تھی اور نہ ہی یہاں پولیس اہلکار موجود تھے۔ جب جی ایس یو روڈ بلاک لگاتے ہیں تو کسی کو بھی وہاں سے گزرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ میں نے فائرنگ کی آواز 10 بجے کے بعد سنی مگر یہ یاد نہیں کہ اس وقت اصل ٹائم کیا ہو گا۔ ہو سکتا ہے یہ ساڑھے 10 کے بعد کا وقت ہو۔ مگر یہ قطعی طور پر ساڑھے نو نہیں تھا۔‘
 
بی بی سی سے اس رات اُس فارم ہاؤس پر کام کرنے والے ایک ملازم نے بھی بات کی۔ انھوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ اس رات ایمو ڈمپ کوینیا میں موجود تھے۔ ’ارشد شریف اور خرم احمد رات 10 بجے تک فارم ہاؤس میں ہی موجود تھے۔ اور یہ غالباً 10 بجے کا وقت ہو گا جب وہ دونوں وہاں سے نکلے۔‘
 
image
 
’لیکی‘ نامی شخص کون تھا؟
جی ایس یو کے یوٹا جوزف کے مطابق جب وہ روڈ بلاک لگائے ہوئے تھے تو وہاں سے قریبی علاقے میں مسائی قبیلے کے ’لیکی‘ نامی ایک شخص کا گزر ہوا، انھوں نے اس شخص کو گمشدہ گاڑی مرسڈیز کا حلیہ بتایا اور کہا کہ وہ ایسی گاڑی دیکھیں تو انھیں اطلاع دیں۔
 
ان کے مطابق کچھ دیر بعد لیکی نے انھیں فون کیا اور اطلاع دی کہ ایک گاڑی ان کی طرف آ رہی ہے۔ واضح رہے کہ اس مقام سے آگے کوینیا ایمو ڈمپ ہے جہاں ارشد شریف موجود تھے، اور یہاں موبائل فون عام طور پر کام نہیں کرتے۔
 
ہم نے اس مقام سے تقریبا پانچ منٹ کی ڈرائیو پر واقع چند گھروں پر مشتمل مسائی قبیلے پہنچے اور وہاں لیکی نامی اس شخص کو ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ مگر ہمیں بتایا گیا کہ اس آبادی میں اس نام کا کوئی شخص نہیں ہے۔
 
دوسری جانب پاکستانی تفتیش کاروں کی فیکٹ فائینڈنگ ٹیم کے مطابق انھوں نے لیکی نامی اس شخص کا نمبر حاصل کرنے کی کوشش کی تو یوٹا جوزف نے انھیں بتایا کہ وہ اس شخص کو نہیں جانتے اور نہ ہی ان کے پاس اب اس کا نمبر موجود ہے۔
 
ارشد شریف کی گاڑی پر گولیاں چلنے کے حوالے سے مختلف بیانات
واقعے کے فوراً بعد جی ایس یو کے اہلکاروں نے ایک تحریری بیان میں تحقیقاتی اداروں کو اپنے اسلحے سے فائرنگ کی تفصیل بتائی۔ کمانڈ کرنے والے افسر یوٹا جوزف نے کہا کہ انھوں نے پہلے گاڑی سے ایک فائر کی آواز سُنی اور اس کے بعد انھیں اپنے ساتھی کی چیخ سنائی دی۔ پھر ان کے دونوں ساتھیوں نے، جو ان کے بقول نالے کی دوسری جانب کھڑے تھے، فائرنگ شروع کر دی۔
 
یوٹا جوزف نے کہا کہ انھوں نے خود کوئی فائر نہیں کیا اور ان کے اسلحے میں گولیاں پوری ہیں۔ ان کے مبینہ طور پر زخمی ہونے والے ساتھی نے اپنے ابتدائی بیان میں کہا کہ انھیں احساس ہوا کہ ان کا ہاتھ سن ہو چکا ہے اور انھیں گولی لگی ہے تو وہ بھاگ کر نالے میں بنے پائپ میں چھپ گئے۔ انھوں نے پولیس کو بتایا کہ انھوں نے بھی ارشد شریف کی گاڑی پر فائرنگ نہیں کی تھی۔
 
ان کے تیسرے ساتھی کا بیان قدرے مختلف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے بھی فائرنگ نہیں کی اور اپنے ساتھی کے پیچھے بھاگ کر وہ پائپ میں چھپ گئے۔ اس دوران انھیں گولیاں چلنے کی آواز آتی رہی۔ البتہ آخر میں انھوں نے یہ بھی کہا کہ انھوں نے چند فائر کیے تھے۔
 
مگر ان بیانات سے مختلف بیان پاکستان کی تحقیقاتی ٹیم کو دیا گیا ہے۔ اگرچہ پاکستانی ٹیم اس زخمی اہلکار تک رسائی حاصل نہیں کر پائی تاہم اپنے بیانات میں ان اہلکاروں نے کہا ہے کہ یوٹا جوزف نے فائرنگ نہیں کی تھی البتہ زخمی ہونے والے سپاہی ایک ہاتھ سے ہی گاڑی پر فائرنگ کرتے رہے جبکہ دوسرے سپاہی نے بھی کہا کہ انھوں نے کئی گولیاں فائر کی تھیں۔
 
image
 
ارشد شریف کی گاڑی پر گولیوں کے نشان
ہم کینیا میں کیسیرین پولیس سٹیشن پہنچے جہاں ارشد شریف کی گاڑی کھڑی ہے۔ اس گاڑی کا معائنہ پاکستانی ٹیم کے علاوہ دو بیلسٹک ایکسپرٹس کر چکے ہیں اور گاڑی کے نچلے اور اندرونی حصوں میں لگنے والی گولیوں کے نشانات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔
 
سفید رنگ کی اس لینڈ کروزر پر لگی تمام گولیوں کے نشان دائیں جانب ہیں۔ صرف دو گولیاں ایسی ہیں جو گاڑی کے پچھلے شیشے پر ہیں اور تحقیقات کے مطابق اب تک یہی سمجھا جا رہا ہے کہ ان دو میں سے ایک گولی ارشد شریف کے سر پر لگی تھی۔
 
ارشد شریف کی ہلاکت ان کے سر اور سینے پر لگنے والی دو گولیوں سے ہوئی۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ارشد شریف کی سیٹ کی پشت پر اس گولی کا کوئی نشان موجود نہیں جو ان کے سینے میں لگی۔
 
گاڑی میں لگنے والی زیادہ تر گولیاں ’لوئر اینگل‘ سے ماری گئی ہیں، جبکہ کینین پولیس کا دعویٰ ہے کہ انھیں گاڑی کے اندر سے ایک کارٹرج (گولی کا خول) بھی ملا ہے۔
 
خون کے چھینٹے گاڑی کے پچھلے دروازے تک پہنچے ہیں مگر ڈرائیور کی سیٹ پر کسی گولی کا نشان ہے نہ ہی خون کا کوئی دھبہ۔
 
image
 
اس کیس سے منسلک ایک بیلسٹک ایکسپرٹ کے مطابق گاڑی کے باہر کے حصے پر موجود گولیوں کے نشانات سے پتا چلتا ہے کہ فائرنگ کرنے والے افراد لیٹے ہوئے تھے یا سڑک کی سطح سے نیچے بیٹھے ہوئے تھے۔
 
اگر جی ایس یو کے اہلکاروں کی بات مان لی جائے کہ گاڑی آگے بڑھنے کے بعد پیچھے کھڑے یوٹا جوزف نے کوئی فائر نہیں کیا، تو گاڑی کے پچھلے شیشے پر موجود گولیوں کے دو اہم نشانات کے بارے میں یہ بالکل واضح نہیں کہ یہ فائرنگ کس نے کی۔
 
کینیا میں ان تحقیقات سے منسلک بعض افسران کے مطابق بیلسٹک ایکسپرٹ سمجھتے ہیں کہ یہ دو گولیاں بہت قریب سے چلائی گئیں اور ایسے وقت میں چلائی گئیں جب یہ گاڑی رکی ہوئی تھی یا بہت آہستہ رفتار میں چل رہی تھی۔
 
گاڑی پر مجموعی طور پر گولیوں کے نو نشان ہیں جبکہ پولیس کو اس مقام سے دیے گئے خولوں کی تعداد 13 ہے۔ پولیس کے مطابق اس کی وجہ گولیوں کا ضائع ہونا ہو سکتا ہے۔
 
تحقیقاتی ادارے آئیپوا کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ وقوعہ کے مقام سے ملنے والے شیلز کے فورینزک تجزیے سے یہ تصدیق ہوئی ہے کہ یہ تمام شیلز جی ایس یو کے اہلکاروں کے اسلحے کے تھے۔
 
ارشد شریف کا آئی فون اور آئی پیڈ
کینیا کی پولیس کے ایک افسر نے دعویٰ کیا کہ ارشد شریف کا آئی فون ملک کی انٹیلیجنس ایجنسی کے پاس ہے۔ ان کا یہ فون وہی ہے جو وہ استعمال کر رہے تھے اور اس رات بھی ان کے پاس تھا۔ ڈی سی آئی یعنی ڈائریکٹوریٹ آف کریمینل انوسٹیگیشن کے ایک افسر، جو اس کیس کی تحقیقات کے ساتھ منسلک ہیں، نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کو اس فون تک رسائی نہیں دی گئی ہے۔
 
پاکستان سے جانے والے افسران کو بھی ارشد شریف کے فون اور آئی پیڈ تک رسائی نہیں دی گئی جبکہ پولیس کے کردار کی تحقیق کرنے والے ادارے آئیپوا کے سربراہ نے بھی بی بی سی سے بات کرتے ہوئے یہ تصدیق نہیں کی کہ انھیں اس فون تک رسائی ملی ہے یا نہیں۔
 
اس کیس سے منسلک ایک تفتیش کار نے دعویٰ کیا اُن کا یہ آئی فون اور آئی پیڈ ان کے میزبان وقار احمد نے پولیس کے حوالے کرنے کے بجائے کینیا کی انٹیلیجنس ایجنسی کو دیا تھا۔
 
image
 
ارشد شریف کی ڈیڈ باڈی دیکھنے والے افراد کے مختلف بیانات
اگر اب تک کی تحقیقات میں مختلف تفتیش کاروں کو مختلف مواقع پر دیے گئے بیانات کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو فائرنگ کے اوقات کار اور جی ایس یو کے اہلکاروں کی پوزیشنز کے بعد سب سے بڑا تضاد ارشد شریف کو مردہ حالت میں سب سے پہلے دیکھنے والے افراد کے بیانات میں ہے۔
 
ڈی سی آئی کے ایک اہلکار کے مطابق یہی وجہ ہے کہ اب پولیس اس اینگل سے بھی تحقیق کر رہی ہے کہ کہیں ارشد شریف روڈ بلاک تک پہنچنے سے پہلے ہی قتل تو نہیں ہو چکے تھے؟
 
ارشد شریف کی ڈیڈ باڈی خرم احمد کے بعد سب سے پہلے اس فارم ہاؤس کے گارڈ جوزف نے دیکھی جو گیٹ کھولنے آئے تاکہ خرم گاڑی فارم ہاؤس میں داخل کر سکیں۔ انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’خرم بہت گھبرائے ہوئے تھے، اُنھوں نے مجھ سے پانی مانگا اور پھر فارم ہاؤس کے اندر چلے گئے۔ وہ اس وقت باہر نکلے جب ان کے اہلخانہ وہاں پہنچے۔‘
 
جوزف کے مطابق جب انھیں خرم نظر نہیں آئے تو انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ خود گاڑی میں دیکھیں گے تاکہ اسے اندر لے جا سکیں۔ ان کے مطابق وہ نہیں جانتے تھے کہ گاڑی میں کوئی اور ہو گا۔
 
’یہ شاید دس بج کر بیس منٹ کا وقت ہوگا۔ ڈرائیونگ سیٹ پر کوئی نہیں تھا، میں نے پسینجر سیٹ کا دروازہ کھولا تو سامنے ایک شخص مردہ حالت میں پڑا تھا۔ میں نے اس کو ہاتھ بھی نہیں لگایا۔ اس کا خون جم چکا تھا اور وہ مرا ہوا تھا۔ میں گھبرا گیا اور دروازہ بند کر کے اندر بھاگا تاکہ خرم سے پوچھ سکوں کہ یہ کون ہے۔ مگر خرم وہاں موجود نہیں تھا۔ میں اس کے بعد بھاگ کر اپنے کمرے کی طرف آ گیا اور اس وقت باہر نکلا جب گیٹ پر دوسری گاڑیاں (وقار احمد و دیگر) پہنچیں۔‘
 
ہم نے ان سے پوچھا کہ کیا ارشد شریف کے جسم سے خون بہہ رہا تھا، تو انھوں نے کہا کہ ’نہیں خون بہہ نہیں رہا تھا، یہ بالکل خشک ہو چکا تھا۔‘
 
یہاں پہنچنے والے ڈی سی آئی کے افسران نے بھی یہی بیانات دیے ہیں کہ جب وہ فارم ہاؤس پہنچے تو ان کے جسم پر خون جما ہوا تھا۔
 
لیکن خرم احمد کے بیانات مختلف ہیں۔ ان کے پولیس کو دیے گئے ابتدائی بیان کے مطابق آدھے گھنٹے کے سفر کے دوران ارشد شریف سانس لے رہے تھے اور ان کے جسم سے خون بہہ رہا تھا۔
 
اس دوران یعنی فارم ہاؤس پہنچنے سے پہلے ہی وقار احمد پولیس، انٹیلیجنس اور اے آر وائے کے مالکان کو ارشد شریف کی ہلاکت کی تصدیق کر چکے تھے۔
 
وقار احمد کی اہلیہ نے فارم ہاؤس پہنچنے پر یہاں موجود ملازم کو باہر بھیج دیا اور کہا کہ وہ روڈ بلاکس کی وجہ پتا کر کے آئیں۔ یہ ملازم ایک گھنٹے بعد پولیس کے ہمراہ یہاں پہنچے۔
 
وقار احمد کے تفتیش کاروں کو دیے گئے بیان کے مطابق واقعے کے بعد اگلے 20 منٹ میں ان کی سلمان اقبال سے پہلی بار بات ہوئی اور انھوں نے ارشد شریف کی موت کی تصدیق کی۔ لیکن سلمان اقبال کے پاکستانی تفتیش کاروں کو دیے گئے بیان کے مطابق انھیں تین سے چار گھنٹے کے بعد وقار سے پہلی بار بات کی۔
 
image
 
ڈنر پر موجود امریکی کون تھے؟
اس رات وقار احمد کے فارم ہاؤس پر ڈنر امریکی انسٹرکٹرز کے اعزاز میں دیا گیا۔ یہاں چھ امریکی اہلکار موجود تھے۔ مگر ان میں سے کوئی بھی اس انویسٹیگیشن کا حصہ نہیں ہے۔ یہاں تک کہ کینیا کی پولیس کے مطابق انھیں یہ علم ہی نہیں کہ وہ کون تھے اور اب کہاں ہیں۔
 
پولیس نے معذرت کی یا گولیوں کی اطلاع دی؟
ارشد شریف کی ڈیڈ باڈی ٹنگا فارم ہاؤس لے جائی گئی تھی۔ جہاں بعدازاں وقار احمد، ان کی اہلیہ مورین اور دوست اور بزنس پارٹنر جمشید بھی پہنچ گئے۔ پولیس یہاں 11 بجے کے بعد پہنچی۔
 
وقار احمد کے مطابق پولیس اور ان کے ساتھیوں نے فارم ہاؤس پہنچنے پر انھیں بتایا کہ جی ایس یو کا ایک اہلکار زخمی ہے جس پر ارشد شریف کی گاڑی سے گولی چلائی گئی۔
 
لیکن وہیں موجود خرم کا بیان اس تمام بات چیت کے حوالے سے یکسر مختلف ہے۔ ان کے مطابق پولیس نے واقعے کو مسٹیکن آئیڈینٹٹی (غلط شناحت) قرار دیتے ہوئے خرم احمد سے معذرت کی۔
 
کیا پاکستان کا کینیا حکومت سے رابطہ ہے؟
 
image
 
پاکستان کے وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کہہ چکے ہیں کہ کینیا کی حکومت اور اداروں نے پاکستان سے جانے والی تفتیشی ٹیم سے تعاون نہیں کیا ہے۔ فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی اپنی رپورٹ میں بھی یہی بات لکھی ہے۔
 
بی بی سی نے یہی سوال جب کینیا کے وزیر داخلہ کیتھورے کنڈیکی سے کیا تو ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ان سے اس قسم کے کسی خدشے کا اظہار نہیں کیا۔
 
’آپ کو یہ بات کس نے بتائی ہے کہ کینیا کی حکومت یا ادارے پاکستان سے تعاون نہیں کر رہے ہیں۔ ہم پاکستان سے رابطے میں ہیں اور کم از کم میرے دفتر کی حد تک پاکستان کی ایسی کوئی شکایت یا گلہ نہیں پہنچا کہ ہم نے ان سے تعاون نہیں کیا۔ جب پاکستانی ٹیم یہاں آئی تو ہم نے ان سے مکمل تعاون کیا۔‘
 
کینیا کے وزیر داخلہ کے مطابق ’ہمیں بھی اتنا ہی افسوس ہے جتنا پاکستان کو کہ ان کا ایک شہری ہمارے ملک میں ہلاک ہوا ہے۔ اس کیس کی تحقیقات کو طول دینا کسی صورت کینیا کے مفاد میں نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ میں پاکستانی شہریوں اور ارشد کے خاندان کو یہ یقین دلاتا ہوں کہ ہم ریکارڈ ٹائم میں اس کیس کی تحقیقات مکمل کر لیں گے۔‘
 
انھوں نے کہا کہ ان کا نگران محکمہ ڈی سی آئی اس کیس کی شفاف انداز میں تحقیق کر رہا ہے اور جلد ہی نتائج سامنے آ جائیں گے۔
 
اسی بارے میں اس کیس میں پولیس کے کردار کی تفتیش کرنے والے ادارے آئیپوا کے سربراہ نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کی جانب سے نہ تو ان کے پاس ایسی کوئی درخواست آئی ہے کہ انھیں ارشد شریف کے آئی فون تک رسائی دی جائے اور نہ ہی یہ کہا گیا ہے کہ ہم نے ان سے تعاون نہیں کیا۔
 
’پاکستان کی جانب سے ایسا بیان آنا افسوسناک ہے۔ ہم نے ان سے مکمل تعاون کیا اور وہ جاننا چاہتے تھے کہ تحقیقات کیسے ہو رہی ہیں اور کہاں پہنچی ہیں۔ ہم نے ان کے ساتھ تفصیلی ملاقاتیں کیں اور انھیں تازہ ترین پیشرفت کے حوالے سے بتایا۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم یہاں ایک جوائنٹ انوسٹیگیشن نہیں کر رہے کہ ہم ثبوت و شواہد شیئر کریں۔ ہمارا ایک آزاد اور شفاف ادارہ ہے جو آزادانہ تحقیقات کر رہا ہے، اور ہماری تحقیقات کا پاکستان کی تحقیقات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘
 
’ارشد شریف کے کیس کی تحقیقات مکمل‘
 
image
 
بی بی سی بات کرتے ہوئے آئیپوا کے سربراہ نے کہا کہ انھوں نے ’اس کیس کی تحقیقات مکمل کر لی ہیں اور اب محکمہ جاتی سطح پر اپنی تحقیق کا ازسرنو جائزہ لیا جا رہا ہے تاکہ کسی غلطی کا امکان نہ رہے۔ ہمیں امید ہے کہ ہم دو ہفتوں میں اپنی رپورٹ متعلقہ ڈپارٹمنٹ میں جمع کروا دیں گے جو اس کا جائزہ لیں گے اور اس کو عوام کے سامنے پیش کریں گے۔‘
 
اس سوال پر کہ کیا اب تک کی تحقیقات میں کسی بیرونی ایجنسی یا فرد کے ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں، آئیپوا کے سربراہ نے کہا کہ وہ اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔ ’میرے خیال میں یہ میری ڈومین نہیں کہ میں یہ کہہ سکوں کہ کوئی پاکستانی ایجنسی یا فرد اس قتل میں ملوث ہو سکتا ہے۔ میں اس بارے میں نہیں جانتا اور اس لیے ایسی رائے نہیں دوں گا جس کا مجھے علم ہی نہیں ہے۔‘
 
تاہم جی ایس یو کے سابق افسر اور انسٹرکٹر جارج موساملی دوسری رائے کے حامل ہیں۔ انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 23 اکتوبر کو ہونے والی اس تعیناتی میں بڑے لوپ ہولز (کمیاں) ہیں اور بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس قتل کی منصوبہ بندی کینیا سے باہر کی گئی تھی۔
 
’سب سے پہلے تو یہ ڈپلائمنٹ (تعیناتی) ہی غلط ہوئی اور بنیادی پروٹوکولز اور ایس او پیز کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ تین سے چار اہلکاروں کا دستہ تعینات ہوتا ہے اور نہ ہی جی ایس یو کسی گاڑی کے چوری یا اغوا ہونے سے متعلق کیس اپنے ہاتھ میں لیتا ہے۔ یہاں قریب ہی ایک پولیس سٹیشن موجود تھا، وہاں کے بجائے ایک تربیتی مرکز سے اہلکاروں کی ڈیوٹی کیوں لگائی گئی؟‘
 
خیال رہے کہ اس رات اس کارروائی میں شریک تمام جی ایس یو اہلکاروں نے کہا ہے کہ انھوں نے اس سے پہلے اپنی سروس کے دوران ایسی کوئی ڈیوٹی نہیں دی تھی۔
 
جارج مساملی کے مطابق ’ایسا لگتا ہے کہ اس قتل کی منصوبہ بندی کینیا سے باہر کی گئی اور اس پر عملدرآمد یہاں ہوا۔ اور ایسا ممکن نہیں کہ کینیا کی حکومت یا جی ایس یو میں کسی کو اس کا پتا نہ ہو۔ یہاں کوئی نہ کوئی ایسا شخص ضرور ہے جسے علم تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔ اس واقعے کی جس انداز میں تحقیق کی جا رہی ہے، اس پر بھی کئی سوال اٹھتےہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ اس معاملے میں کسی کو قربانی کا بکرا بنا دیا جائے گا اور اصل قاتلوں تک کوئی نہیں پہنچ سکے گا۔‘
 
’ارشد شریف کے اہلخانہ نے رابطہ کیا تو مدد فراہم کی جائے گی‘
کچھ ایسے ہی خدشات کا اظہار کینیا میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ارونگو ہاگٹن نے بھی کیا ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ کینیا میں ماورائے عدالت قتل اور پولیس کو بطور قاتل خریدنے کے کیسز میں کافی اضافہ ہو چکا ہے۔
 
’اس کی سب سے بڑی وجہ کرپشن ہے۔ لیکن ارشد شریف کے قتل اور پھر اس معاملے کی تحقیقات پر ایمنسٹی انٹرنیشنل کو شدید تحفظات ہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ کیسے ان کے لیے پاکستان میں زمین تنگ کی گئی اور انھیں پہلے دبئی اور پھر کینیا آنا پڑا۔ اور یہاں ان کا قتل کر دیا گیا جو بظاہر ایسے ہی واقعات کی کڑی نظر آتی ہے جو اس سے پہلے بھی کینیا میں ہوتے رہے ہیں۔‘
 
انھوں نے کہا کہ ارشد شریف کی فیملی نے ان سے رابطہ نہیں کیا، لیکن ایسا ہونے کی صورت میں ایمنسٹی انٹرنیشنل انھیں مدد فراہم کرے گی۔ انھوں نے کہا کہ ماضی کا ریکارڈ دیکھتے ہوئے یہ انصاف پر مبنی مطالبہ ہے کہ ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات ایک ایسے آزاد کمیشن سے کروائی جائے جس کی نگرانی اقوام متحدہ یا کوئی اور بین الاقوامی ادارہ کر رہا ہو۔
 
’ارشد کی زبان بند کر دی، اب اسے انصاف تو دے دو‘
 
image
 
ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات مکمل ہونے، ان کے منظر عام پر آنے اور اس قتل کی گتھی سلجھنے میں نجانے کتنا وقت لگے، اور جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے، اس معاملے کے ثبوت و شواہد بھی دھندلے ہو رہے ہیں۔
 
اب ایک بار پھر خاموشی ہے، مگر یہ خاموشی ارشد شریف کے گھر میں کہیں نہیں ملتی۔
 
ان کی والدہ کہتی ہیں، ’میرے اندر ایک طوفان چھپا ہوا ہے۔ میرے بیٹے کو جن لوگوں نے قتل کیا، میں ان سب کو جانتی ہوں۔‘
 
وہ غصے میں ہیں اور انصاف مانگتی ہیں مگر میں نے جب بھی ان سے سوال کیا کہ کیا انھیں امید ہے کہ یہ کیس کبھی انجام کو پہنچ پائے گا تو اُن کا جواب نفی میں ہی تھا۔
 
ان کی اہلیہ اپنے پانچ بچوں کے ہمراہ پریشان ہیں۔ ’مجھے ان سے انصاف کی امید نہیں ہے۔ اگر یہ انصاف والے ہوتے تو میرے بچوں کے ساتھ یہ زیادتی کرتے؟ ارشد ان بچوں کو بہادر بننا سکھا گیا ہے، مگر ہم اسے بہت یاد کرتے ہیں، یہ وہ کمی ہے جو کبھی پوری نہیں ہو سکے گی۔‘
 
ان کی اہلیہ اور والدہ حال ہی میں سپریم کورٹ پہنچیں اور کئی افراد کو نامزد کیا تو دوسری جانب ان کی ایک جنگ سوشل میڈیا پر ان کی دوسری اہلیہ جویریہ ارشد بھی لڑ رہی ہیں اور اس کوشش میں ہیں کہ ان کے شوہر کا نام اور قتل انصاف کی تلاش کے سفر میں وقت کی دھول میں چھپ نہ جائے۔
 
ارشد شریف کی والدہ اور اہلیہ نے حال ہی میں سپریم کورٹ میں سابق آرمی چیف، موجودہ حکومتی قیادت اور پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے چند حاضر سروس افسران کو ارشد شریف کے قتل کے کیس میں نامزد کیا ہے۔
 
میں نے ان سے پوچھا کہ انھیں یہ باتیں کس نے بتائی ہیں، تو ان کا کہنا تھا کہ کچھ دوست احباب اور اخباروں سے انھیں یہ سب پتا چلا ہے۔
 
وہ نہیں جانتیں کہ ارشد کو کس نے مشورہ دیا۔ ’یہ لوگ ملوث ہیں کیونکہ ان میں سے ایک شخص ارشد کے پاس گھر اور دفتر آیا اور کہا کہ ’جو پیغام میں لایا ہوں وہ اوپر والے کے پاس جائے گا اور جو جواب تم دو گے وہ اوپر جائے گا۔‘ کس نے مارا ہے؟ اور کیوں؟ کیونکہ وہ سوال کر رہا تھا۔ کیا کسی اور شہری میں ہمت ہے کہ ان سے سوال کرے؟‘
 
ان کی والدہ نے آخری بار ارشد شریف سے بات اُن کی ہلاکت سے دو دن پہلے کی تھی اور ان سے پوچھا کہ انھوں نے نیا وی لاگ کیوں شائع نہیں کیا۔ ’ارشد نے مجھے بتایا کہ وہ دوستوں کے ساتھ مصروف تھے اور پھر صبح اس نے توشہ خانے والا آخری وی لاگ یوٹیوب پر اپ لوڈ کیا جسے میں نے ناشتے کے بعد دیکھا۔ یہ میری ارشد سے آخری بات تھی۔‘
 
ان کی اہلیہ کہتی ہیں کہ ارشد شریف کی موت سے کچھ گھنٹے قبل انھوں نے واٹس ایپ پر ارشد شریف کو پیغام بھیجا تھا۔ ’میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کب واپس آ رہے ہیں، اب آ جائیں۔ انھوں نے جواب دیا کہ دسمبر میں آؤں گا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ وہ ابھی دوستوں کے ہمراہ کہیں باہر جا رہے ہیں اور بعد میں بات کریں گے۔ یہ سہ پہر کا وقت تھا۔ پھر رات کو ان کے دفتر سے کچھ لوگ گیٹ پر آئے اور مجھے فون کیا کہ بھابی دروازہ کھولیں، بات کرنی ہے، اچھی خبر نہیں ہے۔ پہلے انھوں نے کہا کہ ارشد کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔ مجھے یہ آئیڈیا نہیں تھا کہ ایسا ہو جائے گا۔ یہ خدشہ رہتا تھا کہ انھیں کوئی نقصان پہنچا سکتا ہے اور ہم محتاط بھی تھے۔ مگر یہ اندازہ نہیں تھا کہ کوئی اس حد تک جا سکتا ہے۔‘
 
مگر وہ بھی کہتی ہیں کہ انھیں انصاف کی کوئی امید نہیں۔
 
’انصاف ملتا نظر نہیں آتا۔ یہ انصاف دینے والے ہوتے تو میرے بچوں کے ساتھ یہ ظلم کرتے؟ وہ ایک اچھا بیٹا، اچھا شوہر اور اچھا باپ تھا۔ اسے بولنے نہیں دیا گیا، اس کی آواز بند کر دی گئی۔ اب کم از کم اس کے ساتھ انصاف تو کر دیں۔‘
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: