پراسرار مخلوق کے راز سے پردہ اٹھ گیا٬ جاپانی 40 سال تک کس چیز کی پوجا کرتے رہے؟

image
 
جاپان کے ایک مندر میں گزشتہ کئی دہائیوں سے ایک ایسی ممی میں تبدیل مخلوق کی باقیات کی پوجا جاری ہے جو بظاہر کسی جل پری کی مانند دکھائی دیتی ہے جبکہ سائنسدان ایک طویل عرصے سے اپنا خیال ظاہر کر رہے تھے کہ یہ ممی ممکنہ طور پر کسی انسان کی ہی بنائی ہوئی کوئی تخلیق ہے-
 
اس جل پری کے بارے میں مشہور ہے کہ اسے 1736 اور 1741 کے درمیان شکوکو کے جزیرے کے قریب سے پکڑا گیا تھا جس کے بعد اسے ساکوچی کے اینجوئن مندر میں 40 سال سے زیادہ عرصے سے نمائش کے لیے رکھا گیا ہے- یہاں آنے والے عقیدت مندوں کا ماننا ہے کہ یہ باقیات ان کے لیے خوش قسمتی کی علامت ہیں-
 
اس کے علاوہ اس مخلوق کے حوالے سے ایک کہانی یہ بھی ہے کہ جو انسان اس کا گوشت کھاتا ہے اس کے روح ہمیشہ زندہ رہتی ہے- تاہم سائنسدانوں نے ان افسانوی کہانیوں کی تصدیق کے لیے مکمل تحقیق کی درخواست کر ڈالی-
 
image
 
جس کے بعد گزشتہ سال، Kurashiki یونیورسٹی آف سائنس اینڈ آرٹس کے محققین نے Enjuin مندر سے پراسرار ممی حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کرلی اور متعدد جدید تکنیکوں کا استعمال کرتے ہوئے اس کا تجزیہ شروع کردیا، اس تجزیے میں ایکسرے اور CT (کمپیوٹرائزڈ ٹوموگرافی) اسکین، ریڈیو کاربن ڈیٹنگ، الیکٹران مائکروسکوپی اور ڈی این اے تجزیہ بھی شامل تھا۔
 
12 انچ کی اس منفرد ممی میں ایک چھوٹا سا سر اور دھڑ اور مچھلی کا نچلا حصہ نظر آتا ہے جبکہ حقیقت میں اس ڈھانچے میں کچھ کمی ہے- ممی کے نچلے جسم میں صرف ڈھانچے کی باقیات تھی اور ایسا لگتا تھا کہ یہ کسی مچھلی کا ہے۔ اس کا باقی حصہ مختلف جانوروں کی باقیات، کپڑے، کاغذ اور روئی کا ایک عجیب امتزاج معلوم ہوتا تھا۔
 
کچھ سائنس دانوں کا پہلے یہ خیال تھا کہ یہ پوجا کی جانے والی ممی کسی انسان نے ایک چھوٹے بندر کے سر اور دھڑ سے بنائی ہے جس میں جسم کے نچلے حصے کو سلائی کیا گیا ہے۔ تاہم پچھلے سال کے تجربات نے ثابت کیا کہ ممی کی باقیات کو انسان نے اکٹھا کیا تھا، تاہم صحیح بات کا درست اندازہ لگانا اب بھی تھوڑا مشکل تھا۔
 
’جل پری‘ کے دھڑ کو کپڑے اور کاغذ سے بھرنے کے بعد، جس نے بھی اس ممی کو بنایا، اس نے اسے ریت اور چارکول کے مکسچر سے بنے پیسٹ سے پینٹ بھی کیا۔ اس کے جبڑے اور دانت بھی غالباً ایک قسم کی شکاری مچھلی سے لیے گئے تھے، اور اس کے ناخن کیراٹین سے بنائے گئے تھے۔ ریڈیو کاربن ڈیٹنگ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ نمونہ 1800 کی دہائی کے اوائل کا ہے۔
 
 
اگرچہ ممی کا اصل مقصد اب بھی ایک معمہ بنا ہوا ہے، لیکن سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اس کا مقصد لوگوں کو یہ یقین دلانا تھا کہ ننگیو (جاپانی افسانوی مخلوق) ایک لافانی حقیقت ہے۔
 
جاپانی سائنسدانوں کی ٹیم نے اس سال کے شروع میں اپنی اس تحقیق کے نتائج شائع کیے تھے۔ محققین جاپان بھر میں موجود دیگر 14 ’ممی‘ میں سے چند ایک پر تحقیق کرنے کے لیے پرامید ہیں۔
YOU MAY ALSO LIKE: