ساٹھ سال میں بیس وزیر اعظم

پاکستان میں فوجی مداخلت اور صدر اور وزیراعظم کےتعلقات میں تناؤ کی وجہ سے ایک وزیراعظم کےعلاوہ کوئی بھی اپنی عہدے کی آئینی مدت مکمل نہ کرسکا۔

ساٹھ برسوں میں جہاں بیسں وزرائےاعظم آئے وہاں پچیس برسوں تک وزیراعظم کے عہدے کا عملی طور پرکوئی وجود نہ رہا۔

قیام پاکستان کے پہلے دس برسوں میں سات وزرائےاعظم تبدیل ہوئے اس عرصہ میں لیاقت علی خان واحد وزیراعظم تھے جو ،سب سے زیادہ مدت ، چار سال تک وزرات عظمٰی کے عہدے پر فائز رہے۔

نوابزادہ لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیراعظم تھے۔ انہیں پندرہ اگست انیس سو سینتالیس کو وزیراعظم چنا گیا لیکن سولہ اکتوبر انیس سو اکیاون کو انہیں اس وقت گولی مار کرہلاک کردیا گیا جب وہ لیاقت باغ میں ایک جلسئہ عام خطاب کررہے تھے۔

لیاقت علی خان کی ہلاکت کے بعد اس وقت کے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین نے اپنا عہدہ چھوڑ کر سترہ اکتوبر انیس سو اکیاون کو وزارتِ عظمٰی کا منصب سنبھال لیا۔وہ تقریبا دو برس تک اس عہدے پرفائز رہے اور سترا اپریل 1953 کو اس کے وقت کے گورنر جنرل غلام محمد نے انہیں برطرف کردیا۔

محمد علی بوگرہ پاکستان کے تیسرے وزیراعظم تھے جو سترہ اپریل انیس سوترپین سےگیارہ اگست انیس سو پچپن تک اس منصب پرفائز رہے ۔گورنر جنرل پاکستان غلام محمد نے ان سے استعفیْ لیا تھا۔محمد علی بوگرا وزیر اعظم بننے سے پہلے امریکہ میں سفیر تھے۔

چودھری محمد علی بارہ اگست کو پاکستان کے چوتھے وزیراعظم مقرر ہوئے اور ان کے دور حکومت میں تئیس مارچ 1956 کو ملک کا پہلا آئین بھی بنا تاہم چودھری محمد علی نئے آئین کے چند ماہ بعد ہی بارہ ستمبر انیس سوچھپن کو ایک سال ایک ماہ تک وزاراتِ عظمٰی پرفائز رہنے کے بعد اس عہدے سے الگ ہوگئے۔

پاکستان کے پہلے آئین کے بعد دو سال کی مدت میں چار وزرائے اعظم تبدیل ہوگئے۔
 

حسین شہید سہروردی نے بارہ ستمبر انیس سو چھپن میں وزیراعظم کے عہدے کا حلف اٹھایا اور ایک سال ایک ماہ تک عہدے سے فائزہ رہنے کے بعد ان کو عہدے سے ہٹادیا گیا جس کے بعد ابراہیم اسماعیل چندریکر وزیراعظم بنے لیکن گورنر جنرل سکندر مرزا سے اختلافات کے باعث انہیں دو ماہ بعد ہی اپنے عہدے سے مستٰعفی ہونا پڑا۔

پاکستان میں جس وقت مارشل لا لگا کر آئین کو منسوخ کیا تو اس وقت ملک کے وزیراعظم فیروز خان نون تھے ۔وہ سولہ دسمبر انیس سو ستاون سے سات اکتوبر اٹھاون تک وزیراعظم کے عہدے پر رہے۔

انیس سو اٹھاون میں مارشل لاء کے نفاذ کے بعد آئین منسوخ ہونے کے ساتھ وزیر اعظم کا عہدہ بھی ختم ہوگیا اور انیس سو باسٹھ میں اس وقت کے صدر جنرل ایوب خان نے نیا آئین متعارف کرایا جس میں پارلیمانی نظام حکومت کو ختم کر کے اس کی جگہ صدارتی نظام رائج کردیا گیا تاہم یہ آئین بھی انیس سو انہتر میں منسوخ کردیا گیا۔

تیرہ برس کے وقفے کے بعد جب وزیراعظم کا عہدہ بحال کیا گیا تو نورالامین کو وزیراعظم مقرر کیا گیا لیکن مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے چار روز بعد نورالامین تیرہ دنوں تک وزیراعظم رہنے کے بعد اس عہدے سے الگ ہوگئےاور ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ نائب صدر بن گئے اور وزیراعظم کا منصب پھر ختم ہوگیا۔

مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد چودہ اگست انیس سو تہتر کا نیا آئین وجود میں آیا اور ملک میں ایک مرتبہ پھر پارلیمانی نظام حکومت رائج کردیا گیا اور ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ وہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم تھے جنہوں نے اپنی عہدے کی آئینی مدت پوری کی۔

ذوالفقار علی بھٹو دو مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئے اور پانچ جولائی انیس سو ستتر کو جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء کر ان کی حکومت کو برطرف کردیا اور چار اپریل انیس سواناسی کو ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔

ضیاءالحق کے مارشل لاء اور آئین کی معطلی کی وجہ سے وزیراعظم کا عہدہ ایک مرتبہ پھر متروک ہوگیا اور لگ بھگ سات برس سے زائد عرصہ کے بعد ملک میں آئین بحال ہوا تو وزیراعظم کا عہدہ بھی بحال ہوگیا اور تیئس مارچ انیس سو پچاسی کو محمد خان جونیجو وزیر اعظم بنے۔

جنرل ضیاء الحق نے آئین کی بحالی سے پہلے اس میں ترمیم کی جس سے صدر کو اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار مل گیا۔اس صدارتی اختیار کا پہلا شکار محمدخان جونیجو ہوئےاور ان کی حکومت انتیس مئی سنہ انیس اٹھاسی کوختم ہوگئی۔
 

جنرل ضیاء الحق نے جونیجو کی حکومت تحلیل کرنے کے بعد نگران کابینہ تو تشکیل دی لیکن نگران وزیراعظم کا تقرر نہیں کیا گیا جو پاکستانی تاریخ میں ایک انوکھا واقعہ ہے۔

سنہ اٹھاسی کے انتخابات میں بینظیر بھٹو پاکستان اور مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم بنیں تاہم ان کی حکومت بھی اٹھارہ ماہ بعد ہی اٹھاون ٹو بی کا شکار ہوگئی۔

ملک میں نئے انتخابات تک نیشنل پیپلز پارٹی کے سربراہ اور اس وقت کے قائد حزب اختلاف غلام مصطفیْ جتوئی کو تین ماہ کی مدت کے لیے نگران وزیراعظم بنادیاگیا۔

 

نوے کے انتخابات میں نواز شریف وزیراعظم منتخب ہوئے لیکن غلام اسحاق خان نے اختلافات کی بناء پر ان کی حکومت کو اٹھارہ اپریل انیس سوترانوے کو تحلیل کردیا اور بلخ شیرمرزاری کو نگران وزیراعظم مقرر کیا لیکن نواز شریف نے اس اقدام کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا اور عدالت نے ایک ماہ اور آٹھ دن کے بعد انہیں بحال کردیا اس طرح بلخ شیر مرزاری پاکستان کے واحد نگران وزیر اعظم ہیں جو نہ صرف سب سے کم عرصے کے لیے نگران وزیر اعظم بنے بلکہ اپنی آئینی مدت بھی مکمل نہ کرسکے۔

عدالتی حکم پر اسمبلی کی بحالی کے باوجود بھی یہ اسمبلی نہ چل سکی تاہم اس مرتبہ پہلی بار وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ صدر مملکت یعنی غلام اسحاق کو بھی مستٰعفی ہونا پڑا اور اس طرح غلام اسحاق خان نے اسمبلی تحلیل کرنے کے بعد خود بھی استعٰفی دے دیا۔چیئرمین سینیٹ وسیم سجاد قائم مقام صدر بنے اور معین قریشی کو نگران وزیراعظم بنایا گیا۔
 

انیس سوترانوے میں بینظیر بھٹو دوبارہ وزیراعظم بنیں اور اٹھاون ٹو بی کی موجودگی کی وجہ سے اپنے قابل بھروسہ پارٹی رہنما سردار فاروق احمد خان لغاری کو صدر منتخب کرایا لیکن بینظیر بھٹو کی یہ حکمت عملی بھی ان کے کام نہیں آئی اور فاروق لغاری نے ان کی حکومت تحلیل کر کے پیپلز پارٹی کے سینئیر رہنما اور سابق سپیکر قومی اسمبلی ملک معراج خالد کو نگران وزیراعظم بنادیا

ذوالفقار علی بھٹو، ان کی بیٹی بینظیر بھٹو اور نواز شریف دو دو مرتبہ وزیراعظم بنے۔

ستانوے کے چناؤ میں نواز شریف بھی دوسری مرتبہ وزیراعظم بن گئے اور بینظیر بھٹو کی مدد سے اسمبلی تحلیل کرنے کے اختیار کو ایک آئینی ترمیم کے ذریعے ختم کردیا لیکن یہ آئینی بندوبست بھی ان کی حکومت کو بچانے میں مدد گارثابت نہ ہوا اورجنرل پرویز مشرف نے بارہ اکتوبر کو آئین معطل کرکے مارشل لاء لگادیا۔

جنرل پرویز مشرف نے وزیراعظم کی جگہ اپنے لیے چیف ایگزیکٹو کا عہدہ تخلیق کیا اور اس طرح تین برس کے لیے وزیراعظم نام کی کوئی چیز نہیں رہی۔

اکتوبر دو ہزار دو کے انتخابات میں جہاں نئی اسمبلی وجود میں آئی وہیں اسمبلی کی تحلیل کا صدارتی اختیار بھی جنرل مشرف کے ایل ایف او کے ذریعے بحال ہوگیا تاہم صدر مشرف نے اپنے پیش رو کی طرح یہ اختیار استعمال نہیں کیا لیکن اس کے باوجود اسمبلی نے اپنی آئینی مدت میں تین وزیراعظم منتخب کیے جن میں میر ظفر اللہ خان جمالی نےڈیڑھ سال تک وزیر اعظم کے منصب پر فائز رہنے کے بعد استعفیْ دے دیا، شجاعت حسین ڈیڑھ ماہ کے لیے وزیر اعظم بنے اور اسی دوران سینیٹر شوکت عزیز نے ضمنی انتخاب لڑا اور اسمبلی کی باقی باندہ مدت کے وزیراعظم چنے گئے۔
 

صدر پرویز مشرف نے اسمبلی کی مدت مکمل ہونے پر اس کو تحلیل کردیا اور چیئرمین سینیٹ کو نگران وزیراعظم بنادیا جو جنرل ضیا الحق کی نگران وزیر اعظم مقرر نہ کرنے کے بعد اپنی نوعیت کا دوسرا واقعہ ہے۔

پاکستان کے بیس وزرائے اعظم میں سے پانچ نگران وزیر اعظم تھے۔

یوسف رضا گیلانی پاکستان کے اکیس ویں وزیر اعظم ہیں

YOU MAY ALSO LIKE: