Add Poetry

سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا

Poet: Aatish Haider Ali By: qasim, khi
Sun To Sahi Jahan Mein Hai Tera Fasana Kya

سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا

کیا کیا الجھتا ہے تری زلفوں کے تار سے
بخیہ طلب ہے سینۂ صد چاک شانہ کیا

زیر زمیں سے آتا ہے جو گل سو زر بکف
قاروں نے راستے میں لٹایا خزانہ کیا

اڑتا ہے شوق راحت منزل سے اسپ عمر
مہمیز کہتے ہیں گے کسے تازیانہ کیا

زینہ صبا کا ڈھونڈتی ہے اپنی مشت خاک
بام بلند یار کا ہے آستانہ کیا

چاروں طرف سے صورت جاناں ہو جلوہ گر
دل صاف ہو ترا تو ہے آئینہ خانہ کیا

صیاد اسیر دام رگ گل ہے عندلیب
دکھلا رہا ہے چھپ کے اسے دام و دانہ کیا

طبل و علم ہی پاس ہے اپنے نہ ملک و مال
ہم سے خلاف ہو کے کرے گا زمانہ کیا

آتی ہے کس طرح سے مرے قبض روح کو
دیکھوں تو موت ڈھونڈ رہی ہے بہانہ کیا

ہوتا ہے زرد سن کے جو نامرد مدعی
رستم کی داستاں ہے ہمارا فسانہ کیا

ترچھی نگہ سے طائر دل ہو چکا شکار
جب تیر کج پڑے تو اڑے گا نشانہ کیا

صیاد گل عذار دکھاتا ہے سیر باغ
بلبل قفس میں یاد کرے آشیانہ کیا

بیتاب ہے کمال ہمارا دل حزیں
مہماں سرائے جسم کا ہوگا روانہ کیا

یوں مدعی حسد سے نہ دے داد تو نہ دے
آتشؔ غزل یہ تو نے کہی عاشقانہ کیا

Rate it:
Views: 2405
31 Dec, 2019
Related Tags on Khwaja Haider Ali Aatish Poetry
Load More Tags
More Khwaja Haider Ali Aatish Poetry
دہن پر ہیں ان کے گماں کیسے کیسے دہن پر ہیں ان کے گماں کیسے کیسے
کلام آتے ہیں درمیاں کیسے کیسے
زمین چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
تمہارے شہیدوں میں داخل ہوئے ہیں
گل و لالہ و ارغواں کیسے کیسے
بہار آئی ہے نشہ میں جھومتے ہیں
مریدان پیر مغاں کیسے کیسے
عجب کیا چھٹا روح سے جامۂ تن
لٹے راہ میں کارواں کیسے کیسے
تپ ہجر کی کاہشوں نے کئے ہیں
جدا پوست سے استخواں کیسے کیسے
نہ مڑ کر بھی بے درد قاتل نے دیکھا
تڑپتے رہے نیم جاں کیسے کیسے
نہ گور سکندر نہ ہے قبر دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
بہار گلستاں کی ہے آمد آمد
خوشی پھرتے ہیں باغباں کیسے کیسے
توجہ نے تیری ہمارے مسیحا
توانا کئے ناتواں کیسے کیسے
دل و دیدۂ اہل عالم میں گھر ہے
تمہارے لیے ہیں مکاں کیسے کیسے
غم و غصہ و رنج و اندوہ و حرماں
ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے
ترے کلک قدرت کے قربان آنکھیں
دکھائے ہیں خوش رو جواں کیسے کیسے
کرے جس قدر شکر نعمت وہ کم ہے
مزے لوٹتی ہے زباں کیسے کیسے
سہرش
دہن پر ہیں ان کے گماں کیسے کیسے دہن پر ہیں ان کے گماں کیسے کیسے
کلام آتے ہیں درمیاں کیسے کیسے
زمین چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
تمہارے شہیدوں میں داخل ہوئے ہیں
گل و لالہ و ارغواں کیسے کیسے
بہار آئی ہے نشہ میں جھومتے ہیں
مریدان پیر مغاں کیسے کیسے
عجب کیا چھٹا روح سے جامۂ تن
لٹے راہ میں کارواں کیسے کیسے
تپ ہجر کی کاہشوں نے کئے ہیں
جدا پوست سے استخواں کیسے کیسے
نہ مڑ کر بھی بے درد قاتل نے دیکھا
تڑپتے رہے نیم جاں کیسے کیسے
نہ گور سکندر نہ ہے قبر دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
بہار گلستاں کی ہے آمد آمد
خوشی پھرتے ہیں باغباں کیسے کیسے
توجہ نے تیری ہمارے مسیحا
توانا کئے ناتواں کیسے کیسے
دل و دیدۂ اہل عالم میں گھر ہے
تمہارے لیے ہیں مکاں کیسے کیسے
غم و غصہ و رنج و اندوہ و حرماں
ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے
ترے کلک قدرت کے قربان آنکھیں
دکھائے ہیں خوش رو جواں کیسے کیسے
کرے جس قدر شکر نعمت وہ کم ہے
مزے لوٹتی ہے زباں کیسے کیسے
diya
سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا
کیا کیا الجھتا ہے تری زلفوں کے تار سے
بخیہ طلب ہے سینۂ صد چاک شانہ کیا
زیر زمیں سے آتا ہے جو گل سو زر بکف
قاروں نے راستے میں لٹایا خزانہ کیا
اڑتا ہے شوق راحت منزل سے اسپ عمر
مہمیز کہتے ہیں گے کسے تازیانہ کیا
زینہ صبا کا ڈھونڈتی ہے اپنی مشت خاک
بام بلند یار کا ہے آستانہ کیا
چاروں طرف سے صورت جاناں ہو جلوہ گر
دل صاف ہو ترا تو ہے آئینہ خانہ کیا
صیاد اسیر دام رگ گل ہے عندلیب
دکھلا رہا ہے چھپ کے اسے دام و دانہ کیا
طبل و علم ہی پاس ہے اپنے نہ ملک و مال
ہم سے خلاف ہو کے کرے گا زمانہ کیا
آتی ہے کس طرح سے مرے قبض روح کو
دیکھوں تو موت ڈھونڈ رہی ہے بہانہ کیا
ہوتا ہے زرد سن کے جو نامرد مدعی
رستم کی داستاں ہے ہمارا فسانہ کیا
ترچھی نگہ سے طائر دل ہو چکا شکار
جب تیر کج پڑے تو اڑے گا نشانہ کیا
صیاد گل عذار دکھاتا ہے سیر باغ
بلبل قفس میں یاد کرے آشیانہ کیا
بیتاب ہے کمال ہمارا دل حزیں
مہماں سرائے جسم کا ہوگا روانہ کیا
یوں مدعی حسد سے نہ دے داد تو نہ دے
آتشؔ غزل یہ تو نے کہی عاشقانہ کیا
qasim
آئنہ سینۂ صاحب نظراں ہے کہ جو تھا آئنہ سینۂ صاحب نظراں ہے کہ جو تھا
چہرۂ شاہد مقصود عیاں ہے کہ جو تھا
عشق گل میں وہی بلبل کا فغاں ہے کہ جو تھا
پرتو مہ سے وہی حال کتاں ہے کہ جو تھا
عالم حسن خدا داد بتاں ہے کہ جو تھا
ناز و انداز بلائے دل و جاں ہے کہ جو تھا
راہ میں تیری شب و روز بسر کرتا ہوں
وہی میل اور وہی سنگ نشاں ہے کہ جو تھا
روز کرتے ہیں شب ہجر کو بیداری میں
اپنی آنکھوں میں سبک خواب گراں ہے کہ جو تھا
ایک عالم میں ہو ہر چند مسیحا مشہور
نام بیمار سے تم کو خفقاں ہے کہ جو تھا
دولت عشق کا گنجینہ وہی سینہ ہے
داغ دل زخم جگر مہر و نشاں ہے کہ جو تھا
ناز و انداز و ادا سے تمہیں شرم آنے لگی
عارضی حسن کا عالم وہ کہاں ہے کہ جو تھا
جاں کی تسکیں کے لئے حالت دل کہتے ہیں
بے یقینی کا تری ہم کو گماں ہے کہ جو تھا
اثر منزل مقصود نہیں دنیا میں
راہ میں قافلۂ ریگ رواں ہے کہ جو تھا
دہن اس روئے کتابی میں ہے پر نا پیدا
اسم اعظم وہی قرآں میں نہاں ہے کہ جو تھا
کعبۂ مد نظر قبلہ نما ہے تا حال
کوئے جاناں کی طرف دل نگراں ہے کہ جو تھا
کوہ و صحرا و گلستاں میں پھرا کرتا ہے
متلاشی وہ ترا آب رواں ہے کہ جو تھا
سوزش دل سے تسلسل ہے وہی آہوں کا
عود کے جلنے سے مجمر میں دھواں ہے کہ جو تھا
رات کٹ جاتی ہے باتیں وہی سنتے سنتے
شمع محفل صنم چرب زباں ہے کہ جو تھا
پائے خم مستوں کے ہو حق کا جو عالم ہے سو ہے
سر منبر وہی واعظ کا بیاں ہے کہ جو تھا
کون سے دن نئی قبریں نہیں اس میں بنتیں
یہ خرابہ وہی عبرت کا مکاں ہے کہ جو تھا
بے خبر شوق سے میرے نہیں وہ نور نگاہ
قاصد اشک شب و روز وہاں ہے کہ جو تھا
لیلۃ القدر کنایہ نہ شب وصل سے ہو
اس کا افسانہ میان رمضاں ہے کہ جو تھا
دین و دنیا کا طلب گار ہنوز آتشؔ ہے
یہ گدا سائل نقد دو جہاں ہے کہ جو تھا
misbah
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets