Poetries by umar draaz
عِید پِھر سے آئی ہے۔۔۔ تیری دِید کی ہے مجھ کو طلب دِل پیاسا ہے تیری دِید کا
چاند تو ہو تُم میرے دوست مگر چاند ہو تُم عِید کا
عِید پِھر سے آئی ہے
آؤ گلے سے لگا لو یار کہ عِید پِھر سے آئی ہے
پِچھلے گِلے شِکوے مِٹا دو یار کہ عِید پِھر سے آئی ہے
ناجانے پِھر کب نصیب ہوں گے کِسے پتہ ہے
مِلتے ہیں دِن یہ کبھی کبھار کہ عِید پِھر سے آئی ہے
پہن کے نئے کپڑے بدن پہ آنکھوں میں لگا کہ کاجل
خُوشبُو لگا کے سب ہُوئے تیار کہ عِید پِھر سے آئی ہے
میٹھے کی بھر مار بہت ہے سَویَّاں بھی ہم پکا لیں گے
بُلائیں گے تُم کو دعوت پہ یار کہ عِید پِھر سے آئی ہے
دیکھتا ہوں میں جِس طرف تحفے تحائف بھی چل رہے ہیں
دِلا دیں گے تُم کو جو کہو گے یار کہ عِید پِھر سے آئی ہے
تیرے ساتھ عِید مناؤں میں ارمان ہے یہ میرے دِل کا
قسم ہے تُم کو تمہاری نہ کرنا تُم انکار کہ عِید پِھر سے آئی ہے
عِید ہے یہ خوشیوں بھری عِیدی بھی ہمیں خوب مِلے گی
گھومیں پِھریں گے شہر بازار کہ عِید پِھر سے آئی ہے
ایسا نہ ہو کہ تُم نہ مِلو اور ٹوٹ جائیں سب دِل کے سپنے
برسوں کیا ہے دِل نے تیرا انتظار کہ عِید پِھر سے آئی ہے
میرے آنگن میں اگر تُم آؤ کروں گا پُھولوں کی برسات
سجا دوں گا سب گلیاں بازار کہ عِید پِھر سے آئی ہے
تیری دِید کی طلب ہے درؔاز کی پُر نَم آنکھوں کو
تجھے دیکھنے کو ہیں بے قرار کہ عِید پِھر سے آئی ہے
کہ عِید پِھر سے آئی ہے کہ عِید پِھر سے آئی ہے
umar draaz
چاند تو ہو تُم میرے دوست مگر چاند ہو تُم عِید کا
عِید پِھر سے آئی ہے
آؤ گلے سے لگا لو یار کہ عِید پِھر سے آئی ہے
پِچھلے گِلے شِکوے مِٹا دو یار کہ عِید پِھر سے آئی ہے
ناجانے پِھر کب نصیب ہوں گے کِسے پتہ ہے
مِلتے ہیں دِن یہ کبھی کبھار کہ عِید پِھر سے آئی ہے
پہن کے نئے کپڑے بدن پہ آنکھوں میں لگا کہ کاجل
خُوشبُو لگا کے سب ہُوئے تیار کہ عِید پِھر سے آئی ہے
میٹھے کی بھر مار بہت ہے سَویَّاں بھی ہم پکا لیں گے
بُلائیں گے تُم کو دعوت پہ یار کہ عِید پِھر سے آئی ہے
دیکھتا ہوں میں جِس طرف تحفے تحائف بھی چل رہے ہیں
دِلا دیں گے تُم کو جو کہو گے یار کہ عِید پِھر سے آئی ہے
تیرے ساتھ عِید مناؤں میں ارمان ہے یہ میرے دِل کا
قسم ہے تُم کو تمہاری نہ کرنا تُم انکار کہ عِید پِھر سے آئی ہے
عِید ہے یہ خوشیوں بھری عِیدی بھی ہمیں خوب مِلے گی
گھومیں پِھریں گے شہر بازار کہ عِید پِھر سے آئی ہے
ایسا نہ ہو کہ تُم نہ مِلو اور ٹوٹ جائیں سب دِل کے سپنے
برسوں کیا ہے دِل نے تیرا انتظار کہ عِید پِھر سے آئی ہے
میرے آنگن میں اگر تُم آؤ کروں گا پُھولوں کی برسات
سجا دوں گا سب گلیاں بازار کہ عِید پِھر سے آئی ہے
تیری دِید کی طلب ہے درؔاز کی پُر نَم آنکھوں کو
تجھے دیکھنے کو ہیں بے قرار کہ عِید پِھر سے آئی ہے
کہ عِید پِھر سے آئی ہے کہ عِید پِھر سے آئی ہے
umar draaz
آمد ہے ۔ آمد ہے ۔۔۔۔ رمضان آ گیا آمد ہے ۔ آمد ہے ۔۔۔۔رمضان آ گیا
سارے مہینوں سے افضل مہمان اگیا
آمد ہے۔آمد ہے۔۔۔۔ رمضان آ گیا
اِس ماہ کی اُونچی شان ہے اِس پے دِل جان قُربان ہے
بارہ مہینوں کا دیکھو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سُلطان آگیا
آمد ہے۔آمد ہے ۔۔۔۔۔۔رمضان آ گیا
چھوڑ دو سب گُناہوں کو کر لو پاک نِگاہوں کو
بابرکت تحفہ لے کے خُود ۔۔۔ذِیشانؐ آگیا
آمد ہے ۔آمدہے۔۔۔۔ رمضان آ گیا
ایک فرض تُم کرو اَدا میں سَتّر لِکھوا دوں گا
رَبّ نے خُود فرمایا ۔۔۔ بِیچ قُرآن آ گیا
آمد ہے۔ آمد ہے۔۔۔۔ رمضان آگیا
ہر مَاہ کے عَشرے تین ہیں لیکن اِس کا ہر عَشرہ افضل ہے
ہر عَشرہ لے کے نیکیوں کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سامان آ گیا
آمد ہے ۔ آمد ہے ۔۔۔۔ رمضان آ گیا
مَولا تو رحیمُ و کریم ہے تیری ذات پاک و عظیم ہے
کر بخشش مَولا درؔاز کی حسرتّ لئیے ۔۔۔ پشیمان آ گیا
آمد ہے ۔ آمد ہے ۔۔۔۔ رمضان آ گیا
آمد ہے ۔ آمد ہے ۔۔۔۔ رمضان آگیا umar draaz
سارے مہینوں سے افضل مہمان اگیا
آمد ہے۔آمد ہے۔۔۔۔ رمضان آ گیا
اِس ماہ کی اُونچی شان ہے اِس پے دِل جان قُربان ہے
بارہ مہینوں کا دیکھو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سُلطان آگیا
آمد ہے۔آمد ہے ۔۔۔۔۔۔رمضان آ گیا
چھوڑ دو سب گُناہوں کو کر لو پاک نِگاہوں کو
بابرکت تحفہ لے کے خُود ۔۔۔ذِیشانؐ آگیا
آمد ہے ۔آمدہے۔۔۔۔ رمضان آ گیا
ایک فرض تُم کرو اَدا میں سَتّر لِکھوا دوں گا
رَبّ نے خُود فرمایا ۔۔۔ بِیچ قُرآن آ گیا
آمد ہے۔ آمد ہے۔۔۔۔ رمضان آگیا
ہر مَاہ کے عَشرے تین ہیں لیکن اِس کا ہر عَشرہ افضل ہے
ہر عَشرہ لے کے نیکیوں کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سامان آ گیا
آمد ہے ۔ آمد ہے ۔۔۔۔ رمضان آ گیا
مَولا تو رحیمُ و کریم ہے تیری ذات پاک و عظیم ہے
کر بخشش مَولا درؔاز کی حسرتّ لئیے ۔۔۔ پشیمان آ گیا
آمد ہے ۔ آمد ہے ۔۔۔۔ رمضان آ گیا
آمد ہے ۔ آمد ہے ۔۔۔۔ رمضان آگیا umar draaz
ادھورا خواب میرے دِل نے دیکھا سپنا
سپنے میں دیکھا تُم کو اپنا
اپنا سمجھ اِک بات کہی
رگ رگ میں سمائی تیری ذات کہی
اپنا سب کُچھ تُم کو مانا
دِل و دِماغ پہ قابض جانا
دیکھ کے تیرا پھول سا چہرہ
نِکل گیا دِل ہاتھ سے میرا
تیری آنکھوں کا تیر چلا
جو میرے دِل کے پار نِکلا
چہرہ تیرا لگا شناسا
جیسے بچپن کا یار نِکلا
آدھی رات کے پار جا کے
آنکھ کھلی میری گھبرا کے
تیری یاد نے لِی پِھر ایسی جمائی
باقی کی رات پھر نیند نہ آئی
یاد تیری میں ہوا نِڈھال
جیسے کھو گیا ہو کوئی قیمتی لعل
تیری تصویر دِماغ پے چھَا گئی
تقدیر زہرِ جُدائی پِلا گئی
بڑے ہی دانا حکیموں سے پوچھا
جنگل کے اکیلے مکینوں سے پوچھا
تعبیرِ خواب کوئی بتا نہ سکا
میرے دِل کا غم کوئی مِٹا نہ سکا
اے کاش۔۔۔
اے کاش۔۔۔
اے کاش۔۔۔
اے کاش کوئی بتا دے اِس بُھولے بَھٹکے درؔاز کو
ایسے ادھورے خوابوں کی تعبیر مِلا نہیں کرتی۔ umar draaz
سپنے میں دیکھا تُم کو اپنا
اپنا سمجھ اِک بات کہی
رگ رگ میں سمائی تیری ذات کہی
اپنا سب کُچھ تُم کو مانا
دِل و دِماغ پہ قابض جانا
دیکھ کے تیرا پھول سا چہرہ
نِکل گیا دِل ہاتھ سے میرا
تیری آنکھوں کا تیر چلا
جو میرے دِل کے پار نِکلا
چہرہ تیرا لگا شناسا
جیسے بچپن کا یار نِکلا
آدھی رات کے پار جا کے
آنکھ کھلی میری گھبرا کے
تیری یاد نے لِی پِھر ایسی جمائی
باقی کی رات پھر نیند نہ آئی
یاد تیری میں ہوا نِڈھال
جیسے کھو گیا ہو کوئی قیمتی لعل
تیری تصویر دِماغ پے چھَا گئی
تقدیر زہرِ جُدائی پِلا گئی
بڑے ہی دانا حکیموں سے پوچھا
جنگل کے اکیلے مکینوں سے پوچھا
تعبیرِ خواب کوئی بتا نہ سکا
میرے دِل کا غم کوئی مِٹا نہ سکا
اے کاش۔۔۔
اے کاش۔۔۔
اے کاش۔۔۔
اے کاش کوئی بتا دے اِس بُھولے بَھٹکے درؔاز کو
ایسے ادھورے خوابوں کی تعبیر مِلا نہیں کرتی۔ umar draaz
مجھے اُس کی فِکر کیوں ہے ؟ میں نے تو اُس سے ادھورا پیار کیا نہ تھا
اِک وہ ہی تھا کم عقل جو میرے پیار کو سمجھا نہ تھا
میں نے تو بہت کوشش کی اُسے سمجھانے کی
مگر اُس کی ایک ہی ضِدّ تھی مجھے اپنا نہ بنانےکی
بہت سوچا بہت سمجھا تو یہ جانا درؔاز
وہ میرا ہو نہیں سکتا مجھے اُس کی فِکر کیوں ہے ؟
مجھے اُس کی فِکر کیوں ہے ؟ umar draaz
اِک وہ ہی تھا کم عقل جو میرے پیار کو سمجھا نہ تھا
میں نے تو بہت کوشش کی اُسے سمجھانے کی
مگر اُس کی ایک ہی ضِدّ تھی مجھے اپنا نہ بنانےکی
بہت سوچا بہت سمجھا تو یہ جانا درؔاز
وہ میرا ہو نہیں سکتا مجھے اُس کی فِکر کیوں ہے ؟
مجھے اُس کی فِکر کیوں ہے ؟ umar draaz
دِل کدی نہ لاویں سجنا زندگی کھیڈ اے چار دِناں دی
ہَس کے کھیڈیں ایس نوں سجنا
کَدی کِسےنوں کوئی دَاۓ" نہ لاویں
تینوں آکھے نہ کوئی فریبی سجنا
دُکھ وِی لَبّھے تے ہَس کے جَھلّیں
کِسے تے بَھار نہ پاویں سجنا
اِکّو گَل پلّے بَنّ '' درؔازا''
لبَّھا بھاویں کوئی کیڈا سوہنا
دِل کدی نہ لاویں سجنا
دَل کدی نہ لاویں سجنا umar draaz
ہَس کے کھیڈیں ایس نوں سجنا
کَدی کِسےنوں کوئی دَاۓ" نہ لاویں
تینوں آکھے نہ کوئی فریبی سجنا
دُکھ وِی لَبّھے تے ہَس کے جَھلّیں
کِسے تے بَھار نہ پاویں سجنا
اِکّو گَل پلّے بَنّ '' درؔازا''
لبَّھا بھاویں کوئی کیڈا سوہنا
دِل کدی نہ لاویں سجنا
دَل کدی نہ لاویں سجنا umar draaz
تیرے محبوب کا دیوانہ ہوں مجھے دین کی کچھ خبر نہیں بس دنیا کا میں دیوانہ ہوں
ہر گناہ کرتا ہوں شوق سے اور انجام سے بیگانہ ہوں
بھول بیٹھا ہوں اپنی اوقات میں بنا ہوں کس ناپاک سے
بخشش کی ہے امید تْم سے تیرے بعد بے ٹھکانا ہوں
مجھے جْرات عطا کر حیدرؓ کے جیسی شیطان کو میں مِسمار کروں
میں جل بھی جاؤں تو پرواہ نہیں شمعِ محمّدیؐ کا پروانہ ہوں
بس اِک ہی عرض ہے مولا بخش دینا روزِمحشر مجھ کو
لاج رکھنا مجھ درؔاز کی کہ تیرے محبوبؐ کا دیوانہ ہوں umar draaz
ہر گناہ کرتا ہوں شوق سے اور انجام سے بیگانہ ہوں
بھول بیٹھا ہوں اپنی اوقات میں بنا ہوں کس ناپاک سے
بخشش کی ہے امید تْم سے تیرے بعد بے ٹھکانا ہوں
مجھے جْرات عطا کر حیدرؓ کے جیسی شیطان کو میں مِسمار کروں
میں جل بھی جاؤں تو پرواہ نہیں شمعِ محمّدیؐ کا پروانہ ہوں
بس اِک ہی عرض ہے مولا بخش دینا روزِمحشر مجھ کو
لاج رکھنا مجھ درؔاز کی کہ تیرے محبوبؐ کا دیوانہ ہوں umar draaz
یہاں کون کِسی کا ہوتا ہے یہ بارِ ش کا موسم بھی بہت ہی عجیب ہوتا ہے
اکثر کوئی یاد آتا ہے جو دِل کے قریب ہوتا ہے
ٹھنڈی ہوا جب چلتی ہے یاد اُس کی ہی آتی ہے
پانی کی برستی بوندوں میں بَس اِک ہی چہرہ ہوتا ہے
بارش کی نمی ہو فِضا میں جب تک اُسی کی خُوشبو آتی ہے
نہ دن میں سکون ملتا ہے نہ رات کو پَگلا دِل سوتا ہے
کسی کو چاہے جو بھی لگے یہ بات اِک اَٹل حقیقت ہے
جِس نے پیار کیا کسی سے اَکثر وہی دِل روتا ہے
یہ دُنیا مسافر خانہ ہے کوئی آتا ہے کوئی جاتا ہے
کِسی کو بھی سکون ملتا نہیں نہ نیند کوئی چین کی سوتا ہے
یہاں ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جو مَست ہیں اپنی دُھن میں سارے
اور وہ بھی تو انسان ہے آخر ۔۔۔جو اپنا سب کچھ کھوتا ہے
ہزار نصیحت کی تھی میں نے مَت کر غَموں کی کاشتکاری
کاٹنا بھی اُسی کو پڑتا ہے جو بیج ہاتھوں سے بوتا ہے
کِسی کے عِشق میں خود کو فنا مَت کرنا درؔاز
یہ دنیا ہے مطلب کی ساری ''یہاں کون کِسی کا ہوتا ہے '' umar draaz
اکثر کوئی یاد آتا ہے جو دِل کے قریب ہوتا ہے
ٹھنڈی ہوا جب چلتی ہے یاد اُس کی ہی آتی ہے
پانی کی برستی بوندوں میں بَس اِک ہی چہرہ ہوتا ہے
بارش کی نمی ہو فِضا میں جب تک اُسی کی خُوشبو آتی ہے
نہ دن میں سکون ملتا ہے نہ رات کو پَگلا دِل سوتا ہے
کسی کو چاہے جو بھی لگے یہ بات اِک اَٹل حقیقت ہے
جِس نے پیار کیا کسی سے اَکثر وہی دِل روتا ہے
یہ دُنیا مسافر خانہ ہے کوئی آتا ہے کوئی جاتا ہے
کِسی کو بھی سکون ملتا نہیں نہ نیند کوئی چین کی سوتا ہے
یہاں ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جو مَست ہیں اپنی دُھن میں سارے
اور وہ بھی تو انسان ہے آخر ۔۔۔جو اپنا سب کچھ کھوتا ہے
ہزار نصیحت کی تھی میں نے مَت کر غَموں کی کاشتکاری
کاٹنا بھی اُسی کو پڑتا ہے جو بیج ہاتھوں سے بوتا ہے
کِسی کے عِشق میں خود کو فنا مَت کرنا درؔاز
یہ دنیا ہے مطلب کی ساری ''یہاں کون کِسی کا ہوتا ہے '' umar draaz