Poetries by Usman Ali Aafi
ہجر دو دن دور دنیا سے ، ایک ویران کمرے میں بند پڑا ہوں
کہ جس کی دیواریں میرے زخموں سے بین کر رہی ہیں
گھڑی کی ٹک ٹک، ٹک ٹک، تیرا نام پکار رہی ہیں
وینز خون کی بجائے تیری یادیں دل تک پہنچا رہی ہیں
کہ ہوا سے لہرتے پتوں کی کریچ، ہجر کے غم کو تازہ کر رہی ہے
بادل، اور آنسو کی سپیڈ کا اندازہ نیوٹن باخوبی لگا سکتا ہے
موبائل بھی افسردہ کونے میں پڑا تیرے میسج کا انتظار کر رہا ہے
کمرے کی دیورایں تیرے آنے کی طلب اور انتظارِ اجل سے افسردہ ہیں
ماں بند کمرے کی دیواروں سے آتی زخموں کی بین سن رہی ہیں
اچانک انتظارِ عزرائیل ختم، اور ایک بلند آواز گونجتی ہے انّ للہ و انا الیہ راجعون Usman Ali Aafi
کہ جس کی دیواریں میرے زخموں سے بین کر رہی ہیں
گھڑی کی ٹک ٹک، ٹک ٹک، تیرا نام پکار رہی ہیں
وینز خون کی بجائے تیری یادیں دل تک پہنچا رہی ہیں
کہ ہوا سے لہرتے پتوں کی کریچ، ہجر کے غم کو تازہ کر رہی ہے
بادل، اور آنسو کی سپیڈ کا اندازہ نیوٹن باخوبی لگا سکتا ہے
موبائل بھی افسردہ کونے میں پڑا تیرے میسج کا انتظار کر رہا ہے
کمرے کی دیورایں تیرے آنے کی طلب اور انتظارِ اجل سے افسردہ ہیں
ماں بند کمرے کی دیواروں سے آتی زخموں کی بین سن رہی ہیں
اچانک انتظارِ عزرائیل ختم، اور ایک بلند آواز گونجتی ہے انّ للہ و انا الیہ راجعون Usman Ali Aafi
جسم کے دام کفن کو خرید کہ جس نے جسم کے دام کفن کو خرید کہ جس نے یہ زانی کا داغ رکھا ہے
اس نے پتا نہیں کتنے ہی لوگوں کی آبرو کا یہ سراغ رکھا ہے
ایک لقب ملا ہے یہ یتیم ہونے پہ اور ایسا لقب ملا مجھ کو
ہاں مرے پاس یہ آبرو ہے جسے میں نے بنا کے چراغ رکھا ہے
ایسے ڈرے ہیں ہم اور ہمارے رقیب زمانےکی چال سے کہ
بازوں میں قوتِ دم ہے مگر ہم نے ساتھ میں یہ چماغ رکھا ہے
یہ مجھے ورثے میں ایسی زمینیں مل رہی ہیں کہ کیا کہوں اب میں
اشک ہیں پلکوں پہ یوں اور ان میں بھی زہر کا خاص سراغ رکھا ہے
اتنی ہے آرزو جینے کی , روز غموں کا پیالہ لے کر بھی میں عافی
یہ مرے جسم کی ان رگوں نے جینےکا بڑا اچھا دماغ رکھا ہے Usman Ali Aafi
اس نے پتا نہیں کتنے ہی لوگوں کی آبرو کا یہ سراغ رکھا ہے
ایک لقب ملا ہے یہ یتیم ہونے پہ اور ایسا لقب ملا مجھ کو
ہاں مرے پاس یہ آبرو ہے جسے میں نے بنا کے چراغ رکھا ہے
ایسے ڈرے ہیں ہم اور ہمارے رقیب زمانےکی چال سے کہ
بازوں میں قوتِ دم ہے مگر ہم نے ساتھ میں یہ چماغ رکھا ہے
یہ مجھے ورثے میں ایسی زمینیں مل رہی ہیں کہ کیا کہوں اب میں
اشک ہیں پلکوں پہ یوں اور ان میں بھی زہر کا خاص سراغ رکھا ہے
اتنی ہے آرزو جینے کی , روز غموں کا پیالہ لے کر بھی میں عافی
یہ مرے جسم کی ان رگوں نے جینےکا بڑا اچھا دماغ رکھا ہے Usman Ali Aafi
جسم کے دام کفن کو خرید کہ جس نے
جسم کے دام کفن کو خرید کہ جس نے یہ زانی کا داغ رکھا ہے
اس نے پتا نہیں کتنے ہی لوگوں کی آبرو کا یہ سراغ رکھا ہے
ایک لقب ملا ہے یہ یتیم ہونے پہ اور ایسا لقب ملا مجھ کو
ہاں مرے پاس یہ آبرو ہے جسے میں نے بنا کے چراغ رکھا ہے
ایسے ڈرے ہیں ہم اور ہمارے رقیب زمانےکی چال سے کہ
بازوں میں قوتِ دم ہے مگر ہم نے ساتھ میں یہ چماغ رکھا ہے
یہ مجھے ورثے میں ایسی زمینیں مل رہی ہیں کہ کیا کہوں اب میں
اشک ہیں پلکوں پہ یوں اور ان میں بھی زہر کا خاص سراغ رکھا ہے
اتنی ہے آرزو جینے کی , روز غموں کا پیالہ لے کر بھی میں عافی
یہ مرے جسم کی ان رگوں نے جینےکا بڑا اچھا دماع رکھا ہے
Usman Ali Aafi
جسم کے دام کفن کو خرید کہ جس نے یہ زانی کا داغ رکھا ہے
اس نے پتا نہیں کتنے ہی لوگوں کی آبرو کا یہ سراغ رکھا ہے
ایک لقب ملا ہے یہ یتیم ہونے پہ اور ایسا لقب ملا مجھ کو
ہاں مرے پاس یہ آبرو ہے جسے میں نے بنا کے چراغ رکھا ہے
ایسے ڈرے ہیں ہم اور ہمارے رقیب زمانےکی چال سے کہ
بازوں میں قوتِ دم ہے مگر ہم نے ساتھ میں یہ چماغ رکھا ہے
یہ مجھے ورثے میں ایسی زمینیں مل رہی ہیں کہ کیا کہوں اب میں
اشک ہیں پلکوں پہ یوں اور ان میں بھی زہر کا خاص سراغ رکھا ہے
اتنی ہے آرزو جینے کی , روز غموں کا پیالہ لے کر بھی میں عافی
یہ مرے جسم کی ان رگوں نے جینےکا بڑا اچھا دماع رکھا ہے
Usman Ali Aafi