Add Poetry

Poetries by Muhamad Nawaz

محبت آخری حل ہے حجابوں کے پھیلاؤ کا
سرابوں کے بہاؤ کا
محبت آخری حل ہے
امنگیں ٹوٹ جاتی ہیں
ترنگیں روٹھ جاتی ہیں
ارادوں کی امیدوں کی
پتنگیں چھوٹ جاتی ہیں
ڈرے جذبوں کے موسم میں
فریب جستجو لے کر
کسی کی آرزو لے کر
نگاہیں پھرتی رہتی ہیں
کہیں رستہ نہیں ملتا
بھری محفل کے جلووں میں
کوئی اپنا نہیں ملتا
تو ایسی اندھی راہوں کا
گماں جیسی پناہوں کا
گلہ کرتی نگاہوں کا
محبت آخری حل ہے
کسی کی یادمیں رونا
کسی کی آس میں سونا
کبھی چلنا ستاروں میں
کبھی جلنا شراروں میں
کبھی تنہائی میں محفل
کبھی تنہا ہزاروں میں
کئی رنگوں کے محشر ہیں
کئی بے انت ساگر ہیں
انہی ساگر کی لہروں میں
جو ڈولے خواب کی ناؤ
تو اس بل کھاتی ناؤ کا
گئے وقتوں کے گھاؤ کا
نہاں جلتے الاؤ کا
محبت آخری حل ہے
کسی جنت کی خواہش میں
بنا بادل کی بارش میں
جو لمحے جھلملاتے ہیں
نئے سپنے سجاتے ہیں
نہیں کچھ سمجھ میں آتا
نہیں دل کو کوئی بھاتا
جہاں ویران لگتا ہے
سماں بے جان لگتا ہے
تواس الجھی کیفیت کا
دبی بے نام وحشت کا
دروں پیدا بغاوت کا
محبت آخری حل ہے
یہی اک حرف کامل ہے
یہی رگ رگ میں شامل ہے
یہی ماتھے کا جھومر ہے
یہی آنکھوں کا کاجل ہے
یہ ہر جذبے کا حاصل ہے
محبت آخری حل ہے
 
muhammad nawaz
میری جاں اچھی لگتی ہو گلوں سا مسکراتی ہو ۔ میری جاں اچھی لگتی ہو
مجھے مجھ سے چراتی ہو ۔ میری جاں اچھی لگتی ہو
کبھی بے ساختہ پن میں
حصار صحن گلشن میں
نگاہوں سے نگاہوں تک
محبت کی پناہوں تک
سفر کرنا امنگوں کا
حیا کے سارے رنگوں کا
سفر کرتے ہوئے اک دم
بصورت دلنشیں موسم
ذرا پلکیں جھکاتی ہو ۔ میری جاں اچھی لگتی ہو
مقدر کے ستاروں پر
ہتھیلی سامنے رکھ کر
کبھی خفگی دکھا لینا
کبھی انکو منا لینا
منا کر روٹھے تاروں کو
فلک کے لالہ زاروں کو
محبت ہی محبت میں
شرارت ہی شرارت میں
کوئی نغمہ سناتی ہو ۔ میری جاں اچھی لگتی ہو
جب آئے جھومتا ساون
فضا کو گدگدائیں دن
نشیلی بدلیاں آئیں
چمن پہ مینہ برسائیں
وہ آنگن میں نکل آنا
حسیں چہرے کا کھل جانا
پھر اک دم ناگہانی میں
ابر سے بہتے پانی میں
ذرا سا بھیگ جاتی ہو ۔ میری جاں اچھی لگتی ہو
کبھی کاغذ کی پرتوں پر
کبھی رنگیں درختوں پر
وہ میرا نام لکھ لکھ کر
صبح سے شام لکھ لکھ کر
برابر دیکھتے جانا
کبھی سرگوشیاں کرنا
پھر ان باتوں ہی باتوں میں
حسیں مر مر سے ہاتھوں میں
رخ روشن چھپاتی ہو ۔ میری جاں اچھی لگتی ہو
 
muhammad nawaz
حسن کیا ہے ؟؟ حسن امکان کے جلووں کا لا مکان چمن
حسن تخلیق کائنات کی سربستہ کرن
حسن فطرت کے ہر اک راز کی روشن دلیل
حسن تعبیر کن فکاں ۔ فروغ جبرائیل
حسن کے آگے ملائک تمام سجدہ کناں
حسن کے پیچھے چلا کاروان کار جہاں
حسن ذوق کلیم حسن راہ آب نیل
حسن صدق خلیل حسن دم اسمعیل
حسن یوسف میں نہاں خوشنمائی پارسائی
حسن یعقوب کی لوٹائی گئی بینائی
حسن عیسی کا زہد ۔ نوح کا عرشوں پہ مقام
حسن وہ ذات کہ جس پر سبھی درود و سلام
حسن کعبے سے پھوٹتی ہوئی اذان بلال
حسن عثمان کی حیا حسن عمر کا جلال
حسن صدیق کی عظمت حسن پیغام علی
حسن شبیر کے لہو سے لکھا حرف جلی

حسن پھولوں کی مہکتی ہوئی مدھر خوشبو
حسن قوس قزح کا رنگ سجاتا جادو
حسن بچے کو تکتی ماں کی مقدس نظریں
حسن بچے کی توتلی زبان میں باتیں
حسن جھرنوں کا مچلتا ہوا تازہ پانی
حسن مہکی ہوئی شاموں میں رات کی رانی
حسن دریا میں تیرتی ہوئی ننھی مچھلی
حسن پھولوں کو چوم چوم کے گاتی تتلی
حسن مشرق سے نکلتی ہوئی پر دم کرنیں
حسن مغرب میں مہکتی ہوئی دلکش شامیں
حسن بارش میں نہاتی ہوئی شاخوں کا شور
حسن جنگل میں ناچتا ہوا مخمور مور
حسن نگاہ کی پاکیزگی زم زم کا جام
حسن تقدیس کے اعلٰی ترین مقام کا نام
حسن فطرت کی اک بے ساختہ و شوخ ادا
حسن معصومیت کا درس حسن نام حیا
حسن بے نام و نشاں ہو اگر وفا نہ رہے
حسن ہے حسن کی تذلیل گر حیا نہ رہے
حسن خیال کی ہر تازگی کو کہتے ہیں
حسن انداز کی بے ساختگی کو کہتے ہیں
حسن چہرے کی نمائش کو تو نہیں کہتے
حسن کردار کی پاکیزگی کو کہتے ہیں
عارضی روپ اک زیاں کے سوا کچھ بھی نہیں
حسن ابدان اگ گماں کے سوا کچھ بھی نہیں
حسن نے توڑا دم ہست کا بے رنگ جمود
حسن مخلوق کی عظمت حسن دامان معبود
حسن کی بارگاہ میں کائنات سر بسجود
اور ہم ڈھونڈتے ہیں حسن کی جسموں میں نمود

 
muhammad nawaz
کچھ روز سے لفظوں کا بدن ٹوٹ رہا ہے بے تاب موسموں کا بدن ٹوٹ رہا ہے
آ جاؤ آئینوں کا بدن ٹوٹ رہا ہے
اے رشک بہاراں ذرا قدموں کی چاپ دو
مہتاب کی کرنوں کا بدن ٹوٹ رہا ہے
آیا ہے ترا ذکر ہی شاید بہار میں
وحشت سے کونپلوں کا بدن ٹوٹ رہا ہے
اے ندرت خیال ! ذرا بزم آرائی
کچھ روز سے لفظوں کا بدن ٹوٹ رہا ہے
اٹھتی سحر کے حسن پہ دل جھوم کے بولا
آفاق پہ لمحوں کا بدن ٹوٹ رہا ہے
دیکھو گے اپنا عکس تو کھل جائے گی گتھی
کیوں چاند ستاروں کا بدن ٹوٹ رہا ہے
بھولے سے اب انہیں بھی ذرا چھو ہی لیجئے
شبنم اٹے گلوں کا بدن ٹوٹ رہا ہے
کچھ دید عطا کیجئے انکو بھی ذرا سی
کچھ کیجئے پلکوں کا بدن ٹوٹ رہا ہے
لکھئے نہ میرا نام درختوں کی چھال پر
مانوس درختوں کا بدن ٹوٹ رہا ہے
لگتا ہے تیرے ہاتھ کی مہندی میں ڈوب کر
قسمت کی لکیروں کا بدن ٹوٹ رہا ہے
میں جا رہا ہوں انکی ذرا پیاس بجھانے
تقدیر کے شعلوں کا بدن ٹوٹ رہا ہے
بادل کو برسنا ہے اسے اسکی خبر کیا
پھولوں کا یا کانٹوں کا بدن ٹوٹ رہا ہے
اک لمحہ وصال کی وسعت کو سوچ کر
آتی ہوئی صدیوں کا بدن ٹوٹ رہا ہے
muhammad nawaz
Famous Poets
View More Poets