جانے والے سے رابطہ رہ جائے
Poet: تہذیب حافی By: ساجد ہمید, Quettaجانے والے سے رابطہ رہ جائے
گھر کی دیوار پر دیا رہ جائے
اک نظر جو بھی دیکھ لے تجھ کو
وہ ترے خواب دیکھتا رہ جائے
اتنی گرہیں لگی ہیں اس دل پر
کوئی کھولے تو کھولتا رہ جائے
کوئی کمرے میں آگ تاپتا ہو
کوئی بارش میں بھیگتا رہ جائے
نیند ایسی کہ رات کم پڑ جائے
خواب ایسا کہ منہ کھلا رہ جائے
جھیل سیف الملوک پر جاؤں
اور کمرے میں کیمرہ رہ جائے
More Tahzeeb Hafi Poetry
موسموں کے تغیر کو بھانپا نہیں چھتریاں کھول دیں موسموں کے تغیر کو بھانپا نہیں چھتریاں کھول دیں
زخم بھرنے سے پہلے کسی نے مری پٹیاں کھول دیں
ہم مچھیروں سے پوچھو سمندر نہیں ہے یہ عفریت ہے
تم نے کیا سوچ کر ساحلوں سے بندھی کشتیاں کھول دیں
اس نے وعدوں کے پربت سے لٹکے ہوؤں کو سہارا دیا
اس کی آواز پر کوہ پیماؤں نے رسیاں کھول دیں
دشت غربت میں میں اور مرا یار شب زاد باہم ملے
یار کے پاس جو کچھ بھی تھا یار نے گٹھڑیاں کھول دیں
کچھ برس تو تری یاد کی ریل دل سے گزرتی رہی
اور پھر میں نے تھک ہار کے ایک دن پٹریاں کھول دیں
اس نے صحراؤں کی سیر کرتے ہوئے اک شجر کے تلے
اپنی آنکھوں سے عینک اتاری کہ دو ہرنیاں کھول دیں
آج ہم کر چکے عہد ترک سخن پر رقم دستخط
آج ہم نے نئے شاعروں کے لیے بھرتیاں کھول دیں
زخم بھرنے سے پہلے کسی نے مری پٹیاں کھول دیں
ہم مچھیروں سے پوچھو سمندر نہیں ہے یہ عفریت ہے
تم نے کیا سوچ کر ساحلوں سے بندھی کشتیاں کھول دیں
اس نے وعدوں کے پربت سے لٹکے ہوؤں کو سہارا دیا
اس کی آواز پر کوہ پیماؤں نے رسیاں کھول دیں
دشت غربت میں میں اور مرا یار شب زاد باہم ملے
یار کے پاس جو کچھ بھی تھا یار نے گٹھڑیاں کھول دیں
کچھ برس تو تری یاد کی ریل دل سے گزرتی رہی
اور پھر میں نے تھک ہار کے ایک دن پٹریاں کھول دیں
اس نے صحراؤں کی سیر کرتے ہوئے اک شجر کے تلے
اپنی آنکھوں سے عینک اتاری کہ دو ہرنیاں کھول دیں
آج ہم کر چکے عہد ترک سخن پر رقم دستخط
آج ہم نے نئے شاعروں کے لیے بھرتیاں کھول دیں
زبیر






