دو دوست آپس میں باتیں کرتے کرتے زد بحث میں پڑ گئیے
دونوں میں سے ایک عیسائی مذہب کا پیروکار تھا اور دوسرا مسلمان عیسائی دوست
کا کہنا تھا کہ ہمارے نبی علیہ السلام اللہ تعالی کو سب سے زیادہ عزیز اور
محبوب تھے اسی وجہ سے اس باری تعالی نے انہیں اٹھایا نہیں بلکہ وہ ایک بار
پہر زمین پر اتارے جائیں گے اور ہمارے نبی علیہ السلام مردوں کو دوبارہ
زندہ کرنے کی طاقت بھی رکھتے تھے اور ہمارے نبی علیہ السلام کا ذکر قران
میں سب سے زیادہ آیا ہے ساری باتیں سننے کے بعد مسلمان دوست نے کہا کہ
ہمارے نبی تاجدار مدینہ معطر معطر پسینہ راحت قلب و سینہ حضرت مولانا محمد
مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تبارک وتعالی کے محبوب بھی تھے خالق
کائنات نے یہ دنیا اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وجہ سے تخلیق کی
اور یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارے نبی علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالی کو زیادہ عزیز
تھے
ابھی دونوں دوست بحث و مباحثے میں مصروف تھے کہ ایک بزرگ کا وہاں سے گزر
ہوا دونوں نوجوانوں کو اس طرح جھگڑتے دیکھ کر کہا کیا بات ہے مجھے بتاؤ میں
تم لوگوں کا مسئلہ حل کئیے دیتا ہوں جب ان نوجوانوں نے ساری بات ان بزرگ کو
بتائی تو ان بزرگ نے ان دونوں سے کہا کہ میرے ساتھ چلو اور وہ بزرگ ان
دونوں کو وہاں سے ایک انجان راستے کی طرف چلدئیے اور چلتے چلتے ایک قبرستان
میں پہنچ گئیے اور عیسائی نوجوان سے فرمایا بتاؤ اس قبرستان میں موجود کس
مردے کو دوبارہ اٹھا کر تمھارے سامنے کھڑا کردوں تو اس نوجوان نے ہنستے
ہوئے کہا ارے بابا یہ آپ کیا کہ رہے ہیں تو ان بزرگ نے فرمایا تم بتاؤ تو
سہی اس پر اس نوجوان نے ایک قبر پر اشارہ کرتے ہوئے کہا اچھا اس قبر میں
موجود مردے کو اٹھا کر دکھا ئیں ان بزرگ نے قبر کی طرف بغور دیکھتے ہوئے
فرمایا یہ دنیا میں گلوکار تھا کہو تو اسے گاتے ہوئے اٹھا دوں بس پہر کیا
تھا ان بزرگ نے جیسے ہی قبر کی طرف اشارہ کیا زمین پہٹی اور اس قبر سے مردہ
گاتے ہوئے اٹھکر بہر آگیا اور جب یہ منظر ان نوجوانوں نے دیکھا تو وہ بیہوش
ہوگئے .
جب ان نوجوانوں کو ہوش آیا تو وہ بزرگ وہاں سے جا چکے تھے وہ دونوں ان کی
تلاش میں نکل گئیے کافی دور نکل جانے کے بعد انہیں وہ بزرگ نظر آگئے تو ان
نوجوانوں میں سے اس عیسائی دوست نے عرض کیا آخر آپ کون ہیں اور وہ سب کچھ
کیا تھا تو آپ نے فرمایا کہ تمہارے مسلمان دوست نے اپنے جس نبی صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کیا میں بھی ان کا ایک ادنی سا غلام ہوں اور لوگ
مجھے غوث پاک رحمت اللہ تعالی علیہ کہتے ہیں جب میں ایک معمولی اس نبی صلی
اللہ علی وآلہ وسلم کا غلام ہوکر ایک مردے کو زندہ کرسکتا ہوں تو میرے آقا
ومولی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کیا شان ہوگی اور اللہ تبارک وتعالی نے
اپنے اس حبیب کو اور کیا کیا نہ معجزات سے نوازہ ہوگا وہ عیسائی نوجوان آپ
یعنی حضور غوث پاک رحمت اللہ تعالی علیہ کی باتیں سن کر اتنا متاثر ہوا کہ
اسی وقت آپ رحمت اللہ تعالی علیہ کے ہاتھ پر بیت کی اور مسلمان ہوکر دائرہ
اسلام میں داخل ہوگیا .
پیران پیر دستگیر الشیخ عبدالقادر جیلانی رحمت اللہ تعالی علیہ کی پیدائش
اول شب رمضان 470ھ بمطابق 17 مارچ 1078 عیسوی میں ایران کے صوبہ کرمانشہ کے
شہرمغربی گیلان میں ہوئی جس کو گیلان بھی کہا جاتا ہے اسی لئے آپ رحمت اللہ
تعالی کا ایک نام عبدالقادر گیلانی بھی ماخوذ ہے علمأ کرام نے لکہا ہے کہ
آپ رحمت اللہ تعالی علیہ جیلان بغداد کے جنوب میں 40 کلومیٹر کے فاصلے پر
واقع عراقی و تاریخی شہر مدائن کے قریبی شہر مغربی گیلان یا اس کے قریبی
عراقی گاؤں ( بشتیر) میں پیدا ہوئے تاریخ کی کتابوں میں نیزبغداد میں موجود
گیلانی خاندان بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں شیخ عبدالقادر جیلانی کا تعلق
جنید بغدادی کے روحانی سلسلے سے ملتا ہے شیخ عبدالقادر جیلانی کی خدمات
وافکار کی وجہ سے شیخ عبدالقادر جیلانی کو مسلم دنیا میں غوث الاعظم دستگیر
کا خطاب دیا گیا .
حضور شیخ عبدالقادر جیلانی رحمت اللہ تعالی علیہ کی پیدائش کے چھ سال قبل
حضرت شیخ ابو احمد عبداللہ بن علی بن موسی نے فرمایا کہ میں گوہی دیتا ہوں
کہ عنقریب ایک ایسی ہستی آنے والی ہے کہ جس کا فرمان ہوگا کہ
کہ میرا قدم ہر اولیاء اللہ کی گردن پر ہوگا
حضرت شیخ عقیل سنجی سے پوچھا گیا کہ اس زمانے میں قطب کون ہیں فرمایا اس
زمانے کا قطب مدینہ منورہ میں پوشیدہ ہے سوائے اولیأ اللہ کے اسے کوئی نہیں
جانتا پہر عراق کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ اس طرف سے ایک عجمی نوجوان ظہر
ہوگا اور پہر وہ بغداد کی طرف جائے گا وہاں وہ جاکر وعظ کرے گا اور وہ
فرمائے گا
کہ میرا قدم ہر اولیاء اللہ کی گردن پر ہوگا
آپ کے فرما نے پر تمام منادیء غیب نے ندا کردی کہ جمیع اولیا ء اللہ اطاعت
غوث پاک کریں یہ سنتے ہی جملہ اولیاء اللہ جوزندہ تھے اور جو پردہ فرما چکے
تھے سب نے گردنیں جھکالیں (تلخیض بہجت الاسرار).
جب آپ رحمت اللہ تعالی علیہ کی عمر 4 سال کی ہوئی تو آپ رحمت اللہ تعالی
علیہ کیے والد ماجد حضرت ابو صالح رضی اللہ تعالی عنہ آپ رحمت اللہ تعالی
علیہ کو مکتب داخلے کی غرض سے لے گئے . آپ رحمت اللہ تعالی علیہ استاد کے
سامنے دوزانو ہو کر بیٹھ گئے استاد نے کہا پڑھو بسم اللہ الرحمن الرحیم تو
آپ رحمت اللہ تعالی علیہ نے بسم اللہ کے ساتھ ساتھ الم سے لیکر 18 سپارے
مکمل زبانی سناڈالے استاد نے حیرت سے پوچھا یہ کب اور کیسے یاد کئے تو آپ
رحمت اللہ تعالی علیہ نے فرمایا میری والدہ ماجدہ 18 سپارے کی حافضہ ہیں
میں جب شکم مادر میں تھا تو وہ اکثر ان کو پڑھا کرتی تھیں اس طرح وہ سپارے
سنتے سنتے مجھے بھی یاد ہوگئے آپ رحمت اللہ تعالی علیہ کی کنیت ابو محمد
اور محی الدین , محبوب سبحانی , غوث اعظم , غوث ثقلین , وغیرہ القابات ہیں
. آپ رحمت اللہ تعالی علیہ کے والد ماجد کانام ابو صالح موسی جنگی اور
والدہ محترمہ کا نام ام الخیر فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہما تھا آپ رحمت اللہ
تعالی علیہ والد کی طرف سے حسنی اور والدہ کی طرف سے حسینی سید ہیں .
آپ رحمت اللہ تعالی علیہ کی کرامات اور قصے اگر میں لکھنا شروع کردوں تو
شاید وقت بھی کم پڑ جائے اور عمر بھی لیکن مکمل نہ کر پاؤں علما کرام اور
فقہا عزام نے بیشمار واقعات اور قصے آپ رحمت اللہ تعالی علیہ کے بارے میں
تحریر کئے ہیں جنہیں پڑھکر صحیح معنوں میں اللہ تبارک و تعالی اور اس کے
محبوب سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سچی محبت اور قربت حاصل ہوتی
ہے .
شیخ عبدالقادر جیلانی رحمت اللہ تعالی علیہ کے بارے میں کہنے اور لکھنے کو
تو بہت کچھ ہے لیکن میری قلم کی طاقت ختم ہوجائے گی آپ رحمت اللہ تعالی
علیہ کے بارے میں کہے ہوئے الفاظ شاید ختم نہ ہو آخر میں اتنا ضرور کہوں گا
کہ آج ہر کوئی پریشان دکھائی دیتا ہے ہر کسی کو کوئی نہ کوئی دکھ لاحق
ہےلیکن سلسلہ قادریہ کے ان روحانی پیشوہ کی تعلیمات پر اگر آج کا مسلمان
عمل کرنا شروع کردے تو اس کی دنیا بھی سنور جائے گی اور آخرت بھی اور وہ ہر
پریشانی سے نجات بھی پا لے گا .
رہی ھو مشکلیں ہیں سب دور ہوں گی تیری
غوث پاک کی گیارہویں تم بھی مناتے جاؤ
|