ا س کتاب عظیم پر تدبر اور غور وفکر کیا جائے تو ہر
انسان اسی نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ جب انسانی علم میں کائنات کے رموز اور
حقائق کھل کر سامنے نہیں بھی آئے تھے اور جب دور حاضر کی سائنسی ترقی
اوردوسرے انکشافات واضح نہیں بھی ہوئے تھے تب بھی اس کتاب روشن میں وہ
اشارے اور حقائق پیش کردیئے گئے جو اس کے وحی خدا ہونے کا بھی ایک ثبوت ہے۔
سائنس اورخدا کی طرف سے دیئے گئے دین میں تصادم نہیں بلکہ اتصال ہے۔ سائنس
کی تھیوری Ossification اور Unification خدا کی وحدت کا اظہار ہیں۔دین کا
مقصد انسان کی رہنمائی اور اُسے ا س کے مقام سے آشنا کرنا۔حکیم الامت علامہ
اقبال نے بہت مختصر الفاظ میں یہ بتایا کہ دین کرتا کیا ہے کہتے ہیں از
کلید دیں در دنیا کشاد یعنی دین کی چابی سے دنیا کے تالے کو کھولا جاتا ہے۔
دین کی چابی سے اُن کی مراد قرآن حکیم ہے۔ انسان ہی واحد مخلوق ہے جسے
شخصیت Personality دی گئی ہے جسے اقبال خودی سے تعبیر کرتے ہیں۔ اسے خودی
کہیں، روح کہہ لیں یا نفس اس کا کی نشو ونما کردار سازی سے ہوتی ہے۔ کردار
ہی دراصل کسی انسان کا سرمایہ اور اس کا عکس ہوتا ہے۔ دل ونگاہ کی پاکیزگی
اور اوصاف حمیدہ ہی معراج انسانیت ہے ۔حضور ﷺ کی بعثت کا ایک مقصد تزکیہ
نفس ہے ۔ انفرادی سطح پر اعلیٰ کردار اور اخلاق کے انسانوں کی جماعت تشکیل
دینا جو اجتماعی نظام متشکل کریں۔ دیناسلام میں رہبانیت نہیں ہے اسی لئے
اجتماعی سطح پر قرآنی تعلیمات پر مبنی معاشرہ تکیل دینا مقصد رسالت ہے۔
ہمیں خدا اور فرد کے تعلق کو نہ صرف سمجھنا بلکہ اسے محسوس کرنا چاہیے۔ یہ
عبد اور خالق کا تعلق ہے۔ یہ محبت رسول ﷺ سے مشروط ہے۔ علامہ اقبال نے
فرمایا کہ قرآن مجید کثرت سے پڑھنا چاہیے تاکہ قلب میں محمدی نسبت پیدا
کرے۔قرآن کو اس زاویہ نگاہ سے مت پڑھو کہ تمہیں فلسفے کے مسائل سمجھائے گا۔
اسے اس زاویہ نگاہ سے پڑھو کہ اﷲ تعالیٰ سے میرا کیا رشتہ ہے اور کائنات
میں میرا کیا مقام ہے۔ ایک ویلفیئر اسٹیٹ انسان کے جسمانی ضروریات تو پوری
کرتی ہے لیکن انسانی اوصاف اس کے دائرہ کار میں نہیں آتے۔ خدا اور بندے کا
تعلق سے اسے کوئی غرض نہیں۔قانون الہی کی تشریح کرتے ہوئے علامہ اقبال
فرماتے ہیں کہ اسلام نفس ِ انسانی اور اس کی مرکزی قوتوں کو فنا نہیں کرتا
بلکہ ان کے عمل کے لیے حدود متعین کرتا ہے۔ ان حدو دکے متعین کرنے کا نام
اصطلاح ِ اسلام میں شریعت یا قانون الہی ہے۔
کبھی ہم نے غور کیا کہ رسول اﷲ ﷺ نے نمازکو کیوں مومن کی معراج قرار دیا
اوراس سے کیامراد کیاہے؟ معراج کا معنی ہے سیڑھی چڑھنا گویانماز میں جب ایک
بندہ اپنے رب کے حضور سجدہ کرتا ہے تو تو وہ ایک درجہ بلند ہوتا جاتا ہے۔
ہر نماز کے بعد بندہ مومن ایک اور اوپر کے درجہ پر فائیز ہوتا چلا جاتا ہے
اسی لیے نماز کو مومن کی معراج کہا گیا ہے ۔ قرآن کو کلام اﷲ کہا گیا ہے اس
لیے جب ہم قرآن پڑھتے ہیں تو گویا اﷲ تعالیٰ ہمارے ساتھ باتیں کرتا ہے۔
قرآن نور ہے اس لیے وہ خارج سے روشنی کا محتاج نہیں۔ قرآن اپنی تشریح خود
کرتا ہے جیسا کہ مولاناجلال الدین رومی فرماتے ہیں کہ
معنی قرآن ز قرآن پرس و بس
وز کسی کہ آتش زدست اندر ھوس
پیش قرآن گشت قربانی و پست
تا کہ عین روح او قرآن شدست
قرآن حکیم کے مطالب اور معنی سمجھنے کے لیے قرآن پر ہی غور کرنا پڑے گااور
کسی اور طرف جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ مولانا روم اس بات پر زور دیتے ہیں
قرآن کی تفسیر و تشریح قرآن سے ہی جائے اور غیر قرآنی تصورات کی آمیزش کلام
الہی میں نہیں ہونی چاہیے۔اسلام آج بھی انسانیت کو سکون دے کر ترقی کی
معراج کی طرف لے جاسکتا ہے اور یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے۔ باوجود تمام
حالات کے اسلام ہی واحد دین ہے جو اب تک چلا ہے عیسائیت بحیثیت دین کے کبھی
بھی نہیں رہی اور مذہب کی حیثیت سے تو اب گرجاگھر میں بھی نہیں رہی۔یہودیت
میں نہ تو عالمگیریت ہے اور نہ آفاقی پیغام ۔یورپ کے تاریک دور میں اگر
مسلمان ا نہیں علم کی شمع نہ دیتے تو یہ آج بھی ظلمت کے اندھیروں میں ہوتے
لہٰذا اسلام میں مکمل صلاحیت موجود ہے۔ جو قوم بھی اُن زریں اصولوں پر چلے
گی کامیابی سے ہمکنا ر ہوگی اور مسلمانوں کے موجودہ تمام مسائل کا مختصر حل
علامہ اقبالؒ نے بھی جیساکہ تجویز کیا تھا کہ یہ ممکن ہے کہ اسلام کی اصل
تعلیمات سامنے آئیں اور مسلمان پھر سے عروج حاصل کر سکیں بشرطیکہ اسلامی
دنیا روح عمرؓ کو لے کے آگے بڑھے وہ حضرت عمر فاروق ؓ جنہوں نے رسولﷲ ﷺ کے
آخری لمحات میں کہا تھا حسبناکتاب اﷲ ، یعنی ہمارے لئے اﷲ کی کتاب کافی
ہے۔خلاصہ کلام یہ کہ قرآن حکیم کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر ہی ہم زوال سے
عروج کا سفر شروع کر سکتے ہیں
ہو تیری خاک کے ہر ذرے سے تعمیر حرم دل کو بیگانہ انداز کلیسائی کر |