زندگی (تھاٹ آف دِی ڈے)

شام کا وقت تھا،،،سورج تھک کے سو جانا چاہتا تھا،،،اس کی آب و تاب سے
بہت سے تنگ تھے،،،بس اچھی بری،،،کڑوی کسیلی سن سن کر وہ بور ہورہا
تھا،،،
سورج نے سوچا میری روشنی کی قدر ہی نہیں،،،جو ماں باپ،،،وطن،،،استاد
گھر بار،،،بزرگ کی عزت نہیں کرتے،،،ان کو برا بھلا کہنے سے نہیں چوکتے
میری کیا بساط کہ میرا سوچیں،،،چلو کچھ وقت ہی سہی،،،مگر منہ ہی
چھپا لیتا ہوں،،،اور سستا بھی لوں،،،

وہ آہستہ آہستہ اپنی ذات کی بھول بھلیوں میں کھونے لگا،،،دروازے پر
دستک ہوئی،،،
ہمارے سب سے عزیز دوست کو ہم سے اس دستک نے دور کردیا،،،
ہاں!! ہماری دوست،،،تنہائی!!!

خیر ہم اپنا بوجھ اٹھا کے دروازے کی طرف بڑھے،،،پھر خیال آیا،،،ہم نے
کب دروازہ بند کیا،،،آواز دی،،،آ جاؤ بھائی!!
دروازہ کھلا،،،اک نامانوس سا چہرہ سامنے آگیا،،،جیسے کوئی بوڑھی
عورت،،،بنا لاٹھی کے بمشکل چل پارہی ہو،،،ہمیں اسے دیکھ کر
خود پر غصہ آیا،،،
کہ دروازہ بند کیوں نہیں کرتے ہم،،،،

ہم انہی سوچوں میں گم تھے،،،وہ دھم سے ہمارے سامنے بیٹھ گئی
اک کرب سا چہرے پر آیا،،،اور کسی اچھے وقت کی طرح فوراَ گزر گیا
ہم نے سوچا،،،کون ہوسکتی ہے؟؟،،،،!
سوچ ابھی شعور کی پہلی سیڑھی پر تھی،،،کہ وہ بولی‘‘ میں زندگی ہوں‘‘
دیکھ لو میں ہوں زندگی،،،جیسے ہو کوئی آرزو،،،کوئی خواب،،،کوئی
تشنگی،،،

آہ اک آہ تیزی سےہم سے ہوکر اس کےچہرے پر منتقل ہوگئی،،ہم بولے
زندگی اتنی کمزور،،،بوسیدہ سے ورق جیسی،،،
وہ بولی ہاں،،،بنا پڑھے ہی کمزور اور بوسیدہ ہوگئیں ہوں،،،اگر کوئی پڑھتا
یا پڑھنے کی کوشش کرتا،،،تو شاید میں ترو تازہ ہوتی،،،جیسے کوئی صبح کی
شبنم،،،یا نئی کونپل سے نکلا کوئی تازہ سا پھول،،،


اتنی ظالم کیوں ہو؟؟؟،،،،،!!!
مسکرا کے بولی،،،ذرا سے درد پر ہی رو پڑتے ہو،،،آہ و بکا کرتے ہو،،،خاک ظلم
کرنے دیتے ہو،،،خود ہی ظالم خود ہی مظلوم،،،میں تو ترس گئی،،،کسی سے
بدلہ لےسکوں،،،،

اتنی مشکل کیوں ہو؟؟،،،!!!
اس سوال پر بولی،،،پگلے،،،میں تو سیدھی سی ہوں،،مگر تم تیار ہی نہیں ہوتے
اسی لیے ہر شے مشکل لگتی،،،ٹرین کے ٹریک کی طرح سب کو ساتھ لے کر
منزل تک چلتے جاؤ،،،میں پھولوں کی سیج بن جاؤں گی،،،ورنہ مجھے تو آگے
بڑھنا ہی ہے،،،کوئی ساتھ چلے نا چلے،،،،

مگر میں بے قصور ہو کر بھی ہر انسان کے کٹیرے میں کھڑی رہتی ہوں،،،
یہ حال کردیا میرا،،،الزام سہہ سہہ کے،،،
ہر کوئی مجھے ہی الزام دیتا ہے،،،تم بھی تو ایسے ہی ہو،،،

ہر پل الزام دیتے ہو
جانے کیوں نہ خود کو تیار کرتے ہو
منزل ہوتی ہے پاس بس مدہوش رہتے ہو
پھر دوش مجھے ہی دیتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

Hukhan
About the Author: Hukhan Read More Articles by Hukhan: 1124 Articles with 1254018 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.