شاہ دولہ کے چوہے

گجرات میں شاہ دولہ مزار کے قریب عجیب الخلقت افراد کی بستی

طویل القامت اور پستہ قد افراد کے بارے میں تو سنتے ہی رہتے ہیں جن میں ترکی کے 8فٹ 9انچ قامت کےشہری سلطان کوزن کا نام سب سے بڑی قامت کے انسان کے طور پر گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں لکھا گیا جب کہ بھارت کی 62.8سینٹی میٹر قامت کی جیوتی اور نیپال کے 21انچ قد رکھنے والے چندرا بہادر کو ورلڈ ریکارڈ بک میں سب سے پستہ قامت مرد و زن کی حیثیت سے شامل کیا گیاپاکستان میں بھی عالم چنا جیسے طویل قامت لوگ موجود ہیں، جن کا شمار دنیا کے قدآور افراد میں ہوتا ہے۔ عالمی ریکارڈز کی زینت بننے یا ذرائع ابلاغ کا موضوع گفتگو بننے سے وہ لوگ ہنوزمحروم ہیں جو ہمیں اکثر و بیشتر اپنے اردگرد نظر آتے ہیں اور واقعی ایک عجوبے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ چھوٹے سر اورپتلے چہرے والےلوگ ہیں جو اکثر ٹریفک سگنلز پر بھیک مانگتے نظر آتے ہیں، جنہیں لوگ ان کی عجیب الخلقت شکل و صورت کی وجہ سےلازمی طور سے کچھ نہ کچھ دیتے ہیں۔ سبز رنگ کے چوغے پہنے ان گداگروں کی بڑی تعداد ذہنی طور سے معذور اور گونگے افراد پر مشتمل ہوتی ہے، ان میں لڑکیاں بھی ہوتی ہیں، انہیں عرف عام میں شاہ دولہ کے چوہے اور چوہئیاں کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں گجرات کے مقام پر ان کی ایک بستی ہے جو ’’شاہ دولہ کے مزار ‘‘کے ساتھ واقع ہے جہاں ایسےعجیب الخلقت افراد کی کی کثیر تعداد رہتی ہے ، اسی لیے مزار کی مناسبت سے ان افراد کا نام ’’شاہ دولہ کے چوہے ‘‘ پڑ گیا ہے۔یہاں ڈھیلے ڈھالے سبز چوغے زیب تن کیے ’’انسان نما چوہے‘‘ چلتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں ۔لاہور سے100کلومیٹر کے فاصلے پر گجرات شہر واقع ہے جس کے مشرقی قصبے ’’پارنے ‘‘میں ایک دروازہ ہے جسے ’’شاہ دولہ گیٹ‘‘ کہا جاتا ہے، اس کے اندر گلی میں ہی ایک مزار ہے جس سے متصل ’’انسان نما چوہوں‘‘ کی بڑی تعداد آباد ہے، جس میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے اس لیے ان کے درست اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں لیکن پاکستان بھر میں ان عجیب غریب لوگوں کی آبادی تقریباً 10,00ہے۔یہ انسان نما چوہے کہاں سے آئے اور ان کی تخلیق کس طرح سے ہوئی، ان سے منسوب بے شمار روایات مشہور ہیں، جب کہ شاہ دولہ کے مزار اور مذکورہ بستی دیکھنے کے لیے معتقدین کے علاوہ دنیا بھر سے سیاح آتے ہیں ۔گجرات شہر کی تاریخ ویسے بھی انتہائی قدیم ہے، اس کے بارے میں روایات ہیں کہ دنیا میں آمد کے بعد بنو آدم یہاں بھی آبادہوئےتھے،گجرات کے شمال مشرق کے موضع بھڑیلہ شریف میں حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے کی قبر بتائی جاتی ہے جن کا نام قنوط تھا، جب کہ کچھ لوگ اسے حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے کی قبر بتاتے ہیں۔ موضع موٹا، موضع چھمب، موضع وٹالہ، موضع شیخ چوکانی، موضع پڈا اور اعوان شریف کے علاقے میں قدیم زمانے کے پیغمبروں اور بنی اسرائیل کے کئی رروحانی پیشواؤں کی قبریں موجودہیں جب کہ پبی کی پہاڑیوں میں بھی ہزاروںسال پرانی تہذیب کے آثارپائے جاتےہیں۔

یہ علاقہ ایک صوفی بزرگ حضرت سید کبیر الدین شاہ دولہ کے نام کی مناسبت سے مشہور ہے جنہیں دریائے جہلم کے قریب رہنے کی مناسبت سے ’’دریائی گنج بخش ‘‘بھی کہا جاتا ہے، جو سہروردیہ سلسلے سے تعلق رکھتے تھے۔سید کبیر الدین شاہ 1581ء میں گجرات کے علاقے میں پیدا ہوئے، جب وہ نو سال کی عمر کے تھے تو ان کے والدین انتقال کرگئے،جس کے بعد وہ سیالکوٹ آگئے۔ کچھو عرصہ وہاں گزار کر دوبارہ اپنے آبائی شہر ، گجرات میں مقیم ہوگئے۔ یہ مغل شہنشاہ، شاہ جہاں کا دور حکومت تھا۔اس وقت گجرات کی آبادی صرف چند محلوں پر مشتمل تھی۔ حضرت شاہ دولہ کی آمد کے بعد ان کے عقیدت مندوں کی تعداد بڑھتی گئی جس سے یہاں کی آبادی میں بھی اضافہ ہوتا گیا ۔شاہ صاحب اپنی قیام گاہ پر ہر وقت اللہ کی عبادت میں مصروف رہتے ۔لوگ ان سے دعا کرانے آتے اور ان کی دعائیں بارگاہ ایزدی میں شرف قبولیت پاتیں۔ جب لوگوں کو ان کی مخفی روحانی قوتوں کا علم ہوا تو وہ ان کے پاس اپنی حاجات لے کر آنے لگے اور ان سے دعا کرانے کے بعد ان کے مسائل حل ہونے لگے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کے معتقدین کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا اور ان کی قیام گاہ ایک دربار کی شکل اختیار کرگئی۔ وہ ایک نیک اور برگزیدہ شخص تھے، انھیں پرندوں اور جانور سے بھی گہرا شغف تھا،علاقے کے قدیم لوگوں کے مطابق وہ اپنے پسندیدہ جانوروں کے سروں پر مٹی یا کسی دھات کی ٹوپی اوڑھا دیتے تھےاور ان کے سروں کو مکمل ڈھانپ کر رکھتے تھے۔ ان کا دربار ہر وقت عام لوگوں کے لیےکھلا رہتا تھا۔ بانجھ عورتیں ان سے دعا کروانے کے لیے دور دراز کے علاقوں سے حاضر ہوتی تھیں لیکن شاہ صاحب ان خواتین کے لیے مشروط دعا فرماتے تھے، ان کی شرط ہوتی تھی کہ لاولد خواتین و حضرات اپنا پہلا بچہ ان کے دربار کے لیے وقف کردیں گے۔ بعض روایات کے مطابق جو لوگ صاحبِ اولاد ہونے کے بعد ان شرائط کو پورا نہیں کرتے تھے تو ان کے یہاں جنم لینے والے سارے بچے چھوٹے سر کے پیدا ہوتے تھے جو ہوش سنبھالنے کے بعد خود بہ خود ان کے دربار میں پہنچ جایا کرتے تھے۔حضرت شاہ کیبر الدین عرف شاہ دولہ دریائی نہ صرف روحانی بزرگ تھے بلکہ فلاح و بہبود کے کاموں میں بھی بہت دل چسپی رکھتے تھے اور رفاہ عامہ کے کام کراتے رہتے تھے۔ان کی شہرت مغل شہنشاہ اور پنجاب کے نوابین کے درباروں میں پہنچی تو انہوں نے ان کے لیے وظیفے مقرر کیے لیکن کبیر الدین شاہ، مذکورہ تمام رقومات عوام کے فلاح و بہبود کے کاموں پر صرف کردیتے تھے، ۔ انہوں نے اس علاقے میں مساجد اور مسافروں کے لیے سرائے تعمیر کرائیں بلکہ اپنے دربار کے قریب بے سہارا اور ذہنی طور سے معذور بچوں کی پرورش اور نگہداشت کے لیے ایک ادارے کی بنیاد رکھی یتیم خانوں کی طرز پرکئی عمارتیں تعمیر کروائیں ۔ان میں ایسے چھوٹے سر والے بچوں کی پرورش کی جاتی تھی جنہیں ان کے والدین درگاہ پر چھوڑ جاتے تھے یا جو خود ان کے آستانے پر آجاتے تھے، ان بچوں کی ظاہری ہیئت کی وجہ سے انہیںشادولہ کے چوہے کے نام سے پکارا جانے لگا، آج اس مقام پر چھوٹے سر اور باریک چہرے والے انسانوں کی ایک بستی بن گئی ہے جہاں بڑی تعداد میں ’’شاہ دولہ کے چوہے‘‘ آباد ہیں۔

شاہ کبیر الدین کے وصال کے بعدآستانے میں ہی ان کی تدفین کی گئی جہاں بعد میں ایک وسیع و عریض مزار بن گیا،جو ’’شاہ دولہ، دریائی گنج بخش ‘‘کے مزار کے طور پر مشہور ہوا۔مذکورہ درگاہ پر اولاد کے لیے منت ماننے والی بانجھ خواتین کی آمد کا سلسلہ ان کی وفات کے بعد بھی جاری رہا اور آج تک چل رہا ہےاور بچے کی پیدائش کے بعد پہلے بچے کومزار کے لیے وقف کردیا جاتاہے جو شاہ دولہ کے چوہوں کی بستی کا حصہ بن جاتاہے۔اس مزار اور انسان نما چوہوںکی شہرت جب برصغیر کے انگریز حاکموں تک پہنچی تو 1839ء میںایک برطانوی افسرکرنل کلاڈ مارٹن بہ ذات خود اس بستی اور مزار پر آیا۔ اس نے چند خواتین کو اپنے بچوں کو دربار کے لیے وقف کرتے ہوئے بھی دیکھا۔مقامی لوگوں کی زبانی اسے علم ہوا کہ یہ ر سم سیکڑوں سال سے چلی آرہی ہے، برطانوی حکومت کے لیے اپنی رپورٹ میں اس نے ان بچوں کی جسمانی حالت کے متعلق لکھنے سے گریز کیا۔ 1866ء میںایک طبی محقق ڈاکٹر جانسٹن، دولے شاہ کے دربار پر آیا۔ اُس کو وہاں نو بچے ملےجن کی عمریں10اور19برس کے درمیان تھیں۔ ان تمام بچوں کے سر بہت چھوٹے تھےجنہیں دولے شاہ کے چوہے کہا جاتا تھا۔ ڈاکٹر جانسٹن وہ پہلا سائنس دان تھا جس نےاپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ان تمام بچوں کے سروں کو فولادی خود یا کسی اورسانچے میں رکھ کر ان کے سروں کی ساخت کو چھوٹا کیا گیا ہے ۔ 1879ء میں ہیری ریوٹ کارنک نے اس دربار پر تحقیق کی۔ اس نے اپنی رپورٹ میںلکھا کہ ہر سال تقریباََ دو سے تین بچوں کو دربار کے لیے وقف کیاجاتا ہے۔ اس نے معصوم بچوں کو چوہا بنانے کے متعلق لکھا کہ ان بچوں کے سروں کو میکنیکل طریقے سے چھوٹا کیا جاتا ہے اور اُس میں مختلف حربے اختیار کیے جاتے ہیں۔ مٹی کی ہنڈیا اور دھات سے بنے ہوئے خود بھی ان بچوں کو چوہوں میں تبدیل کر دیتے ہیں۔

1902ء میں کیپٹن ایونز نےشاہ دولا کے مزار اور اس سے ملحق ’’چوہوں کی بستی‘‘ پر بھرپور تحقیق کی۔ اس وقت تک ان بچوں کی تعداد 600 سو کے قریب تھی۔ اس نےان کے سروں کومکنیکل طریقے سے چھوٹا کرنے کے عمل سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ ان بچوں کی تخلیق ایک مہلک بیماری کی وجہ سے ہوئی ہے ،، جسے مائیکروسفالی کہتے ہیں اور اس بیماری کے شکار بچے ،شاہ دولہ کے مزار کے علاوہ نہ صرف پورے ہندوستان بلکہ برطانیہ میں بھی پائے جاتے ہیں۔ اس کی رپورٹ میں کہا گیا کہ دولے شاہ کا مزار اس مہلک بیماری میں مبتلا بچوں کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ ہے، مگر موجودہ دور میںمزار کے ان بچوں کو بھیک مانگنے کے استعمال کیا جاتا ہے۔ 1902ء میں کئی بچوں کو تو سالانہ 17-20روپے کے عوض گداگر ٹھیکیداروں کوکرائے پر بھی دیا جاتا تھا۔ پاکستان کے قیام کے بعد 1969ء میں محکمہ اوقاف نے اس دربار کو اپنی تحویل میں لے لیا اور چوہوں کی تخلیق کاری کے غیر قانونی عمل کو بند کر دیا، لیکن چند سالوں بعد یہ مافیا دوبارہ سر گرم ہوگئی۔آج ہمیں ہر شہر اور ہر گائوں میں سبزڈھیلا ڈھالا چولا پہنے سخت گرمی یاخون منجمد کرنے والی سردی میں برہنہ پابھیک مانگتے ہوئےاس طرح کے بچے اور بڑےنظر آئیں گے۔

شاہ کبیر الدین نے مٹی کی ٹوپیاں سروں پر چڑھانے کا طریقہ چرند پرند پر آزمایا تھا لیکن مقامی آبادی کے مطابق، مزار کے مجاور حضرات مذکورہ طریقہ کار اچھے بھلے بچوں کو چوہا بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔منت ماننے والی بانجھ خواتین و غریب لوگ عقیدت و احترام کی وجہ سے اپنے جگر گوشوں کو مزار کے منتظمین کے حوالے کردیتے ہیںجو ان بچوں کے سروں پر مخصوص ٹوپی یا شکنجہ نما لوہے کا سانچہ چڑھا دیتے ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف ان کے سروں کی بڑھوتری رک جاتی بلکہ ان کی دماغی اور جسمانی صلاحیت بھی اپنی جگہ ٹھہر جاتی ہے اور پھر یہ بچے رفتہ رفتہ ذہنی طور سے معذور ہو جاتے ہیں۔ ان کی زندگی کا ایک ہی مقصد رہ جاتا ہے بھیک مانگنا اور ، کھانا، ایسے بچے سن بلوغت میں پہنچنے کے بعد بھی نہ صرف سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے معذور ہوتے ہیں بلکہ زندگی کی بھاگ دوڑ میں حصہ لینے سے بھی قاصر ہوتے ہیں۔ گجرات اور آس پاس کے لوگوں کا عقیدہ ہے کہ شاہ دولہ کے چوہے اللہ کے خاص الخاص بندے ہوتے ہیں، جن کی دعا ہرحال میں قبول ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی ایسا شخص لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرتا ہے تو ہر شخص انہیں اپنی بساط کے مطابق تھوڑی بہت رقم ضرور دیتا ہے، اور انہیںخالی ہاتھ نہیں جانے دیتا۔اس صورت حال سے استفادہ کرنے کے لیے بھکاری مافیا سرگرم ہوگئی ہے، شاہ دولہ کے چوہے ان کے لیے سونے کی چڑیا کی حیثیت رکھتے ہیں، مذکورہ گروہ اس قسم کے بچوں کی تلاش میں رہتے ہیں، مذکورہ مزار پرفی بچہ 30سے 50ہزار روپے ماہانہ کرائے پراس مافیا کے حوالے کیا جاتا ہے، جب کہ ان کی خریدو فروخت بھی ہوتی ہے۔ جوغریب والدین اپنے ذہنی و جسمانی طور سے معذور بچوں کو اپنے گھرانے پر بوجھ تصور کرتے ہیں، تو اس مافیا کے چالاک کارندے ان بچوں کی سن گن پا کر وہاں پہنچ جاتے ہیں اور وہ ان سے مذکورہ بچے دولے شاہ کے مزار کے لیے وقف کرنے کے نام پر لے لیتے ہیں، جن سے بھیک منگوائی جاتی ہے یا انہیں مداری حضرات بندر کی جگہ نچاتے ہیں۔

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 213 Articles with 222975 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.