حرام عشق جائز اور نکاح ایک جرم
(رعنا تبسم پاشا, Dallas, USA)
ہمارے ہاں کی لڑکیاں جب اپنی روایات سے بغاوت کرتی ہیں بڑوں کی نافرمانی اور اُن کی حکم عدولی تو عموماً اُنہیں اس جسارت کی بہت بھیانک سزا اسی دنیا میں بھگتنی پڑتی ہے ایک دردناک موت کی شکل میں ۔ جیسے مغربی ممالک میں روزگار کے حصول کی خاطر سرپھرے نوجوان ڈنکی لگا کر ایک یقینی موت کے سفر پر روانہ ہوتے ہیں بالکل ایسے ہی یہ لڑکیاں اپنے خوابوں کی تکمیل اور اپنی من پسند زندگی کے حصول کے جنون میں سر پر کفن باندھے نکل پڑتی ہیں اور جلد یا بدیر اُنہیں یہ کفن پہننا پڑ جاتا ہے ۔ سینکڑوں ہزاروں مثالیں سامنے موجود ہونے کے باوجود اِنہیں عبرت حاصل نہیں ہوتی کوئی سبق نہیں ملتا پھر اپنی اس نادانی کی اُنہیں بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے ۔ اور اکثر ہی واقعات میں اکیلی لڑکی نہیں اگر لڑکا بھی ہتھے چڑھ جائے تو اُسے بھی ٹھکانے لگا دینے سے دریغ نہیں کیا جاتا ۔ کچھ جوڑوں کے ہاں اولاد بھی ہو چکی تھی اور حال ہی میں ایسے ہی ایک کیس میں پریمی جوڑے کے ساتھ اُن کے شیر خوار بچے کو بھی کیفر کردار تک پہنچا دیا گیا اور آج ایسا ہی ایک اور واقعہ رونما ہوا ۔ جس معاشرت میں نوجوانوں کی پسند اور اُسے کوئی مدد اور حمایت نہ حاصل ہونے کی بناء پر اگر وہ ایک حلال راہ اختیار کرتے ہوئے از خود نکاح کر لیں تو اُنہیں اُن کی زندگی کیوں نہیں جینے دیا جاتا؟ کیوں اُن پر زمین تنگ کر دی جاتی ہے اور موقع ملتے ہی پہلی فرصت میں ایک نکاح یافتہ جوڑے کو سیاہ کار قرار دے کر اُنہیں فنا کے گھاٹ اُتار دیا جاتا ہے ۔ آخر آنے والی نسلوں کو کیا پیغام دیا جا رہا ہے؟ یہ کون سی غیرت ہے کون سی ناموس ہے جو صدیوں سے ادبی و ثقافتی وراثت کے درجے پر فائز لوک رومانی داستانوں پر تو فخر کرتی ہے شادی شدہ عورتوں کے اپنے پرانے عاشقوں سے ناجائز مراسم پر معترض نہیں ہوتی اُن کی چوری چھپے تنہائی میں ملاقاتوں پر کبھی فتویٰ نہیں لگا ۔ یہ داستانیں فرضی ہی سہی افسانہ ہی سہی مگر ان میں موجود کردار تو حقیقی تھے اور کچھ تو رائی تھی جس کا پہاڑ بنا ۔ اور تب بھی کوئی غیرت ہی کا بخار ہو گا جو کسی بھی جوڑے کی آپس میں شادی نہیں ہو سکی تو نئی نسل کو کیا پیغام دیا جا رہا ہے کہ شادی نہ ہو سکے تو سارے زمانے کی آنکھوں میں دھول جھونک کر میل ملاقات کا سلسلہ جاری رکھو کیونکہ پچھلوں نے ایسا ہی کیا تھا اور آج ہیرو بنے ہوئے ہیں ۔ جب دین میں بتا دیا گیا ہے کہ دو نا محرم مرد و عورت کی تنہائی میں تیسرا شیطان ہوتا ہے اور معاملہ بھی عاشقی معشوقی کا ہو تو لوک رومانی داستانوں میں ایسے ہی ماحول کے پروردہ کرداروں کو کس بنیاد پر ایثار و وفا کا استعارہ بنا دیا گیا؟ اُن کے مرقد مرجع خلائق بنے ہوئے ہیں مگر آج کوئی ان سے زیادہ بہتر نکلے اور حرام عشق کے مواقع کو مسترد و مسدود کرتے ہوئے حلال کی راہ اپنائے نکاح کے رشتے میں منسلک ہو جائے تو وہ موت کا مستحق ہے ۔ دین میں تو بتا دیا گیا ہے کہ رشتہ کن بنیادوں پر طے کیا جائے مگر آج سب کے اپنے قاعدے قانون ہیں اپنی شریعت ہے اپنی عدالت ہے جس میں اپنے شرعی حق کو استعمال کرنے کی سزا موت ہے ۔ یہ نوبت کیوں آتی ہے کیونکہ زمین پر خدا بنے ہوئے اس دور کے فرعونوں کو اپنے حقوق اور اختیارات کا تو خوب اچھی طرح سے پتہ ہے مگر باقی کے احکامات سے کوئی سروکار نہیں ۔ ایک متوازی شریعت انہوں نے وضع کر رکھی ہے جو ان کی اپنی نسل کو بغاوت کا سبق سکھاتی ہے اور بدلے میں اُسے موت ملتی ہے مگر باقیوں کو سبق نہیں ملتا عبرت حاصل نہیں ہوتی ۔ ایسا ہوا ہوتا تو ابھی تک گھر سے فرار ہو کر خفیہ نکاح کی پاداش میں قتال و جدال کی رسم جاری نہ رہی ہوتی ۔
✍🏻 رعنا تبسم پاشا |
|