حرام کو دوام اور حلال کا قتلِ عام
(رعنا تبسم پاشا, Dallas, USA)
سرزمینِ برصغیر پر جنم لینے والی لوک رومانی داستانوں میں ہیر رانجھا ، سوہنی مہینوال ، مرزا صاحباں اور سسی پنوں کو شہرت دوام حاصل ہے اڑوس پڑوس کے ملکوں میں شیریں فرہاد اور لیلیٰ مجنوں کے عشق کو ایک ضرب المثال کی سی حیثیت حاصل ہے ۔ ان تمام مقبول عام عشقیہ داستانوں پر ڈھیروں ڈھیر دھؤاں دھار شاعری کی گئی اور بر صغیر پاک و ہند میں بیشمار فلمیں بنائی گئیں ۔ اور اِن تمام داستانوں میں ایک قدر مشترک ہے وہ یہ کہ سوائے ایک کے ( وہ بھی نہ ہونے کے برابر ) کسی بھی جوڑے کی آپس میں شادی نہیں ہو سکی تھی اُن کا عشق ادہورا تشنہ کام ہی رہا مگر آنے والی نسلوں کے لئے صدق و وفا کا استعارہ بن گیا ۔ صدیوں پہلے کے دو نا محرم مرد و عورت کے ایکدوسرے سے طوفانی عشق اور میل جول اور روایات و معاشرت سے بغاوت کو آج تک بڑا احترام اور ایک لوک ورثے کے طور پر تاریخی مقام حاصل ہے ۔ مذکورہ بالا خواتین میں دو ایسے بھی کردار تھے جن کی کوئی اور مردوں سے شادی ہو گئی تھی مگر انہوں نے اپنے سابقہ عاشقوں سے روابط قائم رکھے پہلے باپ بھائیوں کی آنکھوں میں دھول جھونکتی تھیں پھر اپنے خاوندوں کو دھوکہ دینے لگیں اُن کے نکاح میں ہونے کے باوجود غیر مرد سے چوری چھپے ملنے جایا کرتی تھیں ۔ وہ بھی کوئی غیرت و حیا سے عاری ہی مرد تھے جنہوں نے اپنی معشوقہ کے شادی شدہ ہو جانے کے باوجود اُن سے کنارا نہیں کیا عشق سے دستبردار نہیں ہوئے اپنے خاندان کی ناموس کو خاک میں ملا کر اُن سے ملنے آنے والی نادان عورتوں کی حوصلہ شکنی نہیں کی ۔ کہنے کو مسلمان تھے تو کیا اُنہیں دین کا کچھ پتہ نہیں تھا؟ کہ ہمارے دین میں دو نا محرم مرد و عورت کی دوستی اور ملاقات کی کس قدر ممانعت آئی ہے اور دونوں کی تنہائی میں یکجائی کے درمیان شیطان کی موجودگی سے خبردار کیا گیا ہے جبکہ اُن میں سے ایک فریق کی کہیں اور شادی بھی ہو چکی ہے ۔ تو دین کی دھجیاں اڑانے والے کرداروں کو نسلوں کے لئے کوئی ہیرو کا درجہ دے دیا گیا ہے ۔ آج پورے معاشرے میں جو اخلاقی انحطاط اور روایات و اقدار کا زوال جاری ہے تو اس المیے کے سارے سرے جا کر موبائل کلچر اور ویڈیو بلاگنگ سے ملا دیئے جاتے ہیں جو کچھ غلط بھی نہیں ہے ۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے جب جس دور میں کوئی ڈیجیٹل ترقی نہیں تھی ذرائع مواصلات کا وجود نہیں تھا اقدار و روایات کا دور دورہ تھا تو حرام عشق و محبت کی یہ داستانیں کیسے پروان چڑھیں تاریخ کا حصہ کیسے بنیں؟ کیونکہ یہ سینہ بہ سینہ منتقل ہوئیں بڑے فخر کے ساتھ سامنے والی نسل کے آگے بیان کی گئیں ۔ جو بات شرم کی تھی نظریں چُرانے کی تھی اُسے ثقافتی وراثت کا درجہ دے دیا گیا ۔ اور یہی نہیں اور بھی کئی بر صغیری ، ایشیائی جوڑوں کے عشق کی داستانوں کو تاریخ کے صفحات پر جگہ ملی ہوئی ہے بس وہ ذرا کم معروف ہیں اور ان کے نام کسی ضرب المثل کے طور پر نہیں لیے جاتے مگر فلمیں اُن کے نام پر بھی بنائی گئی ہیں اُن کے بھی اعزاز میں قصیدہ خوانی کی گئی ہے ۔ اب ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ جس خطہء سرزمین سے وابستہ لوک رومانی داستانوں کو ایک ادبی و ثقافتی سرمایہ متصور کیا جاتا ہے وہیں پر مرضی اور پسند کی شادی کسی گناہ کبیرہ سے کم نہیں سمجھی جاتی ۔ عزت کے ساتھ بھیجے گئے نکاح کے پیغام کو نہایت ہی حقارت اور رعونت کے ساتھ ٹھکرا دیا جاتا ہے کیونکہ وہ غیر ذات برادری سے آیا ہے ۔ مگر برادری کے اندر بھی دو نوجوان لڑکا لڑکی ایکدوسرے کو پسند کریں تو اُس پسند کا احترام ناک کٹ جانے کے مترادف ہوتا ہے اپنی انا اتنی عزیز ہوتی ہے کہ اولاد کو اس کی اپنی زندگی کے فیصلے کا کوئی اختیار ہی نہیں ہوتا ۔ یہ وہی نسل ہوتی ہے جس نے آنکھ کھولتے ہی ہوش سنبھالتے ہی لوک رومانی داستانوں کے کرداروں کو ایک رول ماڈل کے طور پر پیش کیا جاتا دیکھا ہوتا ہے ۔ اُن کے مزاروں پر زائرین کا ہجوم اور اُنہیں عقیدت سے پھول چڑھاتے اور فاتحہ خوانی کرتے دیکھا اور سنا ہوتا ہے ۔ اُنہیں یہ ماحول دے کر ایک ممنوعہ تعلق کو نارملائز باور کرا کے پھر اُن سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ کسی کو پسند کرنے اور اُس سے نکاح کی خواہش کی جسارت بھی نہ کریں ۔ معیارات کا اتنا بڑا تضاد ہر کسی کو آسانی سے ہضم نہیں ہوتا اور روایات سے بغاوت کو جنم دیتا ہے جو چوری چھپے گھر سے فرار اور خفیہ نکاح کی صورت میں نمودار ہوتی ہے اور پریمی جوڑے نے حلال رشتے میں منسلک ہوتے ہی گویا اپنی موت کے پروانے پر دستخط کر دیئے ۔ پھر جلد یا بدیر اُنہیں ایک عبرتناک انجام سے دوچار ہونا ہی پڑتا ہے نکاح یافتہ ہونے کے باوجود ان کا مقام کوئی سیاہ کار ہی کے مترادف ہوتا ہے کیونکہ وہ نکاح انہوں نے اپنے فرعون صفت بڑوں کی مرضی کے خلاف اُن کی نام نہاد غیرت و حمیت کا جنازہ نکال کر کیا ہوتا ہے جس کی اُن کے اپنے وضع کیے ہوئے قاعدے قانون کے مطابق کوئی شرعی حیثیت نہیں تو پھر سزا تو بنتی ہے مگر سبق کسی کو نہیں ملتا ۔ غیرت کے نام پر قتل عام کی رسم اور لوک رومانی داستانوں کا سحر اور اثر و نفوذ اپنا خراج وصول کرتا رہے گا یہ انٹرنیٹ ، موبائل ، ویلاگنگ تو ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن پہلے کی کہانی ہے ۔
✍🏻 رعنا تبسم پاش |
|