وقت کا فاصلہ یا سوچ کا؟ ایک نسلوں کے درمیان خاموش جنگ از تحریر وقاص امین
(Waqas amin, Rahim Yar Khan)
|
چند دن پہلے ایک دوست کے ساتھ بیٹھا تھا۔ میں نے بے دلی سے کہا یار کچھ لکھنے کو دل تو کرتا ہے، مگر کوئی مناسب موضوع ذہن میں نہیں آتا۔
وہ مسکرایا اور بولا، جتنا میں تجھے جانتا ہوں ایک موضوع ہے جو تُو ہی لکھ سکتا ہے۔ تُو بے تکلف بولتا ہے مگر بے ادب نہیں لگتا، کیونکہ تیری بات میں دلیل ہوتی ہے۔
میں نے ہنستے ہوئے کہا بس کر یار، اب بتا بھی دے، کیا لکھوں؟
وہ سنجیدہ ہو کر بولا بزرگوں پر لکھ دے… خاص طور پر اُن پر جو ہر وقت نئی نسل کو نیچا دکھاتے رہتے ہیں
یہ جملہ سنتے ہی میں خاموش ہو گیا۔ کچھ دیر بعد جب اکیلا بیٹھا تو دل میں ایک سوال گونجنے لگا یہ جو ٹکراؤ ہے یہ وقت کا فرق ہے یا سوچ کا؟
بزرگ نسل مضبوط مگر ضدی
ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ پچاس ساٹھ ستر اور اسی کی دہائی کی نسل نے ایسے حالات میں جینا سیکھا جن میں نہ وسائل تھے، نہ سہولتیں انہوں نے مشکل دور میں عزت، محنت، اور اصولوں کے ساتھ زندگی گزاری اُن کی کہانیوں میں قربانی ہے صبر ہے اور کچھ کر دکھانے کی جستجو بھی۔
لیکن یہ تصویر مکمل نہیں۔
ان کی عظمت کے سائے میں کچھ سائے دار کمزوریاں بھی چھپی ہیں انا کی شدت
غلطی ہو بھی جائے تو وہ اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ بات ماننے کے بجائے وہ اپنی سچائی پر ڈٹے رہتے ہیں چاہے گھر ٹوٹ جائے رشتے بکھر جائیں۔ تربیت کا خلا
انہوں نے نئی نسل کو روایات تو دیں مگر اندازِ تربیت بدلنا بھول گئے محبت کی جگہ صرف نصیحت، اور رہنمائی کی جگہ صرف تنقید دے دی گئی
نتیجہ آج بیٹا باپ سے بات کرنے کے لیے وقت مانگتا ہے اور ماں کو بیٹی کی سوچ ہی سمجھ نہیں آتی۔ جو مشورے پہلے صحن میں ملتے تھے آج اُن کے لیے therapist یا consultant hired کیے جاتے ہیں
اب آتے ہیں نئی نسل کی طرف جسے ہم Gen-Z کہتے ہیں یہ نسل بھی اپنی جگہ الجھی ہوئی ہے اُنہیں بچپن سے صرف ایک پیغام ملا غلطی نہ کرنا
مگر کوئی یہ نہ بتا سکا: اگر کچھ کرنے کی ہمت نہ کی، تو کیا کھو بیٹھو گے؟
ہر بات پر ڈانٹ، ہر خواب پر شک، ہر جذبے پر طنز یہ سب مل کر نئی نسل کو بے حس بناتے جا رہے ہیں۔
لیکن اگر اُن پر دوبارہ اعتماد کیا جائے، تو شاید وہ آپ کی توقع سے بھی بہتر نکلیں۔
کیونکہ دل کو قابو میں رکھنے کے لیے ہتھیار نہیں، احساس اور بھروسا کافی ہوتا ہے غلطی انسان کا فطری حصہ غلطی کرنا انسان کی سرشت ہے حضرت آدمؑ سے لے کر آج تک کوئی انسان اس سے خالی نہیں رہا۔ پھر نئی نسل سے یہ توقع کیوں کہ وہ پرفیکٹ ہو؟ جبکہ مشینیں بھی پرفیکٹ نہیں ہوتیں اگر بچہ شیشہ توڑ دے، تو کہنے کے بجائے: "نقصان کر دیا یہ کہا جا سکتا ہے بیٹا اگر تمہیں چوٹ لگ جاتی تو؟
یہ ہے احساس جو اکثر باتوں میں گم ہو چکا ہے۔
بزرگ جذبات کے قیدی
آج کا المیہ یہ ہے کہ
باپ بیٹے سے بات کرنے سے کتراتا ہے بیٹا ماں سے نظریں چرا لیتا ہے بزرگ تنقید میں مصروف، مگر اندر سے خالی
یہ وہی لوگ ہیں جو ٹی وی ڈرامے پر رو دیتے ہیں ایمبولینس کی آواز پر دل سے دعا مانگتے ہیں تو کیا یہ جذباتی ہو گئے ہیں؟ نہیں بلکہ اپنے جذبات کو قید کر لیا ہے۔ اور اُس طاقت کو جو انہوں نے برسوں میں کمائی نئی نسل تک منتقل نہیں کیا۔
نئی نسل نے بزرگوں کی باتوں کو بورنگ سمجھا اُن کے الفاظ میں تلخی محسوس کج مگر حکمت نہ پہچانی۔
ان کے دل میں ایک ہی خوف ہے کہیں پھر سے ڈانٹ نہ پڑ جائے
اس فاصلے نے بزرگوں کو Villain بنا دیا۔ حالانکہ اُن کے اندر گہرائی ہے، تجربہ ہے درد ہے۔ بس زبان کا فرق آ گیا لہجہ بدل گیا جذبات نہیں اختتامیہ سوچ کی تبدیلی کی ضرورت
یہ تحریر کسی نسل پر تنقید نہیں بلکہ ایک خاموش سچائی کو اجاگر کرنے کی کوشش ہے۔
یہ فرق وقت کا نہیں سوچ کا ہے۔
اگر بزرگ ایک قدم پیچھے ہٹ کر نئی نسل کو آگے بڑھنے دیں اور نئی نسل بزرگوں کی باتوں میں نکتہ چینی کے بجائے دانائی تلاش کرے تو یہ فاصلہ ختم ہو سکتا ہے
یہ تحریر کسی مخصوص شخص یا گروہ کے لیے نہیں لکھی گئی۔ یہ میری اپنی سوچ، مشاہدہ اور احساسات پر مبنی ہے۔ اگر کسی کو اس میں اپنی جھلک محسوس ہو، تو براہِ کرم اسے ذاتی تنقید نہ سمجھا جائے۔
✍️ الفاظ اور جذبات میرے، مگر ترتیب میں ایک دوست کی مدد ضرور شامل ہے۔ |
|