دہشت گردی ، شدت پسندی، سیاسی عدم استحکام ، معاشی مسائل
،سماجی ناہمواریاں یہ سارے وہ معاملات ہیں جو دنیا میں کسی بھی ملک میں کسی
بھی وقت پیش آتے رہتے ہیں یہ جہاں بھی ہوں ہمیشہ ناخوشگوار ہی ہوتے ہیں، ان
سے پہنچنے والا نقصان بھی ناقابل برداشت اور ناقابل تلافی ہوتا ہے۔ کوئی
ملک، حکومت اور عوام نہیں چاہتے کہ وہ اس صورت حال سے دوچار ہوں اور اکثر
اوقات ایسا دشمن ملکوں کی ایماء اور تعاون سے ہی ہوتا ہے۔ ان دنوں پاکستان
ایسی ہی صورت حال سے دوچار ہے، دہشت گردی نے ہماری قومی زندگی کو بُری طرح
متاثر کیا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان ان حالات کے سامنے ڈٹ کر
کھڑا ہے اور انشاء اللہ اِن تمام مسائل کو شکست دے کر سرخرو بھی ہوگا اور
مضبوط بھی لیکن اس وقت کئی دشمنوں سے یہ تن تنہا نبرد آزما ہے۔ دہشت گردوں
کو کئی اطراف سے مالی ، تکنیکی اور افرادی مدد مل رہی ہے اور پاکستان میں
دہشت گرد کا روائیوں کے ذریعے بد امنی اور عدم استحکام کی صورت حال پیدا کی
جارہی ہے اس ساری صورت حال سے سب سے زیادہ فائدہ بھارت اور امریکہ کو پہنچ
رہا ہے، بھارت کو یوں کہ پاکستان کمزور ہو اور اس کے سامنے خطے میں موجود
واحد رکاوٹ ختم ہو اور اس کا دیرینہ خواب پورا ہو، وہ علاقے کا چوہدری بن
سکے اور چھوٹے موٹے ممالک کو اپنا طفیلی بنا سکے، سلامتی کونسل کی مستقل
رکنیت حاصل کر سکے، ایٹمی قوت بڑھاتا رہے اور کوئی اس کا مدِمقابل نہ ہو
اورایسی ہی دوسری بہت سی خواہشات پوری ہوں اور کوئی اس کی راہ میں حائل نہ
ہو۔ امریکہ اس دہشت گردی کا فائدہ یوں اٹھا رہا ہے کہ اسی بہانے وہ اس خطے
میں موجود رہے، چین سے اس کا اصل فاصلہ تو کم نہیں کیا جا سکتا لہٰذا اس
طرح وہ اس کے نزدیک رہے اور اس کی ہر قسم کی سرگرمی کو آسانی سے مانیٹر کر
سکے اور پوری دنیا پر اکیلے حکومت کرنے کا اُس کا دجالی خواب پورا ہوسکے۔
امریکہ جانتا ہے کہ مسلمان اگرمتحد ہو گئے تو یہ واحد قوت ہے جو اُس کے اس
خواب کو تعبیر سے روک سکتی ہے اور اُسے ایٹمی پاکستان اسی لیے کسی طرح
گوارا نہیں۔ اسی نظریے کے تحت ہی امریکہ اور بھارت جیسے دشمن اپنے دیگر
حواریوں مثلاََ اسرائیل یا افغان حکومت کے ذریعے پاکستان کو دباؤ میں لانے
کی مسلسل کوشش کرتے ہیں اور اس کے لیے وہ ہر ہتھکنڈہ استعمال کر رہے ہیں جن
میں عملی کاروائیوں کے ساتھ میڈیا کو بھی بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے
اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ پاکستان دہشت گردی کو فروغ دے
رہا ہے۔ ہندوستان کی خفیہ ایجنسی’’ را ‘‘اس تحریک میں آگے آگے ہے اسی
ایجنسی کے زیر سایہ چھینے والے ایک جریدے میں پاک فوج کے اوپر کئی اعتراضات
کیے گئے اور الزامات لگائے گئے ۔ بیورو آف ریسرچ اینڈ انٹیلیجنس کے اس
جریدے میں لکھا گیا ہے کہ پاکستان کی سیاسی حکومتیں بھارت سے اچھے تعلقات
کی خواہاں ہیں لیکن فوج انہیں ایسا نہیں کرنے دیتی یعنی اس طریقے سے پاک
فوج اور حکومت کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی شعوری کوشش کی جا رہی ہے،
یہ الزام بھی لگایا گیا کہ پاکستان میں ایک عدالتی بغاوت کی کوشش کی گئی جس
کے لیے فوج عدالتوں کے پس پشت تھی، دراصل فوج صرف خود کو پاکستان کا محافظ
سمجھتی ہے۔ ایک بار پھر یہ تاثر دیا گیا ہے کہ جیسے پاک فوج سوائے اپنے ہر
کسی کو ملک دشمن سمجھتی ہے یوں فوج اور حکومت اور فوج اور دیگر اداروں کے
درمیان خلیج حائل کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور ساتھ ہی ایک بحث بھی چھیڑ دی
گئی اور دوسرے لکھنے والوں کو بھی ایک موضوع فراہم کیا گیا ہے۔ اسی موضوع
پر جان ہا پکن یونیورسٹی کے ڈینل ایس مار کی نے بھی پاک فوج اور سیاسی
حکومت کے درمیان غلط فہمی پیدا کرنے کے لیے حکومت کو بھارت کا خیرخواہ اور
فوج کو مخالف بتایا ہے ۔ کارینگی اینڈ ونمنٹ برائے بین الاقوامی امن کے
جنوب مشرقی ایشیا کے معاملات کے ماہر ایشلے جے ٹیلس نے لکھا کہ پاک فوج کا
رویہ غیر مناسب ہے اور وہ ملکی سیاست پر اپنی گرفت مضبوط رکھنا چاہتی ہے۔
اُس نے یہ بھی لکھا کہ پاک بھارت امن مذاکرات کامیاب نہ ہونے کی وجہ پاک
فوج کا دہشت گردوں کو تعاون فراہم کرنا ہے۔ اس قسم کے بیانات کی زبان اور
اندازِ تحریرسے صاف ظاہر ہے کہ ان ماہرین کو بھارت کی مکمل حمایت اور مالی
تعاون حاصل ہے کیونکہ پاکستان پر تنقید اگر ایک موضوع ہے تو بھارت کی تعریف
ایک اور موضوع لیکن دونوں کو جوڑا جا رہا ہے جو اس بات کی غمازی ہے کہ پر
دے کے پیچھے ڈور کسی ایسی قوت کے ہاتھ میں جس کے ہر عمل کا ایک ہی مقصد
ہوتا ہے اور وہ ہے پاکستان کو نقصان پہنچانا اُس کی دوسرے ممالک سے دوستی
یا دشمنی ہو یا اپنے ملک کی پالیسی سازی سب کا مرکزی نکتہ ہوتا ہی پاکستان
ہے اور نیت وہی ایک کہ پاکستان کو نیچا دکھا کر اور اُسے نقصان پہنچاکر
علاقے پر اپنی گرفت بڑھانا۔ اگر حقائق کو سامنے رکھ کر حالات و واقعات
کاجائزہ لیا جائے تو پاکستان سے رقبے اور آبادی میں کئی گنا بڑا بھارت دہشت
گردی سے پاکستان کے مقابلے میں کہیں کم متا ثر ہے وہاں ہونے والی دہشت گردی
اکثر اوقات اندرونی ہوتی ہے اور اس کی نوعیت بھی مذہبی شدت پسندی ہوتی ہے
جس میں ہندو اکثریت اکثر اوقات مسلم اقلیت اور کبھی دوسری اقلیتوں کو نشانہ
بناتی ہے ۔ اُس کے حاضر سروس کرنل سر کانت اور کمانڈر کلبھوشن یا دیو
پاکستان کے خلاف تخریبی کاروائیوں میں رنگے ہاتھوں پکڑے گئے اور انہوں نے
اپنے جرائم کا اعتراف بھی کیا۔ اگر یہ لکھنے والے بھارت کے کردار کو جانچیں
اور پر کھیں اور غیر جانبدار نہ تجزیہ کریں تو انہیں معلوم ہوگا کہ دہشت
گردوں کا پشت پناہ کون ہے اُسے بھارت کا گھنا ونا کردار بلوچستان سے کشمیر
تک ہر جگہ نظر آئے گا لہٰذا ان لکھنے والوں کو ایک بار تمام حالات و واقعات
کو ضروردیکھنا چاہیے اور پاکستانی لکھاریوں کو بھی اپنا فرض ادا کرتے ہوئے
اِن سب کو بھر پور جواب دینا چاہیے۔ دنیا کے سامنے حقیقت کو رکھنا ضروری ہے
تاکہ وہ سچ اور جھوٹ اور حق اور باطل میں تفریق کر سکے۔ |