چند لفظوں اور حروف کو جوڑ بٹور کرایک لَے اور ردم میں
ترتیب دے دینےہی کا نام شاعری نہیں ،ایسی شاعری توکوئی بھی کرسکتا ہے جسے
عام طور پر تک بندی کہاجاتا ہے ،مرغزاروں میں گلہ بانی کرتے چرواہے جب
الغوزے بجاتے ہیں وہ بھی کچھ لفظوں کی ترتیب سے ایک طرز ایجاد کرلیتے ہیں ۔شاعری
وہ ہے جو فکر کی ندرت ،تخیل کی بلند پروازی اور جملوں کی اثر انگیزیوں سے
ایک ایسی فضا مرتسم کردےجو قاری پروجد کی کیفیت طاری کردے اور وہ خود
احتسابی پر مائل ہوجائے ۔مٹھی بھر آسمان بشیر احمد بشیر کا تازہ شعری
مجموعہ ہے جس کے مطالعے کے بعد یہ تاثرات ابھرتے ہیں کہ ان کی شاعری اگرچہ
اس مقام پر تو نہیںپہنچ سکی ہے لیکن ان احساسات وکیفیات کی طرف رواں دواں
ہےجہاں سے پرعزم شاعری کا آغاز ہوتا ہے ۔ان کے یہاں سماجی و معاشرتی سطح
کے مختلف رنگ ابھر کر سامنےآتےہیں جو انسانی نفسیات کی تفہیم میں معاون
ہوتے ہیں ۔ان کے تعلق سے عبدالاحد ساز کے تاثرات بڑی حد تک درست معلوم ہوتے
ہیں،وہ کہتے ہیں ۔
’’مٹھی بھر آسمان ، اس لحاظ سے تو مٹھی بھر ہی ہے کہ اس میں شامل نظموں
اور غزلوں کی تعداد مختصر ہے لیکن اس چھوٹے سے آسمان میں اوپرتلے کئی
دائرے ، قوسین اور پرتیں ہیں ، اس میں شادمانیوں اور المناکیوں کے گھلے ملے
خطوط بھی ہیں اور حسن وعشق کے مرتسم نقوش بھی ، لہو کے رشتوں کی حرارت بھی
ہے اور جذباتی وابستگیوں کی تجارت بھی ۔بچھڑے ہوئے ماضی کی شادابیوں کی ایک
مہک بھی ہے اور نامحتسم حسرتوں کی کسک بھی ۔اخلاقی قدروں کے زیاں کا رونا
بھی ہے او ر ان کی بازیابی و بقا کے امکانی موتیوں کا اشعار میں پرونا بھی
۔کتاب کے ابتدائی صفحات میں حمدو نعت ، مناجات کا تو اثر شاعر کی مذہبی و
روحانی ترجیحات کا غماز بھی ہے ۔‘‘
مجموعے میں نظموں کے ساتھ کچھ غزلیں اور قطعات بھی ہیں ، ان سب میں جو
نمایاں وصف نظرآتا ہےوہ یہ کہ ا ن کے یہاں جذبے کی صداقت صاف طور پر دیکھی
جاسکتی ہے ۔اگرچہ ا ن کے فکری کینوس میں ابھی وسعت وعمق کا فقدان ہے لیکن
انداز بیان کی سادگی و شفافیت اور رواں دواں طرز اظہار قاری کو اپنی گرفت
میں لے لیتا ہے ، دوران مطالعہ یہ احساس ابھرتا ہے کہ شاعر قاری کے جذبات
کا ترجمان ہے اس وقت غالب کا یہ مصرع ’ میں نے یہ جانا کہ شاید یہ بھی میرے
دل میں ہے ‘ گوش سماعت پر مترنم ہوتا ہےاور یہ کیفیت شاعر کو ایک انفرادی
جہت فراہم کرتی ہے ۔ نپے تلے اور سادہ و سہل جملو ں کی بندش جذب و کیف کی
فضا میں جب لے جاتی ہےتو قاری کو دیر تک اپنے ساتھ ہم آہنگ کئے رہتی ہے
اور یہ وصف نہ صرف شاعری کا ماحصل ہے بلکہ اس کی بقا و تحفظ کی ضمانت بھی
ہے ۔چند اشعار بطور تمثیل درج کئے جارہے ہیں ۔
آئے جو مصیبت کی گھڑی مجھ پہ اچانک آجائےمرے لب پہ ترا نام بہت ہے
خلوص دل کہاں ڈھونڈھوں نگر میں جو اب نایاب ہوتا جارہا ہے
ڈانٹ بیٹے کی سن کے بھی چپ تھا باپ کی بے بسی نظر آئی
ساتھ رہتے ہیں درمیاں پھر بھی ایک دیوار سی نظر آئی
حسد سینوں میں لب پر مسکراہٹ بہت سوںکو ہنر یہ آگیا ہے
۱۵۹؍صفحات کی اس کتاب کی قیمت ۱۵۰؍روپئے ہے ۔شائقین اس کے حصول کیلئے اس
نمبر پر رابطہ کرسکتے ہیں ۔موبائل : 09325008277 |