26دسمبر کے بعد لیاری کے حوالے سے ایک اور ایونٹ کی نوید
آرٹس کونسل میں 26دسمبر کو ہی نازین بلوچ کی فلم’’لیاری اے پرزن ود آؤٹ
وال‘‘کی اسکریننگ کے اختتام پر وحید نور صاحب نے سنادی تھی ۔وحید نور صاحب
نے رمضان بلوچ کی کتاب ـ’’ لیاری کی ان کہی کہانی‘‘ کی تقریب رونمائی میں
شرکت کی دعوت بھی دی تھی۔ بے صبر ی سے 28 دسمبر کا انتظار ہماری قسمت میں
تھا ۔ یکے بعد دیگرے لیاری کے حوالے سے دوسرے ایونٹ میں شرکت کرنا باعث فخر
اور بے صبر رہا۔
پچھلی تقریب کی طرح اس تقریب میں بھی بانک پروین ناز اسٹال لگائے بیٹھی
تھیں پر اس بار ان کے اسٹال پر رمضان بلوچ صاحب کی کتاب رکھے ہوئے تھے ،،،ابھی
آگے بڑھے ہی تھے کہ پندرہ برس بعد علامہ اقبال ہائیر سیکنڈر ی اسکول میں
میٹرک کے اردو ٹیچر اور میری اردو کو اس مقام تک پہنچانے والے سر شبیر حسین
بلوچ کو دیکھ کر زبان کو چپ سے پڑگئی ان سے مل کر ان کا ہاتھ دونوں ہاتھوں
میں لیکر سینے کے قریب لائے اورکہا کہ سر میں امجد بلیدی آپ کا شاگرد رہ
چکا ہوں،،میری جانب دیکھ کر شبیر حسین بلوچ صاحب مسکرا دئیے اور کہا بیٹا
جانتا ہوں میرے تمام اسٹوڈنٹس اردو میں اپنا مقام بنا چکے ہیں چھوٹا سا قصہ
بیان کرتے ہوئے کہا کہ عمران بھی میرا ہی اسٹوڈنٹ ہے اب شاعر بھی ہوگیا ہے
یعنی استاد سے کو بھی پھلانگ گیا ہے اب ضمیر مطمئن ہے کہ میں نے اپنا فرض
ادا کردیاجو مجھے کرنا تھااب میرا کام مکمل ہوچکا ۔۔۔استاد و شاگرد کے
درمیان ابھی گفتگو کا سلسلہ جاری تھا کہ قابل احترام دوست شبیر رخشانی بھی
ہمارے درمیان آئے اوربعدازمصافحہ محو گفتگو ہوئے ۔
میری نظریں مسلسل بانک پروین ناز کے اسٹال پر رکھی کتابوں پر تھی جو بانک
250روپے کی رعائتی قیمت پر دے رہی تھی خیر جیب کا حال یہ تھا کہ صرف پانچ
سو بیس روپے اور مہینے کا آخری ہفتہ ۔۔۔۔کتاب لینی بھی تھی اور گھر کا
خیال تھا،،،اندر سے آواز آرہی تھی ’’لے لو‘‘ ،’’لےلو‘‘،،،کتاب لئے ہی
آگے بڑھا اور دوستوں سے ملنے کے بعد ایک کرسی پکڑ لی اور بیٹھ گئے۔
پروگرام کے باقاعدہ آغاز کا اعلان پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان نے کیا
اور تقریب کے مہمانوں کو ایک ایک کرکے اسٹیج پر بلانے لگے جن میں ڈاکٹر
ریاض شیخ،گل حسن کلمتی ،احمد اقبال بلوچ،جبار خٹک شامل تھے جب تمام مہمان
آچکے تو اصل مہمان کی نشاندہی کرتے ہوئے ایوب شیخ صاحب نے ڈاکٹر توصیف
احمد کو روکتے ہوئے کہا بھئی جن کی کتاب ہے ان کو تو آپ نے بلایا ہی
نہیں،،غلطی کی نشاندہی پر ڈاکٹر توصیف کی جانب سے جناب رمضان بلوچ کو بھی
بالآخر اسٹیج پر آنے کی دعوت دی گئی ۔تقریب کے دوران ایک کرسی خالی نظر
آئی جو معروف صحافی مظہر عباس کے آنے پر پُر ہوئی۔
تقریب کے پہلے مہمان احمد اقبال صاحب کو ڈاکٹر توصیف احمد خان نے آ کر
تقریر کی دعوت دی جن کے آتے ہی اذان مغرب کی صدائیں بلند ہوئیں ۔وش نیوز
کے اونر احمد اقبال صاحب نے لیاری پر اپنی رائے کا آغاز کا کرتے ہوئے کہا
کہ رمضان بلوچ ایک نہایت ہی نفیس شخصیت ہیں اورپھر مختلف زاویوں سے ان کے
شخصیت کی تعریف کی ۔
احمد اقبال کی تقریر کے بعد ایوب شیخ نے پہلے تو ڈاکٹر توصیف کے بھولنے کی
عادت پر روشنی ڈالی اور پھر ہمیں لیاری سے ان کے اپنے تجربے سے روشناس
کروایا ۔گل حسن کلمتی صاحب کی تقریر تنقیدی مگر معنی خیز اور سبق آموز بھی
تھی۔لیاری کے چیل چوک پر ان کا تبصرہ نہایت دلچسپ اور تاریخی رہا کہ کس طرح
نوالین میں اقبال کے شاہین سے مشابہت رکھنے والے چوک کو لیاری والوں نے چیل
چوک کا نام دیدیا اور اس شاہین کے ساتھ ہونا بھی یہی چاہیے تھااور جوہوا
اچھا ہوا۔انہوںنے جملہ مکمل ہی کیا تھا کہ شرکا اپنی ہنسی روک نہ پائے اور
قہقہوں سے ہال گونج اٹھا۔
مظہر عباس صاحب نے لیاری کی تعریف میں جو کچھ کہا وہ خود قابل تعریف ہے
انہوں نےکتاب پر رائے کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی پر تنقیدی نشتر بھی
چلائے۔تقریب میں پہلی بار سعدیہ بلوچ کو سننے کا موقع ملا انہوں نے رمضان
بلوچ کی کتاب پر اپنی رائے کاغذ پر درج صفحات پڑھ کرسنائے اور کتاب میں
خواتین کے کردار اور تاریخ میں ان کے اذکار میں کمی پر شکایتاً کہا کہ’’
ابھی عورتیں موجود ہیں خدارا انہیں گم نہ کیجئے۔‘‘سعدیہ بلوچ کی کتاب میں
عورت کے اذکار میں کمی مہمانوں نے انہیں اسٹیج پر ہی نشست پر بیٹھا کر پوری
کردی ۔
ڈاکٹر توصیف صاحب نے جب سحرانصاری کو اسٹیج پر آنے کی دعوت دی تو لمحے بھر
کی تاخیر پر شرکا کی نظریں سحر انصاری صاحب کو ڈھونڈنے میں لگ گئیں بالآخر
سحر انصاری آئے اور دلچسپ اور فکر انگیز گفتگو میں جہاں فیض احمدفیض کی
تشریف آوری ہوئی تو وہیں کچھ اور چہرے آئے اور چل دیئے سحر انصاری اپنی
گفتگوسے تقریب کو چار چاند لگا گئے۔سحر انصاری صاحب کو مظہر عباس کی جانب
سے ایک مرتبہ پھر خالی ہونے والی کرسی پر بٹھا دیا گیا۔
پروگرام کے ناظم اعلیٰ نے رمضا ن بلوچ کو آنے کی دعوت دی جنہوں نے آتے ہی
پہلے گل حسن کلمتی کے تنقیدی جملوں کو نہایت نفیس انداز میں جواب دیا پھر
اس کتاب کو تاریخی کتاب کی بجائے اپنی بیتی قرار دیا کہ یہ ایک عام آدمی
کی آپ بیتی ہے یوں تو ہم نے ان کو دوسری بار دیکھا تھا لیکن ایسا محسوس
ہوا کہ واقعی ایسے ہی شخصیات کے باعث لیاری میں شعور ابھی زندہ اور علم کا
عَلم ابھی تک بلند ہے۔ان کے بعد تقریب کے صدر جبار خٹک صاحب کو مدعو کیا
گیا جبار ختک کی باتیں سن کر جہاں ہماری معلومات میں کچھ اضافہ ہوا تو
وہیںگوادر کےپرانے رہائشیوں کا حال لیاری کے مکینوں کی طرح ہوتے ہوئے ہونے
کی پیشگو ئی بھی کی۔جہاں جبار خٹک صاحب نے اپنی تقریر میں لیاری کی حالت
زار کا رونا رویا تو بعض جگہ محتاط انداز سے پیپلز پارٹی کا دفاع بھی کرتے
ہوئے دکھائی دئیے اور ان کی تقریر کے ساتھ پروگرام اختتام پذیر ہوا
تقریب کے رمضان بلوچ کی تحریروں کا سن سن کر بالآخر کتاب خرید ہی لی اور
دوستوں کے ساتھ کچھ وقت بتانے کے بعد گھر آگئے۔
رمضان بلوچ صاحب کی کتاب ’’لیاری کی ان کہی کہانی‘‘ کی فہرست میں موضوعات
دیکھے تو یقین ہوگیا ڈھائی سو روپے کہیں نہیں گئے کتاب کے پیش لفظ میں
ڈاکٹر توصیف احمد خان کی تحریر نے پہلے تو ہمیں عرضداشت پڑھنے پر مجبور کیا
جو رمضان بلوچ صاحب کے اپنے ہی قلم سے تحریر تھا اور پھر ابتدائیہ میں
شطرنج کی بازیاں ،دس منٹ کی مہلت جیسی دلچسپ تحریر اور جھلستا ہوا شہر
پڑھتے پڑھتے 150 صفحات پر باب 16 کے ’’ایک بندہ کم ہے‘‘ پر بریک لگاکر یہ
کالم لکھنے پر مجبور ہوا۔
رمضان بلوچ کی تحریروں میں جہاں خود کو ان ہی گلیوں ،سڑکوں،محلوں میں پایا
تو وہیں ان کے ہم سفر بھی رہے ۔کتاب میں ’’انورٹڈ کوماز‘‘ کا اتنا اچھا اور
بہترین استعمال پہلی بار نظر سے گذرا ہے کہ جہاں خود کو ہدف تنقید کا نشانہ
بنایا تو وہیں ’’کوماز‘‘داغ دئیے یا جہاں طنز کے نشتر چلائے تو وہیں
’’انورٹڈ کوماز‘‘ سے گولہ باری کردی۔
کتاب میں مصنف نے آپ بیتی کا وہ انمول خزانہ قاری کیلئے کھول دیا ہے جس
میں نہ صرف لفظوں کے سمندر میں غوطہ زن ہوا جاسکتا ہے بلکہ لیاری کی تاریخ
اور شخصیات کا انبارایک ساتھ اور ایک وقت میں اس دلچسپ اور بہترین کتاب کی
صورت ہاتھ آگئی۔بانکڑوں کی بیٹھک تحریر میں جہاں خود کو ان کے ہمراہ پایا
تو بے چارے ادب دوست دلہے کی شاعری پر اپنی ہنسی ابھی تک روک نہ پایا ۔
رمضان بلوچ صاحب کی یہ کتاب نہ صرف لیاری میں بسنے والے نوجوانوں کے ساتھ
نہ صرف ملک کے طول و عرض بلکہ دنیا کے ہر اس قاری کیلئے لیاری کے حوالے سے
معلومات میں ایک بیش قیمت اور لازوال اضافہ ہے جس پر مصنف رمضان بلوچ
مبارکباد کے ساتھ ساتھ ’’بابائے تحریر لیاری‘‘کے خطاب کے حقدار بھی ہیں۔ |