عر بی کا مقو لہ ہے کہ وقت تلوار کی ما نند ہے اگر تم نے
اسے نہیں کا ٹا تو وہ ہے تمھیں کاٹ دے گی،،بے شک وقت کبھی نہیں تھمتا یہ
ایسا وسیلہ ہے جو آپ دوبارہ پیدا نہیں کر سکتے لیکن یہ وقت کیا ہے؟ محض
مہینے ، ہفتے ،دن ،رات کے جمع کا حاصل یعنی 365 دن سال کہلا تا ہے اور اسی
ماہ و سال کی گنتی میں جتنے پل ہم نے زندگی سے خوشی کشید کی خواہ وہ اپنے
لئے یا دوسروں کے لئے وہی ہمارا سر مایہ حیات ہے لیکن فینکلن کہتا ہے کہ
زندگی سے محبت کر تے ہو تو وقت کو ضا ئع نہ کروکیو نکہ وقت ہی زندگی ہے
لیکن ہم انسان بھی زندگی اپنی شرا ئط پر جیتے آئے ہیں خواہ کتنا ہی گھا ٹا
ہو جا ئے لاکھ نئے سال پر ہم عہدو پیماں با ندھیں ارا دہ کریں کہ وقت کی
قدر کریں گے اب بہت ساری کتا بیں پڑھنی ہے، مستقل مزاجی سے ورزش کرنا ،غصہ
کو قابو پا نا سیکھنا ہے ،قرآن کو تر جمے کے ساتھ پڑھنا وسمجھنا اور کوئی
نئی زبان سیکھنے کی کو شش کرنا شا مل ہے مگر اس کے ساتھ ہم کچھ نئے امکانات
کا بھی اضافہ کر سکتے ہیں تو اس بار ہم سب کیوں نا کچھ نئے ارادوں نئے
عہدکے ساتھ شروع کر یں جیسے ہم سو چ لیں کہ اپنے تما م ان ادھورے خوابوں
کوپورا کر نے کی کو شش کر یں گے جن کو دیکھتے ہما رے کئی ما ہ وسال گزر گئے
وقت ہمارے ہا تھ سے تیزی سے نکلتا جا رہاہے یہا ں بھی طلب اور رسدکا نظام
را ئج ہے وقت بہت کم اورکام اتنے زیا دہ کہ زندگی میں فرصت کے لمحات میسر
ہی نہیں ۔
اس سال میری کو شش ہو گی کہ میں تما م ان لو گوں سے ملوں جنھیں میں جاگتی
آنکھوں سے دیکھنا چا ہتی ہوں ان میں الطاف فا طمہ ،ڈا کٹر جمیل جا لبی اور
زا ہدہ حنا کے علا وہ ایک لمبی فہر ست ہے جن میں میرے دوستوں کے علاوہ وہ
عزیز و اقارب بھی شا مل ہیں جنھیں ملے زمانے ہو ئے حلا نکہ بچپن میں انہی
ہستیوں کا ہا تھ تھا مے چلنا سیکھا یا پھر دنیا داری و دین داری سیکھی ہو
سکتا ہے ان میں کچھ حیا ت نہ ہو مگر جوحیات ہیں ان سے ملا قات توکی جا سکتی
ہے کہ وہ بزرگ بھی تو ہما ری آمد کے منتظر رہتے ہوں گے مبادا ان کے چلے جا
نے کے بعد وہ کسک دل میں نہ ر ہے جو آپ ہم سب ہی محسو س کر تے ہیں۔مجھے یاد
ہے کچھ سال قبل میں اپنی بھا ئی کا شاد ی کا ر ڈ دینے اپنے ایک رشتے دار کے
گھرگئی یہ ملا قات اسکول لا ئف ختم ہو نے کے بعد اب ہو رہی تھی گھر کا مین
گیٹ کھلا تھا میں بے فکری سے داخل ہو گئی اندر جا کر لکڑی کے دروازے کا پاس
کھڑی ہو کر آواز لگا ئی کو ئی ہے تو جو اب میں قریب کے کمرے سے ایک خاتون
کی آواز آئی جو اپنی بہو سے کہ رہی تھی ’’دیکھو دروازے پر عینی آئی ہے ،،میں
ششدر رہ گئی کہ اتنے سالوں بعد بھی انھیں میری آواز کی پہچا ن رہی ہے وہ
اب(دادی) پیرا لائز تھیں ساتھ ہی ان کی بینا ئی بھی ختم ہو چکی تھی کا فی
دیر ان کے پاس بیٹھی با تیں کرتی رہی اور ان سے اس وعدہ کے ساتھ رخصت ہو ئی
تھی کہ دو با رہ بہت جلد آؤں گی لیکن افسوس زندگی کی مصروفیت میں نہ جا سکی
کچھ عر صے بعد ان کے انتقال کی خبر آئی تو بہت افسوس ہو ااوراب بھی اس ملال
کو بہت محسوس کر تی ہوں کاش میں چلی جا تی لیکن ! اب کیا ہو سکتا ہے سیانے
ٹھیک ہی کہتے ہیں جو بویا وہ کا ٹا!ہم خوداپنے بارے میں غورو فکر کر تے
ہوئے ہم حقا ئق کا زیادہ خیال نہیں رکھتے اپنی ذات سے مشکل سوالات نہیں
کرتے کہ ہم اپنی غلطیوں کے ذمہ دار ہیں اس سال اپنی ذات کا احتساب ہمیں خود
کر نا ہو گا ۔
ملکی سطح پر پورا سال پا نامہ لیکس کے حوالے سے عدلیہ موجودہ وزیر اعظم کاا
حتساب کرتے دکھا ئی دی اور بالآ خر وزیر صا حب کو نا اہل قرار دے دیا گیا
یہ اور بات ہے کہ ہما رے وزیر صا حب ا ب تک اپنی غلطی تسلیم کر نے سے
انکاری ہیں وزراء کی کا رکردگی کے حوالے سے دیکھا جا ئے تو بد ترین سال کے
طور پر یاد کیا جائے گا منتخب ارکان پارلیمینٹ تمام محنت اپنے وزیر کو صادق
و امین بنانے پر صرف کرتے رہے عوام کی فلاح پر کسی کا دھیان نہیں دیا گیاگز
شتہ سالوں کے حالات وواقعات مستقبل کے لئے چیلنج بن کر آتے ہیں ہم ایک قر ض
میں ڈو بی ہو ئی قوم ہیں ہما رے حکمرا نوں نے ہم پرا تنا قرض لاد دیا ہے کہ
آنے وا لی کئی نسلیں اس کے سود تلے گر وی ہو چکی ہے نو جوان نسل بیروزگا ری
، فکری بحران اور احتجا جی مزا ج کا شکار ہے سی این جی اور بجلی کی لو ڈ
شیڈنگ نے عام پا کستانی کو اقتصادی مشکلات کا شکاربنا ئے رکھا جس کی وجہ سے
ملک میں اسٹریٹ کرائم کے وا قعات میں اضا فہ ہوا سرکا ری محکموں سے عوامی
سطح تک بدعنوانی، چوری ، رشوت ستا نی ،سفارش اورکر پشن میں ریکا رڈ اضافہ
ہوا دہشت گر دی ، پانامہ لیکس اور دھرنوں کے گو رکھ دھندوں میں پورا سال
پھنسے رہے رہی سہی کسر سیاسی لیڈروں کی طنزآمیز بیا نات اور الزام بازیوں
نے پو ری کی سب نے ایک دوسرے کو مورد الزام بنانے میں سخت محنت کی ۔
ملک کے حالات خواہ کتنے ہی کیو ں نہ خراب ہوں بحیثت مسلمان ہمیں امیدکا
دامن نہیں چھوڑنا چا ہیے ہرسیا ہ رات کے بعد صبح کا اجالا ضرورہو تا ہے ان
تمام مشکلات کے باوجود عد لیہ اور فوج نے اپنا کردار باحسن و خوبی نبھا یا
پوری قو م نے متحد ہو کر دہشت گردی سے نمٹنے کا عزم کیا فوج کے دلیرانہ
فیصلوں کی بدولت ہم سب پر امید ہیں کہ نئے سال میں مثبت تبدیلی آنی شروع
ہوگی ملک جس کر ائسس سے گزر رہا ہے اس سے نکل کر اگلے سال کچھ اچھے حالات
ہما رے منتظرہوں گے پوری قوم نے ان ستر سالوں میں گرتے پڑتے بہت سبق سیکھا
ہے ہر آنے والے لیڈر نے سبز با غ دکھا کر قو م کی پشت پر وار کیا ہے بس ہم
اپنے بروٹس کو شا کی نظروں سے دیکھتے رہ گئے نئے انتخابات ہمارے منتظر ہیں
ہو سکتا ہے آنے والا سال ہمارے لئے ایک روشن پا کستان کی ضمانت ہو2018ء کا
سورج وقت کی لو ح پر بہت سارے نئے امکانات کے ساتھ طلوع ہو رہاہے کیو نکہ
وقت کبھی یو ٹرن نہیں لیتایہ آگے بڑھتے رہنے کا نام ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|