مثبت سوچ، مثبت عمل،بصیرت،اپنے آپ پر اعتماد، انداز
گفتگو،علم،مطالعہ،انصاف پسندی،راست بازی،جانچ اور پرکھ،وفاداری،ہمت و
حوصلہ،بھروسہ مندی،پہل کاری،قوتِ فیصلہ،قوت ارادی،برداشت, جوش و ولولہ،طرزِ
عمل جیسے کچھ الفاظ کو اگر یکجا کیا جائے توکسی بھی معاشرے کے انتہائی’’اہم
ترین فرد‘‘ کی تصویر سامنے آتی ہے، جو ’’معاشرہ‘‘ کے دیگر افراد کو کسی سمت
لے کر چلتے ہیں،سمت کا تعین’’معاشرتی سدھار‘‘ کہلاتا ہے۔معاشرتی سدھار والے
دستے کو مزید نکھارنے اور سنوارنے کے لئے کچھ ذمہ دار افراد اور ادارے
انتہائی خلوص نیت سے اپنے دائرہ کار میں سمٹے اپنا فرض ادا کرتے ہیں۔ایسے
ہی ادارے کی طرف سے’’ نوجوان نسل میں نئی لیڈرشپ’’ابھارنے‘‘ کے عنوان سے دو
دن پر مشتمل تربیتی ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا۔ وفاقی دارلحکومت اسلام آباد
میں فریڈم گیٹ پاکستان(ایف جی پی)اور’’فریڈرک نومین فاؤنڈیشن فار فریڈم
پاکستان‘‘(ایف این ایف) کے ہیڈ آف ایڈمنسٹریشن محمد انور جو لبرل فورم
پاکستان کے روح رواں بھی ہیں کی دعوت پر ہمیں بھی نوجوانوں میں نئی
لیڈرشپ’’ابھارنے‘‘ کے حوالے سے ہونے والی ورکشاپ میں شرکت کا موقع
ملا۔فریڈم گیٹ پاکستان(ایف جی پی)نے’’فریڈرک نومین فاؤنڈیشن فار فریڈم
پاکستان‘‘(ایف این ایف) کے اشتراک سے پروگرام ترتیب دیا تھا۔عالمی شہرت کے
حامل جرمن لبرل سیاست دان فریڈرک نومین(25مارچ1860 کوپیدا ہوئے
اور24اگست1919 کو انتقال کیا) کے نام پر مذکورہ ادارہ اور فری ڈیموکریٹک
پارٹی کی شکل میں سامنے آیا۔ادارے کی طرف سے پاکستانی معاشرے کے سماجی و
سیاسی سدھار پر خدمات کے حوالے اپنے ایک دوسرے کالم میں آپ کی خدمت میں
حاضر ہونگا تاہم آج ’’ نوجوانوں میں نئی لیڈرشپ’’ابھارنے‘‘ کے حوالے سے
ہونے والی ورکشاپ کے چیدہ چیدہ نکات پر بات ہوگی۔ فریڈرک نومین فاؤنڈیشن
فار فریڈم پاکستان کے ہیڈ آف ایڈمنسٹریشن محمد انورنے ادارے کے اغراض و
مقاصد کے ساتھ ساتھ ورکشاپ کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ معروف
ٹرینرجو انڈویجویل لینڈ پاکستان کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر گل مینہ بلال احمد
بھی ہیں’’ ورکشاپ کو معتدل بنانے‘‘ میں آپ کی معاونت کار ہونگی جبکہ ورکشاپ
کوآرڈینٹر کے طور پر میں بھی ان کے ہمراہ ہوں۔شرکاء کو ابتدائی گفتگو میں
انہوں نے بتایا کہ فریڈرک نومین فاؤنڈیشن1986 سے پُر امن اور تیز سماجی و
سیاسی ترقی کرتے پاکستان کیلئے کام کر رہی ہے۔جرمنی کا یہ بلا منافع ادارہ
پاکستانیوں کے ساتھ اشتراک عمل کے ذریعے انسانی اور شہری حقوق،لبرل
جمہوریت،قانون کی بالادستی اور اچھا نظام حکمرانی،آزاد منڈیوں کی
معیشت،تنازعات کے پرامن حل کے انتظامات اور موسمیاتی تبدیلی جیسے عوامل پر
پائیدار اور مثبت اثرات مرتب کرنے میں مدد کرتا ہے۔محمد انور نے بتایا کہ
جدید ٹیکنالوجی کے معاونت کار ’’وٹس اپ‘‘ کی شکل میں شرکاء کا گروپ بنایا
گیا ہے جس میں ورکشاپ سے متعلقہ تصاویر شیئر کی جائیں گی تاہم اگر کسی کو
اعتراض ہو تو اس کی تصویر کو عام نہیں کیا جائے گا۔ فریڈرک نومین فاؤنڈیشن
فار فریڈم پاکستان کے ہیڈ آف ایڈمنسٹریشن محمد انور کے مطابق ورکشا پ کا
مقصد ایسی نوجوان لیڈرشپ تیارکرنا ہے جس میں قیادت کے بہترین اوصاف موجود
ہوں جبکہ’’ تقسیم کرو اور حکمرانی کرو‘‘جیسے سیاسی فلسفہ پر یقین رکھنے
والے سیاستدانوں کے فرسودہ خیالات کو دفن کرنا ہوگا۔ایسے افراد نے ’’ تقسیم
کرو اور حکمرانی کرو‘‘ کے فلسفہ کے تحت قوم کو مذہب، زبان اور علاقائی
تعصبات میں مبتلا کرکے نفرت کے بیج بوئے ہیں۔فریڈرک نومین فاؤنڈیشن پاکستان
تمام مذاہب،اقوام ،علاقوں اور زبانوں کے افراد کو برابری کے حقوق کی بات
کرتی ہے۔ہمیں مذہبی،لسانی اور علاقائی تعصبات سے بالا تر ہو کر پاکستان کی
تعمیروترقی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ورکشاپ کے ابتدائی حصہ میں معروف
ٹرینر اور پروگرام کو معتدل بنانے میں معاونت کار انڈویجویل لینڈ پاکستان
کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر گل مینہ بلال احمد نے تعارفی نشست کو الگ پہچان دی
اور روایتی انداز سے ہٹ کرشخصی تعارف کے نئے زاویے پر بات اور عملی مشق
کرائی۔ویسے تو ورکشاپ شیڈول کے مطابق پرابلم میپینگ،کمیونی کیشن
ٹولز،کمیونی کیشن کی اہمیت،کارکیٹینگ آڈیالوجی جیسے موضوعات سامنے تھے تاہم
عالمی شہرت کی حامل گل مینہ بلال احمد نے’’ تربیت کی عملی مہارتوں‘‘ کا
فارمولہ اپناتے ہوئے مذکورہ موضوعات کو دو دنوں میں انتہائی مثبت انداز میں
ممکن بنایا۔ورکشاپ میں سینئر و متحرک ،قد آور سیاست دان سنیٹر محسن لغاری
نے ملکی و سیاسی حالات پر شرکاء سے گفتگو کی جو ’’مکالمہ‘‘ کی شکل اختیار
کرتے ہوئے انتہائی خوبصورت سیشن میں میں تبدیل ہوگئی،انہوں نے بتایا کہ
’’اچھائی سب سے بڑا نعام ہے‘‘ اور سیاست کی اصل روح’’ عبادت‘‘ ہے تاہم
سیاست کو’’ذاتی مفادات‘‘ کیلئے استعمال کرنے والوں نے اس کی روح کو گھائل
کر رکھا ہے۔نوجوان کو خود آگے بڑھکر ’’ووٹرز‘‘ کو ووٹ کی اہمیت بارے آگاہ
کرنا ہوگا،آج پاکستان میں ووٹرز کا اپنا حق درست انداز میں استعمال نہ کرنا
اور انتخاب کیلئے خود کو پیش نہ کرنا بھی بڑے مسائل ہیں۔ محسن لغاری نے کہا
کہ میرے لیے اس پروگرام میں شرکت یقینی طور پر اعزاز کا باعث ہے جس کیلئے
میں محمد انور، ایف این ایف کا انتہائی دل سے شکرگزار ہوں تاہم انہوں نے اس
ورکشاپ کے اس سیشن سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ورکشاپ کیونکہ ’’ نوجوان لیڈرز میں
نئی لیڈرشپ’’ابھارنے‘‘ کے حوالے سے تھی لہذااس میں لیڈرز بننے ، بنانے یا
لیڈزر کو پالش کرکے’’لیڈر شپ‘‘کے آداب سیکھانے کے حوالے سے ہی بات چیت و
عملی تربیت کے سیشن ہوئے۔ ورکشاپ کے اختتامی حصہ میں فریڈرک نومین فاؤنڈیشن
فار فریڈم پاکستان کی کنٹری ہیڈ ڈاکٹر الموٹ بیزولڈ نے شرکاء ورکشاپ میں
تعریفی سرٹیفیکیٹ تقسیم کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان سمیت پوری دنیا کا مستقبل
نوجوانوں سے ہی وابستہ ہے۔ پاکستان کی نوجوان نسل انتہائی باصلاحیت ہے۔ وہ
دن دور نہیں جب پاکستان میں با صلاحیت اور پرامن نوجوان بہتر انتظامی اور
سیاسی اصلاحات لیکر آئیں گے سب کو برابری کی بنا پر تمام بنیادی حقوق حاصل
ہوں گے۔میں بطور شریک ممبر ورکشاپ فریڈرک نومین فاؤنڈیشن فار فریڈم پاکستان
کی انتظامیہ ،محمد انور،گل مینہ بلال احمد سمیت تمام شرکاء کا ممنون ہوں کہ
ان کی ہمراہی میں معاشرے کیلئے مثبت سوچ بیدار کرنے کی عملی ہنر سازی
ورکشاپ کا حصہ بنا۔قارئین محترملبرل ازم سیاسی ، سماجی ، اور معاشی تصورات
کا ایسا مجموعہ ہے جس کی بنیاد شخصی آزادی ، انصاف ،اور مساوات پر قائم ہے،
تمام افراد کو بلا تفریق یہ حق حاصل ہے کہ وہ ریاست کے سیاسی انتظام کے لئے
اہل قیادت منتخب کر سکیں ،اسی اہل قیادت کو لیڈر اور اس کی عمل مہارت کو
لیڈر شپ کہتے ہیں۔ لیڈر کی سوچ وسیع ہونی چاہئے تاکہ وہ مستقبل کو مدنظر
رکھتے ہوئے اہداف کا تعین کر سکے اور اس کی بدولت اس کی ٹیم درست سمت پر
اور قابل اطمینان رفتار پر نمو پائے۔ایک لیڈر کی حیثیت سے آپ کو چاہئے کہ
منفی غصے کا مظاہرہ کرنے یا اپنے کارکن یا رفقاء کی ذات پر حملے کرنے سے
گریز کریں۔یہ یاد رکھیں کہ مینجمنٹ اور چیز ہوتی ہے اور لیڈر شپ اور چیز۔
مینجمنٹ میں بجٹ بنانے اور کوئی خاص نتیجہ برآمد کرنے جیسے انتظامی کام
شامل ہوتے ہیں۔ لیڈرشپ مینجمنٹ کا ایک حصہ ہے جس میں یہ طے پاتا ہے کہ آپ
اپنے ساتھیوں سے ابلاغ کیسے کرتے ہیں۔ آج دنیا کے تمام آئینوں کی بنیاد
معاشی، معاشرتی اور سیاسی انصاف پر رکھی جاتی ہے۔ لہٰذا معاشرے کے لیڈروں
سے بھی انصاف کی فراہمی کے لئے ہرممکن کوشش کرنے کی توقع رکھی جاتی ہے۔
ہمیں اس بات پر یقین ہونا چاہئے کہ نوجوان نسل آج کی لیڈر ہے اور ان لوگوں
کی مخالفت کی جانی چاہئے جو یہ بات دہراتے رہتے ہیں کہ نوجوان نسل آنے والے
کل کی لیڈر ہے اور ایسا کہہ کے وہ نوجوانوں کی لیڈرشپ کو پس منظر میں دھکیل
دیتے ہیں |