کلبھوشن یادیو بھارت کے اُس جاسوس کا نام ہے جو انڈین
نیوی کا حاضر سروس کمانڈر ہے بلوچستان سے پکڑا گیا، مبارک حسین پٹیل کے نام
سے سفری دستاویزات پر سفر کر رہا تھا، اس نے خود اقرار کیا اور بغیر کسی
تشدد اور مارپیٹ کے اقرار کیاکہ وہ بھارت کا حاضر سروس نیوی افسر ہے، اُس
نے ایران کے شہر چاہ بہار میں اپنا جعلی کاروبار 2003 میں شروع کیا، دراصل
وہ 2003 سے’’ را ‘‘کے لیے کام کر رہا ہے ، اُس نے بھارت میں بھی کچھ
کاروائیاں کی، وہ 2003 اور2004 میں بھی کراچی آیا، اُسے 2013 میں ’’را‘‘ نے
بلوچستان اور کراچی میں تخریبی کاروائیوں کے لیے منتخب کیا، اُس نے بتایا
کہ اُس کو استعمال کرنے کی ذمہ داری ’’را‘‘ کے جائنٹ سیکریٹری انیل گپتا کی
تھی، اُس نے کہا کہ اس کا کام بلوچ علحدگی پسندوں اور شرپسندوں کے ساتھ مل
کر تخریبی اور مجرمانہ کاروائیاں کرنا تھا ،جن میں بدامنی پیدا کرنا اور
پاکستانیوں شہریوں کا قتل شامل تھا۔ اُس نے اپنے بیان میں یہ بھی بتایا کہ
اُس کے ذمے بلوچستان کے ساحلی علاقوں گوادر ،جیوانی اورپسنی میں تخریب کاری
کرنا تھی اور علحدگی کی تحریکوں کے کارندوں ساتھ مل کر دہشت گردی کرنا تھی،
اُس کو بلوچ طلبہ تنظیموں کے ساتھ رابطے کر کے انہیں استعمال کرتے ہوئے شدت
پسند کاروائیاں بھی کرنا تھیں اُس نے یہ بھی کہا کہ اپنی اس ڈیوٹی کے دوران
اُس پر انکشاف ہوا کہ’’ را ‘‘اِن بلوچ علحدگی پسندوں کو مالی مدد فراہم
کرتا ہے اُس نے یہ بھی بتایا کہ اس بار اُسے بلوچستان کے علاقے سار وان سے
سرحد پار کروائی جانی تھی جب 3 مارچ 2016 کو اسے پاکستانی ایجنسیوں نے
گرفتار کر لیا۔ اُس نے یہ اقرار کیا کہ اُس نے یہ بیان بغیر کسی دباؤ اور
تشدد کے دیا ہے کیونکہ وہ اور اُس کا خاندان چودہ سال سے جس مسئلے سے گزر
رہا ہے وہ اس کا خاتمہ چاہ رہا ہے ۔ اُس نے اس بات کا اقرار کیا کہ جب اُس
نے اپنی گرفتاری پر پاکستانی حکام کو بتایا کہ وہ حاضر سروس نیول افسر ہے
تو اُسے ایک افسر کا ہی پروٹوکول دیا گیا نہ سختی کی گئی نہ تشدد کیا گیا
اور وہ اپنا یہ اعترافی بیان اپنی مرضی سے دے رہا ہے۔ یہ وہ اہم نکات تھے
جو بھارتی جاسوس دہشت گرد کلبھوشن یادیو نے اپنے اقراری بیان میں شامل کئے۔
اس پہلے بیان کے بعد اس نے اپنے دوسرے بیان میں یہ بھی بتایا کہ اس بار اُس
نے ’’را‘‘ کے تیس سے چالیس کارندوں کو سرحد پار کرانی تھی جنہوں نے بلوچ
علحدگی پسندوں کے ساتھ مل کر تخریبی ، مجرمانہ اور قتل و دہشت گردی کی
کاروائیاں کرنا تھیں۔ یہ ہے کلبھوشن جس نے واضح اور صاف طور پر اقرار کیا
کہ وہ بھارتی جاسوس ہے اس نے دہشت گردی، تخریب کاری، جرائم اور قتل جیسے
واقعات کرائے ہیں اب کیا اس سب کچھ کے باوجود اُسے معاف کیا جائے یا اُسے
پھولوں کے ہار پہنائے جائیں۔ انہی جرائم کی سزا میں اُسے پاکستان کی فوجی
عدالت نے سزائے موت سنائی۔ اسی کلبھوشن کے پکڑے جانے پر بھارت پہلے اُس سے
کسی تعلق سے انکاری تھا پھر اُس نے اُسے ریٹائرڈ نیوی افسر بتایا جب معاملہ
کسی طرح سیٹ نہ ہو سکا تو بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے اُسے بھارت کا
بیٹا قرار دے دیا اور اُس کی رہائی کے لیے ہر ممکن کوشش کا اعلان کیا۔بھارت
اُس کی سزائے موت کا سنتے ہی دوڑتا ہوا عالمی عدالت انصاف میں پہنچا اُسی
کلبھوشن کے لیے جس کو اُس نے اپنا آدمی ماننے سے ہی انکار کیا تھا، اگرچہ
اس عدالت نے اپنے قیام سے اب تک کسی جاسوس کو سزائے موت نہیں سنائی سو اب
بھی اس سے کسی جراتمندانہ فیصلے کی توقع نہیں لیکن اُسے کلبھوشن کے اقراری
بیان کو سامنے رکھنا ہوگا جس میں اُس نے اپنی مجرمانہ کاروائیوں، بدامنی
پھیلانے اور قتل و دہشت گردی کا خود اعتراف کیا۔ اُس نے مانا کہ اُس نے ایف
ڈبلیو او کے کارکنوں پر حملے کیے تاکہ ’’سی پیک‘‘ کو نقصان پہنچایا جائے۔
بارودی سرنگوں کو بچھا کر تباہی مچانا، فرقہ وارانہ فسادات، سوئی پائپ
لائن، مہران بیس حملہ ، شعیہ ہزارہ برادری کے قتل کے واقعات میں ’’را‘‘ اور
انیل گپتا یعنی اس کے ہدایت کار کے ملوث ہونے اور کئی پاکستانیوں کی شہادت
خود اس کے اعتراف جرم ہیں لہٰذا اُسے جاسوس کے ساتھ ساتھ قاتل کی حیثیت سے
بھی دیکھنا ہوگا اور ان تمام جرائم کی سزا بھی دینا ہوگی ،پاکستانی اُسے
اسی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اپنے ان جرائم کے لیے اب وہ معافی مانگ رہا ہے لیکن
خون کا حساب ضروری ہے تاکہ کوئی اور دشمن یوں آکر پاکستانیوں کے خون سے
ہولی سے نہ کھیلے ۔ پاکستان نے اِن تمام جرائم کے باوجود اس کے ساتھ
انتہائی مہذب رویہ رکھا ہوا ہے یہاں تک کہ انتہائی فراخ دلی کا ثبوت دیتے
ہوئے اس کی ماں اور بیوی کو اس سے ملنے کی اجازت بھی دی ۔25 دسمبر2017 کو
یہ دونوں خواتین پاکستان آئیں اور کلبھوشن سے ملاقات کی اور ایسا انسانی
ہمدردی کی وجہ سے کیا گیا اگرچہ اس کے جرائم کی فہرست اور نوعیت کے پیش نظر
وہ اس سلوک کا ہر گز مستحق نہیں تھا لیکن پاکستان کے اس’’ ضرورت سے زیادہ‘‘
حسنِ سلوک پر بھی بھارت کا میڈیا چیخ اٹھا، دراصل ان پر کھیسانی بلی کھمبا
نوچے والی مثل صادق آرہی ہے۔ بھارت کا یہ خیال تھا کہ پاکستان اس ملاقات کی
اجازت نہیں دے گا لیکن ایسا ہو گیا، دونوں خواتین آئیں اور اپنے بیٹے اور
شوہر سے ملاقات کی جس میں انٹر کام پر اُن کی گفتگو ہوئی خواتین کو لباس
تبدیل کروایا گیا اُن کے زیورات وغیرہ اُتروائے گئے یہ تمام احتیاطی تدابیر
اختیار کرنا انتہائی ضروری تھا کیونکہ بین الاقوامی مجرم جو دوسرے ملک میں
جرائم کا اقرار کر چکا ہے سے اس کے اہل خانہ کی ملاقات تھی اور یہ خواتین
دشمن ملک سے تشریف لائی تھیں ایک ایسے دشمن ملک سے جو ہر طرف سے پاکستان پر
حملہ آور ہے، جو فاٹا سے لے کر بلوچستان تک دخل اندازی کر رہا ہے اپنے لوگ
پاکستان میں داخل کر کے ان سے تخریب کاری کرواتا ہے تو کیا وہ اس ملاقات سے
کوئی خوفناک مقصد حاصل کرنے کی کوشش نہیں کر سکتا تھا ۔ایک خاتون جو اپنے
شوہر سے ملنے آرہی ہے جس کو پھانسی کی سزا سنائی جا چکی ہے اُس کے اتنی
اونچی ایڑی کا جوتا پہننے کی آخر کیا تک ہے لیکن کلبھوشن کی بیوی نے ایسا
کیا لہٰذا اُس کے جوتے تبدیل کروائے گئے اور اس شک کی بنا پر اتارے گئے کہ
اُس میں دھات کی لگی ہوئی چیز کوئی ’’چپ‘‘ تو نہیں۔ خیر یہ حقیقت تو سامنے
آجائے گی لیکن بھارت کے میڈیا نے ان تمام اقدامات کو جس طرح پیش کیا وہ اس
کی ذہنیت کی عکاس ہے ۔ اگر اِن جاہلوں کا یہ خیال تھا کہ اُن کی بھیجی ہوئی
خواتین کو اصلی حالت میں ملاقات کروائی جاتی تو انہیں اپنا نفسیاتی علاج
کرالینا چاہیے۔ انہوں نے ایک اعتراض یہ بھی کیا کہ اُس کی ماں کو قاتل کی
ماں کہا گیا تو یہ تو اُن مقتولوں کی ماؤں سے پوچھیں جن کے بے گناہ بیٹے اس
گناہ گار کا شکار بنے ان کا حساب تو اس کی طرف کہیں زیادہ ہے اُن سب کا
اگرفرداََ فرداََبدلہ لیا جائے تو کلبھوشن کئی بار سزا یافتہ ہوگا ۔
کلبھوشن پاکستان میں پکڑا گیا بھارت کا جاسوس ہے جس نے اقرار جرم کیا ہوا
ہے لیکن پھر بھی پاکستان نے اُسے اپنی ماں اور بیوی سے ملوایا جس پر بھارت
اور بھارتی میڈیا ناراض ہیں یہ وہی بھارت ہے جو مشال یٰسین بٹ کو اپنے شوہر
سے ملنے نہیں دے رہا جبکہ وہ جاسوس اور مجرم نہیں اپنی آزادی کے لیے لڑتا
ہوا ایک لیڈر ہے ،یہی بھارت تھا جس نے افضل گرو جس پر بھارت کی عدالت بھی
جرم ثابت نہیں کر سکی کو اس کے خاندان سے ملوائے بغیر پھانسی دی ۔ اسی
بھارت نے 1965 کے جنگی قیدی مقبول حسین کو چالیس سال تک مختلف بھارتی جیلوں
میں رکھا اور ہر قسم کا ظلم اُس پرروا رکھا گیا اور 2005 میں قیدیوں کے
تبادلے میں جب اُسے پاکستان کے حوالے کیا گیا تو اُس کی زبان تک کاٹی جا
چکی تھی اب جو بھارت جاسوس کلبھوشن کے لیے جنگی قیدیوں کے لیے وہاناکنونشن
کا حوالہ دے رہا ہے اُسے اُس وقت یہ بین الاقوامی معاہدے ہر گز یاد نہ تھے
اور اُسے اب یہ یاد نہیں کہ کلبھوشن جنگی قیدی نہیں ایک جاسوس، تخریب کار
اور دہشت گرد ہے لہٰذا اُسے کم از کم اپنے ان اقرار شدہ جرائم کی سزا ملنا
ضروری ہے بھارتی میڈیا اور حکومت کو اپنے اس مجرم کے لیے بولنے سے پہلے
اپنی تاریخ پر ضرور نظر دوڑا لینی چاہیے جس کی صرف چند ایک مثالیں میں نے
اوپر بیان کی ہیں ۔ کلبھوشن قتل اور دہشت گردی کا مجرم ہے لہٰذا قابل سزا
ہے اور اُسکی سزا پر عملدرآمد ہر صورت ہونا چاہیے کسی قوم کا اپنے جاسوس کو
چھوڑ دینا ایسے مزید لوگوں کو جاسوسی کی دعوت دینا ہے اور پاکستان ہو یا
کوئی بھی ملک وہ ایسا ہر گز برداشت نہیں کر سکتا ہے لہٰذا کلبھوشن کو اپنے
جرائم کی سزا ضرور اور جلد از جلد ملنا ضروری ہے تاکہ وہ دوسروں کو عبرت
حاصل ہو۔ |