(27) اِمام ملا علی بن سلطان
محمد القاری رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 1014ھ) :-
اِمام ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب مرقاۃ شرح مشکاۃ میں بدعت کی
اقسام اور ان کی تفصیلات نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
34. قال الشيخ عزالدين بن عبدالسلام في آخر کتاب القواعد البدعة أما واجبة
کتعلم النحو لفهم کلام اﷲ و رسوله و کتدوين اصول الفقه و الکلام في الجرح و
التعديل، وأما محرمة کمذهب الجبرية والقدرية والمرجئة والمجسمة والرد علي
هؤلاء من البدع الواجبة لأن حفظ الشريعة من هذه البدع فرض کفاية، و أما
مندوبة کاحداث الربط والمدارس وکل إحسان لم يعهد في الصدر الأول و
کالتراويح أي بالجماعة العامة و الکلام في دقائق الصوفية. و أما مکروهة
کزخرفة المساجد و تزويق المصاحف يعني عند الشافعية و أما عند الحنفية فمباح،
وأما مباحة کالمصافحة عقيب الصبح والعصر أي عند الشافعية ايضًا وإلا فعند
الحنفية مکروه والتوسع في لذائذ الماکل والمشارب والمساکن وتوسيع الاکمام.
’’شيخ عزالدین بن عبد السلام ’’القواعد البدعۃ‘‘ کے آخر میں فرماتے ہیں۔
بدعت واجبہ میں قرآن اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلام کو سمجھنے
کے لیے نحو کا سیکھنا، اصول فقہ کی تدوین کرنا اور علم جرح و التعدیل کا
حاصل کرنا ہے، جبکہ بدعت محرمہ میں نئے مذاہب کا وجود ہے جیسے جبریہ، قدریہ،
مرجئہ اور مجسمہ اور ان تمام کا رد بدعت واجبہ سے کیا جائے گا۔ کیوں کہ اسی
بدعت سے شریعت کی حفاظت کرنا فرض کفایہ ہے، جبکہ بدعت مندوبہ میں سرائے اور
مدارس کا قیام اور ہر قسم کی نیکی کا فروغ جو اسلام کے ابتدائی دور میں نہ
تھی جیسے باجماعت نماز تراویح اور تصوف کے پیچیدہ نکات و رموز پر گفتگو
کرنا شامل ہیں۔
بدعت مکروھہ میں شوافع کے ہاں مساجد اور قرآن کی تزئین و آرائش کرنا ہے
جبکہ احناف کے ہاں یہ مباح ہے، اور بدعت مباحہ میں شوافع کے ہاں فجر اور
عصر کے بعد مصافحہ کرنا اور احناف کے نزدیک یہ مکروہ ہے اور اسی طرح لذیذ
کھانے، پینے اور گھروں اور آستینوں کو وسیع کرنا (بھی بدعت مباحہ )میں شامل
ہے۔‘‘
1. ملا علي قاري، مرقاة شرح مشکوٰة، 1 : 216
کل بدعۃ ضلالۃ کی شرح
1. اِمام ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ (متوفی، 1014ھ) حدیث مبارکہ ’’کل
بدعۃ ضلالۃ‘‘ کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
35. أي کل بدعة سيئة ضلالة، لقوله عليه الصلوة والسلام ’’من سنّ في الاسلام
سنّة حسنة فله اجرها و أجر من عمل بها‘‘(1) و جمع أبوبکر و عمر القرآن و
کتبه زيد في المصحف و جدد في عهد عثمان رضی الله عنهم.(2)
’’یعنی ہر بری بدعت گمراہی ہے۔ کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا
ارشاد ہے ’’ جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ ایجاد کیا تو اس کو اس عمل کا
اور اس پر عمل کرنے والے کا اجر ملے گا۔‘‘ اور یہ کہ حضرت شیخین ابوبکر رضی
اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ نے قرآن کریم کو جمع کیا اور حصرت زید رضی
اللہ عنہ نے اس کو صحیفہ میں لکھا اور عہد عثمانی میں اس کی تجدید کی
گئی۔‘‘
1.
1. مسلم، الصحيح، 2 : 705، کتاب الزکوٰة، باب الحث علي الصدقه، رقم : 1017
2. نسائي، السنن، 5 : 55، 56، کتاب الزکاة، باب التحريض علي الصدقه، رقم :
2554
3. ابن ماجه، السنن، 1 : 74، مقدمة، باب سن سنة حسنة أو سيئة، رقم : 203
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 357. 359
2.
ملا علي قاري، مرقاة، شرح مشکاة، 1 : 216
2. اِمام ابن حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی، 976ھ) اِسی حدیث کی وضاحت
کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
36. و في الحديث کل بدعة ضلالة و کل ضلالة في النار(1) و هو محمول علي
المحرمة لا غير. (2)
’’اور جو حدیث میں ہے کہ ’’ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے
جائے گی‘‘ اس حدیث کو بدعت محرمہ پر محمول کیا گیا ہے، اس کے علاوہ اور کسی
پر نہیں۔‘‘
1. ابوداؤد، السنن، 4 : 200، کتاب السنة، باب في لزوم السنة، رقم : 4607
2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 44، کتاب العلم، باب ما جاء في الأخذ بالسنة،
رقم : 2676
3. ابن ماجه، السنن، مقدمه، باب اتباع السنة الخلفاء الراشدين، 1 : 15، رقم
: 42
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 126
5. ابن حبان، الصحيح، 1 : 178، رقم : 5
6. طبراني، مسند الشاميين، 1 : 446، رقم : 786
7. طبراني، المعجم الکبير، 18 : 249، رقم : 624
(3) ابن حجر مکي، الفتاوي الحديثيه : 130
(28) الشيخ عبد الحميد الشرواني رحمۃ اللہ عليہ (ھ) :-
علامہ شیخ عبد الحمید الشروانی اپنی کتاب ’’حواشی الشروانی‘‘ میں بدعت کا
حکم اور اس کی تفصیلات نقل کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں :
37. (قوله لا نکفره ببدعته) قال الزرکشي و لا نفسقه بها (فائدة) قال ابن
عبد السلام البدعة منقسمة إلي واجبة و محرمة و مندوبة و مکروهة و مباحة قال
والطريق في ذلک أن تعرض البدعة علي قواعد الشريعة فان دخلت في قواعد
الإيجاب فهي واجبة کالاشتغال بعلم النحو أو في قواعد التحريم فمحرمة کمذهب
القدرية والمرجئة والمجسمة والرافضة قال والرد علي هؤلاء من البدع الواجبة
أي لان المبتدع من أحدث في الشريعة ما لم يکن في عهده صلي اﷲ عليه وسلم أو
في قواعد المندوب فمندوبة کبناء الربط والمدارس و کل إحسان لم يحدث في
العصر الأول کصلاة التراويح أو في قواعد المکروه فمکروهة کزخرفة المساجد و
تزويق المصاحف أو في قواعد المباح فمباحة کالمصافحة عقب الصبح و العصر
والتوسع في المأکل و الملابس وروي البيهقي بإسناده في مناقب الشافعي رضي
الله عنه أنه قال المحدثات ضربان أحدهما ما خالف کتابا أوسنة أو اجماعا فهو
بدعة و ضلالة و الثاني ما أحدث من الخير فهو غير مذموم.
’’شارح علامہ عبدالحمید الشروانی مبتدع کے بارے میں مؤلف کی عبارت ’’لا
نکفرہ ببدعہ‘‘ اور امام زرکشی کے الفاظ ’’ولا نفسقہ بھا‘‘ کے حوالے سے بدعت
کی تقسیم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ عزالدین بن عبدالسلام نے کہا ہے کہ
بدعت واجبہ، محرمہ، مندوبہ، مکروھۃ اور محرمہ کے تحت تقسیم ہوتی ہے اور
انہوں نے کہا اس کا طریقہ یہ ہے کہ بدعت کو قواعد شریعت کے مطابق پرکھا
جائے گا۔ اگر وہ وجوب کے قواعد میں داخل ہوئی تو وہ بدعت واجبہ ہو گی جیسے
علم النحو کے حصول میں مشعول ہونا یا وہ بدعت قواعد تحریم میں داخل ہو گی
تو پھر وہ بدعت محرمہ ہو گی جیسے مذہب قدریہ، مرجئہ، مجسمہ اور رافضہ (کا
بنانا بدعت محرمہ) ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان تمام (باطل مذاہب) کا رد کرنا
بدعت واجبہ میں سے ہے کیونکہ مبتدع (بدعتی) نے شرعیت میں ایسی چیز ایجاد کی
ہے جو کہ حضور علیہ السلام کے زمانے میں نہ تھی یا پھر وہ مستحب کے قواعد
میں داخل ہو گئی تو وہ بدعت مستحبہ ہو گی جیسے سرائے اور مدارس وغیرہ تعمیر
کرنا اور ہر وہ اچھی چیز جو پہلے زمانے میں ایجاد نہیں ہوئی ہو جیسے نماز
تراویح وغیرہ یا پھر وہ قواعد مکروہ میں داخل ہو گی تو وہ بدعت مکروہہ ہو
گی جیسے مسجدوں کی تزئین اور مصاحف پر نقش نگار کرنا یا وہ قواعد مباح میں
داخل ہو گی تو وہ چیز مباح کہلائے گی جیسے (نماز) فجر اور عصر کے بعد
مصافحہ کرنا، کھانے پینے میں وسعت (اختیار) کرنا اور اسی طرح امام بیہقی نے
اپنی سند کے ساتھ مناقب شافعی میں بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ محدثات کی دو
قسمیں ہیں ان میں سے ایک وہ جو کتاب و سنت یا اجماع کے مخالف ہے وہی بدعت
ضلالہ ہے اور دوسری وہ جو خیر میں سے ہو پس وہی پسندیدہ ہے۔‘‘
شرواني، حواشي الشرواني، 10 : 235
جاری ہے۔۔۔ |