خالقِ کائنات کی عطائے خا ص ہو چکی تھی بلھے شاہ ؒکے با
طن میں دبی ہو ئی آتش عشق کی چنگا ری جلتے ہو ئے شعلے کا روپ دھار کر بلھے
شاہ ؒ کے پور پور کو اپنی لپیٹ میں لے چکی تھی آتش ِ عشق نے جسمانی کثافتوں
کو راکھ میں بدل ڈالا ‘آتش عشق نے امر بیل کی طرح بلھے شاہ ؒ کو جکڑ لیا
تھا حضرت بلھے شاہؒ عشق کا زندہ نمو نہ تھے اور عشق کبھی پر سکون نہیں ہو
تا وہ تو سمندری لہروں کی طرح خو د بھی متلا طم ہوتا ہے اور دوسروں کو بھی
اضطراب سے نوازتا ہے عیش و عشرت کے رنگ پھیکے پڑ گئے ۔ مرشد روحا نی کی
تلاش کی آگ سے سینہ سلگتا رہتا ۔ اضطراب بے چینی ، بے کلی بے قراری جستجو ،
اپنے نقطہ عروج پر پہنچ چکی تھی دنیا ما فیا گھر بار بھو ل چکے تھے تلاش رگ
رگ میں خو ن کی جگہ دوڑ رہی تھی دن رات انگا روں پر لو ٹتے کہ کب مرشد کے
چرنوں میں جگہ ملے گی اسی بے قراری میں ایک رات خو ب میں پھر حضرت سید
عبدالحکیم ؒ کی زیارت ہو ئی آپ ؒ ریشمی تخت پر جلو ہ افروز تھے بلھے شاہ ؒ
غلاموں کی طرح کھڑے ہو جا تے ہیں ملتجی نظروں سے آپ ؒ کو دیکھتے ہیں کہ
میری مدد کر یں مجھے اس تکلیف سے نکا لیں میں اندھیر ے میں ٹھو کریں کھا
رہا ہوں میرا مشعل راہ کون ہے میں کس در پر جا کر بھیک ما نگوں تو بزرگ
مشفقا نہ لہجے میں مسکرائے اور کہا بیٹا اب تم کسی مرشد کامل کے آستا نے پر
جا کر وقت گزارو‘بلھے شاہ ؒ نے ہا تھ جو ڑتے ہو ے کہا شاہا آپ ہی میری
راہنما ئی فرمائیں نہ میری ٹانگوں میں جان ہے اور نہ ہی آنکھوں میں بینا ئی
کہ مرشد کے آستانے کو پہچان سکوں حضرت سید عبدالحکیم ؒ مسکرائے اورفرما یا
جاؤ لا ہور میں شاہ عنا ئیت قادری ؒ شطاری کے پا س جاؤ ، سوالی بن کر مر شد
کے پاس جاؤ مرشد کا دامن اِس طرح پکڑنا کہ پھر کبھی نہ چھو ڑنا وہ جو بھی
دیں خو شی سے قبو ل کر کے قنا عت کر نا مرشد مرید کا تعلق کچا دھا گا ہو تا
ہے جو چھو ٹی سی غلطی سے ٹوٹ سکتا ہے اگر تمہا ری ارادت عشق میں تبدیل نہ
ہو ئی تو ساری عمر تہی دامن بنے رہو گے آتش عشق ہی منزل کی نشاندہی کر تی
ہے عشق کا راستہ ہی نجا ت کا راستہ ہے حق تعا لی تمہیں دونوں جہانوں میں
سرفراز فرمائے ‘ اِس کے ساتھ ہی بلھے شاہ ؒ خوا ب سے بیدار ہو گئے بلھے شاہ
ؒ خو شی سے جھو م رہے تھے اُن کی منزل اُنہیں بتا دی گئی تھی بلھے شاہ کو
سلگتے ریگستانوں میں چلنے کے بعد سبزہ زار نظر آگیا تھا ٹھنڈی چھاؤں اور
چشمہ نظر آرہا تھا خو شی سے سارا خواب والد صاحب کو سنا یا والد صاحب بھی
بہت خو ش ہو ئے بیٹا تمہیں نشان منزل مبا رک ہو اب محنت اور تابعداری سے
جلدی منزل پا لو ۔ اہل تصوف خو ب جانتے ہیں سلسلہ قادریہ کا تعلق غو ث اعظم
شاہ جیلا ن عبدالقادر جیلا نی ؒ سے ہے اور شطا ریہ سلسلہ سر زمین بسطام کے
عظیم صوفی حضرت شیخ با یزید بسطامی ؒ سے ہے ’’شطار ‘‘کے معنی بہت گرم اور
تیز کے ہیں‘شطا ریہ سلسلہ کے بزرگ جنگلوں ریگستانوں میں خو د کو سخت مجا
ہدوں اور عبا دت سے گزارتے ہیں اِس لیے اِن کو شطا ری کہا جا تا ہے شما لی
ہندو ستان میں سب سے پہلے تصوف کا یہ طریقہ جس بزرگ نے جا ری کیا وہ حضرت
عبداﷲ شطا ری ؒ تھے جن کا سلسلہ نصب پانچ واسطوں سے حضرت بایزیدبسطامی ؒ سے
جا ملتا ہے حضرت عنا یت قادری ؒ دونوں سلسلوں میں بیعت تھے اِس لیے آپ ’’
قادری شطا ری ‘‘ کہلا تے ہیں بلھے شاہ ؒ نے مرشد خا نے کی طرف سفر کا آغا ز
کیا راستے میں یہ خو ف ستا تا رہا کہ اگر حضرت شاہ عنا یت ؒ نے مجھے بیعت
نہ کیا تو کدھر جا ؤں گا لیکن پھر یہ سوچا کہ میں سید زادہ عالی نسب ہو ں
مجھے ضرور حلقہ ارادت میں لیں گے ، آخر کا ر شہر لا ہور کے مشہور بزرگ حضرت
عنا یت قادری ؒ کے در پر حاضر ہو ئے آپ سینکڑوں متلا شیان حق کو درس دے رہے
تھے خا نقاہ کے در و دیوا ر سے روحا نی نو ر ٹپک رہا تھا سینکڑوں کے ہجو م
پر سنا ٹے کی چادر تنی ہو ئی تھی درویش وقت کی پر جلا ل آواز سے خانقاہ کے
درو دیوار لر ز رہے تھے بلھے شاہ ؒ بھی چپکے سے ایک گو شے میں بیٹھ گئے تھے
بلھے شاہ مرشد کو دیکھ کر مستی وسرور میں جھو م رہے تھے منزل سامنے نظر
آرہی تھی درویش با کما ل کا واعظ ختم ہوا تو طالبان تصوف رخصت ہو نے لگے
آخر میں بلھے شاہ ؒ ہی رہ گئے حضر ت عنا یت قادری ؒ نے بلھے شاہ کی طرف
دیکھا اور کہا میا ں تم کیوں نہیں جا رہے تو بلھے شاہ بولے میرے شہنشاہ
غلام تو قید ہو نے کے لیے آیا ہے میرا ٹھکانہ تو آپ کے پا ؤں ہیں آپ کی
قربت ہے میں کہا ں جا ؤں ۔ لیکن ہما را گھر میاں آپ کے قابل نہیں ہے بلھے
شاہ بو لے حضور میں مہما ن بننے نہیں غلا م بننے آیا ہو ں خدمت کر نے آیا
ہوں حضرت عنا یت قادری بو لے میں خا لی دامن ہوں تمہا ری مزدوری کے پیسے
نہیں دے سکتا بلھے شاہ ؒ گلو گیر لہجے میں بو لے میری خدمت کا معاوضہ صرف
یہ ہو گا کہ آپ ؒ مجھے ایک نظر دیکھ لیا کریں آپ ؒ کی ایک نظر میرا معا وضہ
ہو گی جو دنیا بھر کے خزانوں سے افضل ہو گی اپنے لیے بلھے شاہ ؒ مسلسل غلا
می کی درخوا ست کر رہے تھے اور حضرت عنا یت قادری ؒ مسلسل انکار ‘ شدید ما
یوسی کی حالت میں بلھے شاہ ؒ بو لے شاہا کیا میرا خواب غلط تھا مجھے غلط
بشارت دی گئی تھی کیا میرا روحا نی لنگر آپ ؒ کے پا س نہیں ہے کیا معرفت
الٰہی کی منزل میں آپ ؒ میرے مشعل راہ نہیں بنیں گے کیا ابھی بھی میرے مقدر
میں اندھیرے ہیں ٹھو کریں ہیں بلھے شاہ روروکر مریدی کی درخواست کر رہا تھا
حضرت عنا یت قادری ؒ گہری مشفقانہ نظروں سے بلھے شاہ ؒ کو دیکھ رہے تھے
تمہیں خوا ب میں جو بشارت دی گئی ہے وہ سچ ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ تم اعلیٰ
نسل کے سید زادے ہو اور میں ایک کم ذات کا انسان سید زادے تم میری ذات نسل
سے واقف ہو میں باغبا ں خاندان کا چشم و چراغ ہوں دنیا میں با غبانوں کوعزت
کی نظر سے نہیں دیکھا جا تا اس لیے میں کہہ رہا ہوں تم جس آستا نے پر آئے
ہو وہ تمہیں مزدوری دینے کے قابل نہیں ہے بلھے شاہ ؒ پر سکتہ طار ی ہو چکا
تھا وہ مرشد کی قوت مکا شفہ پر ششد ر تھے کہ راستے میں بلھے شاہ ؒ اپنے
اعلی نصب پر سوچتا آیاتھا بلھے شاہ ؒ پر سکتہ طا ری تھا اُس کے دل کی با ت
مرشد پر ظا ہر ہو چکی تھی بلھے شاہ دیوانگی سے اٹھے اور حضرت عنا یت قادری
ؒ کے قدموں سے لپٹ گئے اور بو سے لینے لگے یا شیخ مجھے معاف کر دیں میری
گردن میں غلا می کی زنجیر ڈال کر مجھے امر کر دیں حضرت عنا یت قادری ؒ نے
بلھے شاہ ؒ کو اٹھا کر گلے لگا یا اور نہا یت مٹھا س بھرے لہجے میں بو لے
تم ہما رے ہو چکے ہو اب تمہیں نہیں چھو ڑیں گے بلھے شاہ ؒ شیخ کے قدموں میں
آنسوؤں کا نذرانہ پیش کرتے رہے شیخ نے بلھے شاہ ؒ کواٹھا یا اور کہا حق
تعالیٰ تم پر رحیم وکریم ہو وہ تمہیں معرفت کا نو ر جلدی عطاکرے گا حضرت
عنا یت قادری ؒ نے بلھے شاہ ؒ کو اپنے سینے سے لگا لیا ہزاروں راتوں کے جا
گے مسا فر کو قرار آنے لگا مرشد کے سینے سے نور کی کر نیں بلھے شاہ ؒ کے با
طن کو منور کر رہی تھیں نو ر کی شدت سے بلھے شاہ گھبرا گئے تو مرشد بو لے
یہ آتش عشق کی آنچ ہے جب ہجر و فراق کی تیز ہوا ئیں چلیں گی تو اِس کے
شعلوں سے تما م کثافتیں کدورتیں راکھ میں خا کستر ہو جائیں گی پھر صرف آتش
عشق کا نور ہو گا جو ازل سے قیا مت تک رہے گا ۔ شیخ کا سینہ انوارِ الٰہی
معرفت الہی کا خزانہ تھا اسرار ربا نی کی آنچ سے بلھے شاہ ؒ کا جسم کسی نا
دیدہ آگ سے جل رہا تھا گھبرا کر بو لے مرشد یہ آتش عشق ہے تو مرشد بو لے
فرزند یہ آگ تو چنگا ری کی صورت میں تیرے با طن میں مو جو د تھی آج تیز ہوا
چکی تو آگ کا بھانبھڑ بن گئی بلھے شاہ ؒ کے جسم کا رواں رواں آتش عشق کی نو
ری چنگا ریوں سے جھلس رہا تھا با طن میں ہزاروں کہکشاؤں کی روشنی پھوٹ رہی
تھی اندھیرے اجالوں میں ڈھل رہے تھے چاروں طرف نور اور خوشبوؤں کے قافلے
اُتر رہے تھے حضرت عنایت قادری ؒ نے بلھے شاہ ؒ کو حلقہ بیعت میں شامل کر
لیا اور ایک شعر پڑھا ۔
بندہ عشق تر ک نسب کن جامی ۔ کندریں راہ فلاں ابن فلاں چینرے نست ۔
اے جامی تو بندہ عشق بن جا اپنے خاندانی تفاخر کو ترک کر دے کیو نکہ عشق کے
راستے میں فلاں ابن فلاں کی کو ئی حیثیت نہیں ہے ۔
|