کراچی میں پانچ دن اردو زبان و ثقافت سے محبت کرنے والوں
کا جم غفیر رہا اور دسویں عالمی اردو کانفرنس اپنی رعنایاں دکھا کر اختتام
کو پہنچی۔ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام ہونے والی یہ دسویں
عالمی اردو کانفرنس تھی جس میں نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے بیشتر ممالک کے
مندوبین نے شرکت کی۔ یہ کانفرنس پانچ روز جاری رہی۔ افتتاحی اجلاس
21دسمبر2017کو سہ پہر تین بجے منعقد ہوا پھر روز وقفہ وقفہ سے مختلف اجلاس
ہوئے اختتامی اجلاس 25دسمبر 2017کو شام سات بجے ہو ا ، اس طرح ادیبوں کا یہ
میلا پانچ روزہ جاری رہا۔ تواتر کے ساتھ دس سال تک عالمی سطح کی کانفرنس
منعقد کرنا واقعی قابل تعریف عمل ہے۔ ویسے تو اس طرح کے پروگرام ایک مضبوط
اور مصمم ارادے والی ٹیم کے بغیر ممکن نہیں ہوا کرتے لیکن اس ٹیم کے آگے
اگر انجمن طاقت ور، دھن کا پکہ لگا ہو تو بڑے سے بڑا کام آسان ہوجاتا ہے۔
آرٹس کونسل کی پوری ٹیم قابل مبارک باد ہے لیکن اس کانفرنس اور تسلسل کے
ساتھ دس کانفرنسیں منعقد کرنے کا تمام تر سہرا کونسل کے سر کردہ لیڈر احمد
شاہ کو جاتا ہے۔ وہ گزشتہ دس سال سے آرٹس کونسل کی سربراہی کسی نہ کسی عہدہ
کی صورت میں کر رہے ہیں، وہ صدر ہوں یا سیکریٹری جنرل یا گورننگ باڈی کی
عام رکن کونسل کے تمام امور انہیں کے گرد گھومتے ہیں۔ جس طرح نواز شریف
پاکستان کے وزیر اعظم نہیں لیکن تمام امور انہیں کے گرد گھومتے رہے ہیں ان
کی مرضی کے بغیر وزیر اعظم ہاؤس میں پرندہ پر بھی نہیں مار سکتا ۔ اسی طرح
آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں گزشتہ دس سالوں سے احمد شاہ صاحب کا
اقتدار قائم و دائم ہے ، دس سالوں سے ہر الیکشن میں ان کا پینل فتح مند
ہوتا ہے اور وہ کونسل کے سیاہ و سفید کے مالک قرار پاتے ہیں۔ لیکن اس میں
ان کے وہ مثبت کام بھی ہیں جو انہوں نے کونسل کے لیے کیے ۔ شہر میں زبان و
ثقافت کے فروغ کے علاوہ آرٹس کونسل کی عمارت میں توسیع کے ساتھ ساتھ آرائش
و زیبائش پر خصو صی توجہ دی گئی بقول احمد شاہ ’’جب میں نے آرٹس کونسل میں
قدم رکھا تھا تو اس کی گرانٹ دس لاکھ روپے تھی آج دس کروڑ ہے ‘‘۔ ہونی بھی
چاہیے تھی اس لیے کہ گزشتہ دس سالوں میں مہنگائی جس تیزی سے بڑھی ہے اس کے
پیشے نظر گرانٹ کا لاکھوں کی گرانٹ کا کروڑوں میں ہوجانا کوئی بڑی بات نہیں
لیکن یہ کروڑں کی گرانٹ جدوجہد کے بغیر نہیں ہوئی ہوگی۔ اس کے لیے ذمہ
داران نے سخت محنت اور کوششیں کی ۔اس کانفرنس کی خاص بات احمد شاہ صاحب نے
تحریر کی وہ یہ کہ ’’ قیام پاکستان سے اب تک جن ادبی ، ثقافتی ، فنی شخصیات
نے اپنے اپنے شعبو ں میں کارکردگی د کھائی انہیں خراج تحسین پیش کیا جانا
اور ادب ثقافت کے تمام شعبوں پر خصوصی سیشن کا انعقاد، سابقہ کانفرنسوں کا
احوال اور کئی نابغۂ روزگار شخصیات جواب موجود نہیں ان پر خصوصی دستاویزی
فلم دکھاناکانفرنس کا حصہ تھا۔ جس پر عمل بھی ہوا۔
عالمی ادبی کانفرنس کیونکہ گزشتہ نو سالوں سے تواتر کے ساتھ منعقد ہو رہی
ہیں، موجودہ کانفرنس دسویں کانفرنس ہے ۔ ایک بات یہ بھی کہ کانفرنسوں کے
منتظمین بھی وہ چلے آرہے ہیں ، چنانچہ وہ ہر نئی کانفرنس کے انعقاد پر
سابقہ کانفرنسوں کا تجربہ ان کے سامنے ہوتا ہے ، جو کمی یا کوتاہی رہ جاتی
ہے وہ اسے دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس وجہ سے کانفرنس کے تمام لوازمات
وقت کے ساتھ بہتر ہوتے جارہے ہیں۔مثال کے طور پر منتظمین کو یہ احساس ہوتا
ہے کہ کس پروگرام میں عوام الناس کی تعداد زیادہ شریک ہوگی، چنانچہ حال کی
نشستیں اور حتیٰ کہ سیڑھیوں اور اسٹیج کے سامنے نیچے فرش پر لوگوں کے بیٹھ
جانے کے بعد کسی کے اندر آنے کی گنجائش نہیں ہوتی چنانچہ منتظمین نے حال سے
باہر جو جگہ ہے اس میں اسکرین لگوا دی تاکہ جو لوگ آڈیٹوریم میں نہیں
جاسکتے وہ باہراسکرین پر وہ سب کچھ دیکھ اور سن سکیں جو اندر حال میں ہورہا
ہے۔ اسی طرح کانفرنس کا دعوت نامہ سوشل میڈیا پر مسلسل گردش کرتا رہا ،
دعوت نامے میں کانفرنس میں شرکت کرنے کی اطلاع دینے کا آپشن بھی تھا۔ سوشل
میڈیا پر روز کا پروگرام شئر کرنا، جو کچھ ہوچکا اس کی تفصیل سوشل میڈیا پر
وائرل کرنا ، یہاں تک کہ فیس بک پر کانفرنس کی لاؤ کاروائی بھی آتی رہی۔
سوشل میڈیا کی شمولیت نے کانفرنس کی کاروائی کو بہتر سے بہتر ، خوب سے خوب
تربنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ دسمبر شروع ہوتے ہی علمی و ادبی حلقوں میں
کانفرنس کے انعقاد کا انتظار بے تابی سے شروع ہوجاتا ہے۔ اس بات کا اندازہ
کانفرنس میں شریک شائقین کی تعداد سے بخوبی لگا یا جاسکتا ہے۔ کانفرنس میں
شرکت کا قدیمی طریقہ اب بھی رائج ہے یعنی کانفرنس میں آنے والے اپنا نام،
شعبہ، کنٹیکٹ نمبر درج کریں اور دستخط بھی کریں۔ منتظمین کو اسے بھی جدید
مشینی طریقہ اندراج میں بدلنا ہوگا۔ راقم گزشتہ کئی کانفرنسوں میں شرکت
کررہا ہے ۔ موجودہ کانفرنس میں بھی شریک رہا۔ کانفرنس کا افتتاحی اجلاس
21دسمبر سہ پہر تین بجے شروع ہوا سندھ حکومت کے وزیر ثقافت سید سردار علی
شاہ نے کانفرنس کا افتتاح کیا۔ انہوں نے احمد شاہ کو مبارک باد دی کہ انہوں
نے دس سالوں سے اردو کا میلہ بہت خوبصورت طریقے سے سجارکھا ہے اور مختلف
علاقوں سے آنے والے شعراء کو کراچی میں جمع کر کے پیغام عام کیاہے، سندھ کی
سرزمین فقرا اور درویشوں کی سرزمین ہے جن کا پیغام ہی ہمیشہ سے محبت و امن
رہا ہے۔
صدر آرٹس کونسل احمد شاہ نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ
انہوں نے ہمیشہ علم کی بنیاد پر لوگوں کو ترجیح دی ہے۔ انہوں نے اپنے ملک
اور شہر کو ہمیشہ قائد اعظم محمد علی جناح ، بھلے شاہ، صوفی تبسم ، احمد
فراز، گل جی سمیت دیگر شعرا اور ادبا کی نظروں سے دیکھا ہے ۔ افتتاحی اجلاس
میں کلیدی مقالہ ہندوستان سے آئے ہوئے ادیب شمیم حنفی نے پیش کیا ۔ ان کا
کہنا تھا کہ گزشتہ ستر برسوں کے سفر میں فیض، فراز اور اب زہرہ نگاہ سے لے
کر نوجوان شعرا تک بڑی فہرست ہے جس پر روشنی ڈالنے کے لیے دِلی سے کراچی تک
بڑا آلاؤ روشن کرنا ہوگا�آزادی کے بعد جو دنیا ہمیں ملی اس کا عکس لوگوں کے
ماتھوں پر لکھا ہے، تحریر لکھنے والے کی نسبت بہت زیادہ بری ہوتی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ 1947سے پہلے کا ادب اس کے بعد کے ادب کا رول ماڈل نہیں
ہوسکتا، آج ہمارا تصادم زماں سے زیادہ مکاں سے ہے، جینا ایک کاروبار بن چکا
ہے اب ضرورت اس بات کی ہے کہ عام فہم زبان میں اپنی بات بیان کی جائے ۔ اسی
سیشن میں ڈاکٹر مبین مرزا نے بھی اپنا مقالہ پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ
زندگی کو سمجھنے کے لیے اگر مجھ میں صلاحیت پیدا ہوئی تو وہ صرف اور صرف
ادب کی دین ہے ، ادب مجھے اور آپ کو جیتے جی موت کا گھاٹ اتر نے سے بچاتا
ہے ، اسی ادب کے ذریعہ برے بھلے میں تمیز محسوس کی جاتی ہے، مایوسی کے
اندھیروں میں ادب نے ہی روشنی فراہم کی ہے انہوں نے کہا کہ ادب میری لائف
لائن ہے ، یہ پہلے مجھے جیناسکھا تا اتھا اب یہ مجھے بقا کاراستہ بھی دکھا
رہا ہے۔ معروف دانش ور شاعرہ زہرہ نگاہ کا کہنا تھا کہ بہت سارے لوگ ایسے
ہیں جنہوں نے ہر زمانے میں ادب اور فن کے تقدس کو بحال رکھا ، اس طرح کی
کانفرنسوں سے علم و ادب کے ساتھ ساتھ محبتیں بھی پھیلتی ہیں۔ معروف براڈ
کاسٹر ، ادیب رضا علی عابدی نے کہا کہ برطانیہ میں وائرس کا ایک ٹیکہ لگایا
جاتا ہے جس کے بعد انسان پورے سال تندرست رہتا ہے اور ہم اس کانفرنس میں ہر
سال ٹیکہ لگوانے آتے ہیں، مسعود اشعر، امینہ سید، اسد خان امجد اسلام امجد،
زاہدہ حنا، قاضی افضال حسین نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ مہمان دانشور
ہیروجی کتاؤ کانے کہا کہ نوجوان اپنے کام اور زبان سے عشق کریں اور آگے
بڑھیں اسی میں فائدہ ہے ۔ جرمنی سے آئے ادیب عارف نقوی نے کہا کہ یہاں آکر
ادیبوں اور شاعروں سے ملاقات ہوئی جو باعث افتخار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ
اردو کے مجاہد اس طرح کی کانفرنس منعقد کریں اور امن کا درس دیں۔نعیم
طاہرنے کہاکہ مریض کا سب سے اچھا علاج محبت اور عزت ہے۔ کشور ناہید کا کہنا
تھا کہ ہر طرح کی شدت پسندی کے خلاف ادیبوں اور شاعروں کو باہر نکلنا ہوگا،
ڈاکٹر پیر زادہ قاسم صدیقی نے کہا کہ یہ کانفرنس دیر تک اپنے ہونے کا احساس
دلاتی ہے۔ پہلے دن شام میں ہونے والا سیشن عہدِ مشتاق احمد یوسفی ۔ہمار
اعزاز تھا جس میں ضیا محی الدین نے سابقہ سالوں کی طرح عمدگی سے پیش کیا۔
رات گئے قوالی کا پروگرام ہوا نظامت جاوید حسن نے کی ایاز فرید ، ابو محمد
قوال نے کلام سنایا۔
کانفرنس کے دوسر ے دن کا پہلا سیشن ’حمد و نعت ۔ تخلیقی و فکری تناظر میں‘
تھا جس کی صدارت افتخار عارف نے کی ۔ انہوں نے صدارتی خطاب میں کہا کہ اردو
زبان میں نعت کا بڑا ذخیرہ موجود ہے، نعت کہنے والوں کو اتنا علم ضرور ہونا
چاہیے کہ اس کی نعت کے اشعار ادب کے معیار پر پورے اتریں، نعت لکھنے والا
اپنے پورے وجود کی سچائی سے نعت لکھتا ہے لہٰذا کوئی سعادت کے لیے لکھے یا
ثواب کے لیے اسے نعت لکھنی چاہیے ، اس موضوع پر جہاں آرا لطفی ، ڈاکٹر عذیر
احسن نے بھی خطاب کیا ، دوسرے روز دوسرا سیشن ‘ہمار ادبی وسماجی تناظر اور
خواتین کا کردار ‘کے موضوع پر تھا، جس کی صدارت کشور ناہید یاسمین طاہر،
امینہ سید اور زبیدہ مصطفی نے کی ، مقالات پیش کرنے والوں میں نجیبہ عارف،
ڈاکٹر فاطمہ حسن، یاسمی حمید، مہتاب اکبر راشدی اور زاہدہ حنا شامل تھیں۔
کشور ناہید نے کہا کہ ہماری سب سے پہلی نقاد ممتاز شیریں تھیں ، یہ زیادہ
بہتر ہے کہ تخلیقی ادب پر کھل کر بات کی جائے تخلیقی سطح پر کون زیادہ آگے
بڑھ کر کام کررہا ہے۔ یاسمین طاہر نے کہا کہ جب تک عورتیں مردوں کے شانہ با
شانہ کھڑی نہیں ہوں گی انہیں کچھ حاصل نہیں ہوسکے گا، امینہ سید کا کہنا
تھا کہ جو خواتین فنونِ لطیفہ سے تعلق رکھتی ہیں ان کی ایک خاص سوچ ہوتی ہے
انسانی سوچ کو مکمل کرتی ہے، زاہدہ حنا کا خیال تھا کہ یہ موضوع اپنے اندر
وسعت لیے ہوئے ہے، مرزاعظیم بیگ چغتائی پہلے ادیب تھے جنہوں نے اپنی چھوٹی
بہن عصمت چغتائی کے دل میں شعور جگایا اور پھر یوں چراغ سے چراغ جلتا گیا۔
تیسرا سیشن ’’اردو شاعری ۔ایک مطالعاتی تناظر‘‘ تھا جس میں مقررین نے اردو
شاعری کے حوالے سے تفصیل سے گفتگو کی۔ اسی دن ’’پاکستان میں مصوری کا
ارتقائی سفر‘‘ کا سیشن ہوا ، کتابوں کی رونمائی تھی جس میں محمود شام نے
کلیاتِ محسن بھوپالی ، شکیل عادل زادہ نے احمد فراز : شخصیت اور فن (تصنیف
محبوب ظفر)، عقیل عباس جعفری نے سخن آباد (کلیات عرفان صدیقی) کا تعارف پیش
کیا۔ رات گئے فنِ رقص کی صورت حال پر نگہت چودھری ، شیما کرمانی اور مانی
چاؤ نے گفتگوکی آخر میں ’’رخص میں ہے سارا جہاں ‘‘ شیما کرمانی، نگہت
چودھری اور مانی چاؤ نے پیش کیا۔
تیسرا دن اور 23دسمبر پہلا سیشن ’’ہماری تعلیمی و تدریسی صورت حال‘‘ پر تھا
جس میں ماہرین تعلیم نے کا کہنا تھا کہ ملک کے طبقاتی معاشرے نے نظام تعلیم
کو طبقاتی بنا لیا جس سے غریب کے بچے کے لیے حصول تعلیم کی سہولتیں محدود
ہوگئیں ہیں جب تک طبقاتی معاشرہ ختم نہیں ہوتا طبقاتی نظام تعلیم بھی باقی
رہے گا۔ موضوع پر اظہار خیال کرنے والوں میں ڈاکٹر عشرت حسین ، ڈاکٹر
پیرزادہ قاسم صدیقی، انوار احمدزئی، جعفر احمد، پروفیسر ہارون رشید اور
پروفیسر اعجاز فاروقی شامل تھے۔’’جاپان اور پاکستان کے ادبی رشے‘‘ یہ ایک
ایسا سیشن تھا جس میں جاپان سے آئے ادیب ہیروجی کتاؤ کا نے اردو میں خطاب
کیا، ہیروجی کتاؤ کا نے کئی شعرا کے کلام کا اردو سے جاپانی زبان میں ترجمہ
کیا ہے انہوں نے کہا کہ اب تک دیوان غالبؔ ، بانگ درا اور دیگر کتابوں کا
جاپانی زبان میں ترجمہ ہوچکا ہے ، انہوں نے بتا یا کہ انہوں نے 1971میں
پاکستان آکر کراچی یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور اردو پر تحقیق شروع کی اس
دوران انہوں نے کرشن چندر، سعادت حسن منٹو ، احمد ندیم قاسمی ، خدیجہ
مستور، شوکت صدیقی، انتظارحسین اور دیگر ادیبوں کے افسانے پڑھے جنہوں نے
انہیں بہت متاثر کیا، انہوں نے اردو اور جاپانی زبانوں کے ادیبوں کو باہم
مل کر کام کرنے اور ایک دوسرے کے ملکوں میں جاکر اپنی اپنی زبانوں پر تحقیق
کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے بتا یا کہ جاپان میں اردو بولنے اور سمجھنے
والوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے اور دونوں ممالک کے ادبی رشتوں پر بھی
کام ہورہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس قسم کی کانفرنسوں سے ادبی رشتے مضبوط
ہوتے ہیں۔شام کے سیشن میں ادارکارہ بشریٰ انصاری سے ایک مکالمہ تھا، شام
میں ہی ’’صحافت کے بدلتے چہرے‘‘ کے عنوان سے سیشن تھا ۔ کتابوں کا تعارف کے
ساتھ تیسرے دن کا سیشن اختتا م کو پہنچا۔
کانفرنس کا چوتھا دن 24دسمبر آغاز’’اردو فکشن پرا یک نظر ‘‘ سے ہوا ۔ اکثر
ادیبوں نے خیال ظاہر کیا کہ ہمارے ہاں علم تخلیق نہیں ہورہا مگر یورپ میں
علم و تحقیق پر زیادہ کام ہورہا ہے ، ادب کی پہلی شرط جب تک اس میں ادبیت
نہیں ہوگی وہاادب ہی نہیں ہوگا ، اسی طرح ناول میں ناولیت نہیں ہوگی تو وہ
ناول نہیں ہوگا،ہمارے فکشن پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ اب لوگوں کو جوڑتا ہے
حکومتیں علیحدہ کرتی ہیں ، ہر شخص منٹو یا قرۃ العین نہیں ہوسکتا مگر
معیاری ادب کی کوشش جاری رہنی چاہیے۔ اسی روز ایک سیشن ’’اردو کی نئی
بستیاں اور تراجم کی صورت حال پر ہوا ‘‘ جس میں اردو کے ارتقا کی بات ہوئی
اس کے دنیا میں پھیلنے اور پھلنے کی بات ہوئی۔ مقررین کا کہناتھا کہ اردو
کا مستقبل بہت روشن ہے۔ مغرب کے سب سے بڑے شہر نیویارک کو مغرب کا لکھنؤ
کہا جاتا ہے۔ مغربی معاشرے میں مضروف رہنے کے باوجود وہاں اردو زبان کا
جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ اردو فلم کا سفر ایک سیشن کا عنوان تھا جس میں
مختلف اداکاروں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا، پاکستان میں موسیقی کا سفر کے
سیشن میں بھی موسیقی سے تعلق رکھنے والوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اسی
روز ایک شام معروف شاعر افتخار عارف کے ساتھ منائی گئی۔ شام کے سیشن میں
انور مسعود کے ساتھ ایک شام منائی گئی۔ افتخار عارف نے اپنی شاعری سے اور
انور مسعود نے اپنے خوبصورت اور مزاحیہ انداز میں احباب کو قہقہے لگانے پر
مجبور کردیا۔ روز کی طرح کتابوں کا تعارف ، محفل موسیقی سے اس دن کا اختتام
ہوا۔
پانچواں اور آخری دن 25 دسمبر’’اردو تنقید ایک جائزہ‘‘ تھا ، اس میں بھارت
سے آئے ادیب و شاعر شمیم حنفی ، قاضی افضال حسین ، انورار احمد زئی، ڈاکٹر
علی احمد فاطمی ، جنیبہ عارف اور سرور جاوید نے خطاب کیا۔ شمیم حنفی نے کہا
کہ وہی تنقید اچھی اور بامقصد ہوتی ہے جو تخلیقی لوگوں نے لکھی ہو جدیدیت
کے تصور نے بھی بڑے نقاد پیدا کیے ہیں ادب میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو
قائم رکھنا ضروری ہوتا ہے انہوں نے کہا کہ ادب اپنے عقائد کے اظہار کے لیے
نہیں ہوتا اور تہذیبیں کبھی ایک سطح پر سفر نہیں کرتیں بلکہ تہذیبیں دن کے
اجالے کی طرح دھیرے دھیرے پھیلتی ہیں اچانک مسلط نہیں ہوجاتیں ، یہ بات سچ
ہے ہم نے مغربی تجربات سے فائدہ اٹھایا ہے لیکن یہ بات اس سے بھی زیادہ اہم
ہے کہ ہمیں اپنی روایات کو بھی نہیں بھولنا چاہیے ۔ دوسرا سیشن ’’یاد
رفتگاں ‘‘تھا جس میں ان ممتاز شعرا اور ادیبوں کی خدمات کو خراج تحسین پیش
کیا گیا جو اس دنیا سے رخصت ہوچکے ان میں نیر مسعود، خلیق انجم، ابرہیم
جویو، شان الحق حقی، ندا فاضلی، تصدق سہیل، فارغ بخاری اور مسعود احمد
برکاتی شامل ہیں ۔ پاکستان میں تھیٹر کی صورت حال ، قائد اعظم کا پاکستان
اور آخر میں ایک شام انور مقصود کے نام اور اختتامی اجلاس کے ساتھ ہی دسویں
عالمی اردو کانفرنس اپنے اختتام کو پہنچی۔ کراچی کے سیاسی حالات جس قدر بھی
ابتر کیوں نہ ہوجائیں لیکن اہل کراچی زندہ دل ہیں، کشادہ ذہن ہیں، وسیع
القلب ہیں، علم و ادب کے دلدادہ ہیں، شعر و ادب، شاعر وں و ادیبوں کو سر
آنکھوں پر رکھتے ہیں۔ برے سے برے حالات میں بھی کراچی کی فضائیں عالمی
مشاعروں سے گونجتی رہی ہیں، گزشتہ دس سالوں سے آرٹس کونسل کی عالمی اردو
کانفرنس بلا تعطل کے ہر سال منعقد ہورہی ہے ۔ پھر حالات کی خرابی کا چرچا
کیسا، پریشانی کیسی ، کراچی کی ایک خاص سائیکی ہے جو ہر ایک کی سمجھ سے
بالا ہے۔
|