امریکی صدر کے بیانات سے اس بات کی جھلک نظر آتی ہے کہ
امریکہ کی حالت اس وقت ایسے بھینسے کی مانند ہے جو پہلے تو اپنی طاقت کے بل
بوتے دندناتا پھرتا رہا ہو مگر بعد میں اس پر قابو پا لیا گیا ہو۔ اور اب
وہ نیم پاگل کی سی حالت میں جو بھی حرکت کرتا ہے وہ اس کے خلاف ہی جاتی ہے۔
وہ جب بھی زور آزمائی کرنے کی کوشش کرتا ہے، منہ کی کھانی پڑتی ہے یا پشت
پر ڈنڈو ں کی برسات ہو جاتی ہے۔امریکی صدر نے ایک ٹویٹ کی جس میں وہ کہتے
ہیں کہ " امریکہ نے بیوقوف بن کر گزشتہ پندرہ سالوں میں پاکستان کو 33 بلین
ڈالرز سے زائد کی امداد دی ہے، لیکن پاکستان نے صرف جھوٹ اور دھوکہ دیا ہے
"۔امریکی صدر کے اس ٹوئیٹر پیغام کے بعد میڈیا پر یہ تاثر دیا جانے لگا کہ
اس پہلے امریکہ کی جانب سے ایسا کوئی ردِّ عمل یا ایسی کوئی پالیسی نہیں
اپنائی گئی۔ یہاں ہمیں ایک بات واضح کر لینی چاہیئے کہ امریکہ پالیسی وہی
بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے ڈونلڈ ٹرمپ نے جس انداز میں بات کی ہے وہ "ڈپلومیٹک"
نہیں ہے۔ وگرنہ امریکہ پالیسی یہی امریکہ آپ کو کبھی بھی ایک مضبوط ریاست
کے طور پر نہیں دیکھنا چاہتا۔امریکہ شاید تاریخ بھول چکا ہے یا پھر وہاں آج
کل صرف 11/9 کے بعد کی تاریخ پڑھی جاتی ہے۔ طاقت کے نشے میں چور امریکہ
بھول چکا ہے کہ پاکستان افغانستان میں روس کو شکست نہ دیتا تو وہ کبھی نام
نہاد سپر پاور نہیں بن سکتا تھا لیکن اس کے باوجود امریکہ نے پاکستان میں
دہشت گردی اور انتشار کے ذمہ دار بھارت کے ساتھ اپنی قربتیں بڑھائیں۔وہ
بھارت جس نے پاکستان کے اندر کلبھوشنوں کو بھیجا، جس نے ہمارے بچوں کو قتل
کیا اور جس نے ہمارے گھر امن برباد کیا۔ صرف یہی نہیں امریکہ نے کئی ایک
موقعوں پر ہمیں دھوکہ دیا ہے۔ سوال تو ہمیں کرنا چاہیئے کہ کیا یہ صلہ ہے
امریکہ کی مدد کرنے کا۔دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ افغانستان کے اندر
امریکہ بری طرح شکست و ذلت سے دو چار ہے اور اپنی ناکامی کے زخم چاٹ رہا
ہے۔امریکہ کی خواہش تھی کی اس شکست کا بوجھ پاکستان اٹھائے مگر پاکستان نے
اس بات سے صاف انکار کر دیا ہے۔ایک تو پاکستان نے امریکہ کی یہ حکم عدولی
کر ڈالی ہے۔ دوسری ناگزیر حرکت یہ کی کہ امریکہ کی منافقت اور دشمنی سے بد
تر دوستی کی وجہ سے امریکی اتحادیوں کی صف سے پیچھے ہٹنا شروع کریا ہے۔ در
اصل آپ نے امریکہ کی اس حکمتِ عملی کو ناکام کر دیا ہے کہ ان بیوقوفوں (
جیسا کہ امریکی صدر نے کہا ) کا ارادہ تھا کہ افغانستان کا بوجھ پاکستان پر
ڈال کر اپنے دم چھلے بھارت کو خطے کا ٹھکیکدار بنا کر یہاں سے نکل جائیں
گے۔در اصل یہ چند وجوہات ہیں جن کی وجہ سے امریکہ برہم ہے اور بے بس و
لاچار بھی۔ اب وہ پاکستان کو امداد بند کرنے کی دھمکی دے کر ڈرانا چاہتا ہے
اوردباؤ ڈال کر اپنے مطابات منوانا چاہتا ہے۔ لیکن اس حوالے سے پاکستان نے
واضح طور پر پہلے ہی کہہ دیا ہے کہ ہمیں امریکی ڈالروں کی کوئی ضرورت نہیں
ہے۔یہاں ایک تیسری توجہ طلب بات اور ناقابلِ فراموش بات یہ بھی ہے کہ
امریکیوں کو اس بات کا شدید غم و غصہ ہے کہ آپ چائنا ساتھ مل کر" اکنامک
کوریڈور" بنانے جا رہے ہیں۔اور بلا شبہ اس میں چائنا کا بھی بہت ذیادہ
فائدہ ہے جو کہ چین کی معیشت اور مضبوط تر کر دے گا اور امریکہ کے لیے چین
کا ایک عالمی قوت بن کر ابھرنا ناقابلِ برداشت ہے۔ اس حوالے امریکہ جس بات
کا پاکستان سے تقاضا کر رہا ہے وہ ناممکنات میں سے ہے کہ پاکستان یہ سی پیک
کا منصوبہ بند کر دے اور چین کو مجبور کرے وہ وہی لمبا راستہ استعمال
کرے۔آج بھی مجھے امریکہ کے متعلق جنرل حمید گل صاحب کے وہ الفاظ یاد ہیں
کہ"امریکہ ایک بھیڑیا ہے جس نے ہمیشہ ہمیں کاٹا"۔ شاید ہمارے حکمرانوں کو
یہ بات بہت دیر سمجھ آئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اب ہمارے سیاستدانوں کو بھی
امریکہ کی اندھی تقلید سے نکل آنا چاہیئے کہ جسے امریکہ دہشت گرد کہے ہم
اسے دہشت گرد مان لیں، امریکہ جسے کہے کہ بند کر دو ہم اسے بند کر
دیں۔اشاروں کناروں کا سہارا لینے کی بجائے میں سیدھی بات کرنا چاہوں گا
کہامریکہ انڈیا کو خوش کرنے کے لیے آپ جو کہا آپ نے مان لیا اور حافظ محمد
سعید کو بنا کسی ثبوت دس ماہ نظر بند رکھا اور سلام ہے اس شخص کی ہمت کو جس
نے ملک کی سلامتی اور امن کے واسطے سب کچھ برداشت کیا۔بہر کیف اب وہ
عدالتوں سے ایک مرتبہ پھر با عزت بری ہو گئے ہیں۔لیکن اب دوبارہ پھر ان
جماعت اور فلاحی ادارے (فلاحِ انسانیت فاؤنڈیشن) کی ریلیف سرگرمیاں روکنے
کی باتیں ہو رہی ہیں۔اگر اب ایسا ہوا تو کسی زیادتی بلکہ ظلم سے کم نہ ہو
گا کہ آپ بلا وجہ محض امریکہ کو خوش کرنے کے لیے ایک جماعت کو مسلسل نشانہ
بناتے چلے جائیں بلکہ واضح چور پر امریکہ کو پیغام جانا چاہیئے کہ بنا
ثبوتوں کے ہم ایک پاکستانی شہری کو بند نہیں کر سکتے۔پاکستان اس وقت ایسے
موڑ پر آن کھڑا ہوا ہے کہ ہمیں مضبوط فیصلے کرنا ہونگے۔اور یہ فیصلے قومی
مفاد کو اولین ترجیح دیتے ہوئے کرنا ہونگے وگرنہ موجودہ لوگ آنے والی نسل
کو جواب دہ ہوں گے۔اﷲ پاکستان کے پالیسی ساز اداروں اور حکمرانوں کو ملک کے
مفاد میں صحیح فیصلے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین |