سیاسی مخالفین کے ساتھ جمہوری ملک میں گاندھی کش رویہ

سید علی گیلانی کی آٹھ سالہ نظر بندی

 کتابوں میں درج عبارات کی پامالی جتنی مطلق العنان ممالک میں ہوتی ہے اسے بھی زیادہ سیکولر اور جمہوری ملکوں میں ہوتی ہے مگر بد نامی ڈکٹیٹروں کے حصے میں آتی ہے ۔جمہوریت کا لفظ لفظ اپنے آپ پر ماتم کناں ہے اس لئے کہ اس کی آڑ میں جو مظالم حکمرانوں ،سیاستدانوں اور بیروکریٹوں نے مخالفین پر ڈھائے ہیں اس کی مثالیں بھی بہت کم ملتی ہیں ۔ظالم ہوکرچادرِجمہوریت پہنے جو لوگ اپنی کھلے پن اور وسعتِ قلبی پر فخر کرتے ہیں دراصل یہ کسی حد تک عملی اوراخلاقی استعداد سے محرومی کا نتیجہ ہوتا ہے۔یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح ہم اپنی مخصوص آنکھ سے چیزوں کو دیکھ کر تجزیہ کرتے ہو ئے ’’اطمینان کی نیند‘‘سوجاتے ہیں یہی کچھ ملک کی ساری رعایا کا بھی حال ہوگا ۔یہ قصور فرد کی ذات کا ہوتا ہے یا اقتدار کی کرسی کا ؟گہرے تجزیے کا محتاج مسئلہ ہے ۔نہیں تو روئے زمین کے ’’کذابِ اکبر امریکہ‘‘کے ذہنی طور پر بیمار صدر کو یروشلم کے مسئلے پر اسرائیل کے خلاف ووٹ ڈالنے سے کیوں تکلیف ہوئی ؟جمہوریت کی شکستہ کتاب میں شامل ابواب میں ایک باب تو یہ بھی مذکور ہے کہ ملک کے ہر فرد کو اظہار رائے ،تنقیداوراختلاف کا حق حاصل ہے مگر پوری دنیا میں یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ جمہوریت کی دیوی جوں ہی اپنا رخ مسلم ممالک کی جانب پھیر دیتی ہے تواس کے اصول بلا توقف تبدیل ہو جاتے ہیں اور تو اور غیر مسلم ممالک میں بھی اس کی عزت دن دہاڑے تارتارکر دی جاتی ہے جب معاملہ اس ملک کے مسلمانوں سے متعلق ہو۔

جمہوریت کے جھوٹے چمپئن امریکہ اور مغرب کے دو ہرے میعار کوہم نے باربار دیکھاہے کہ اس کے نزدیک جمہوریت ہر اس ملک اور قوم کے لئے ناگزیر ہے جہاں غیر جمہوری نظام ان کے مفادات کے خلاف ہوبرعکس اس کے اگر عرب ممالک کی طرح کوئی انسانیت دشمن ظالم ایجنٹ حکومت میں رہتے ہوئے امریکی اور مغربی مفادات کے تحفظ کو اپنا فرض قرار دیتا ہو تو اس کی تمام تر وحشیانہ پن کو یہی ممالک تحفظ فراہم کرتے ہیں ۔ہندوستان کو دنیا کی بہت بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ ہے مگر اس کا عمل بھی مغربی ممالک کی طرح آئین میں درج جمہوریت کے بالکل برعکس تب اپنے جوبن پردکھائی دیتا ہے جب معاملہ کسی مسلمان کا ہو اور پھر اگر خدانخواستہ جمہوریت کی نیلم پری کو درشن دینے کے لئے سرزمین کشمیر آناہو تو دلی کے سبھی مہاجنوں کی آنکھیں خون آلود دکھائی دیتی ہیں ۔ستر برس میں اہلیانِ کشمیر نے ایک مرتبہ بھی جمہوریت نہیں دیکھی ہے ۔1987ء میں راجیو فاروق اتحادنے اس تابوت میں آخری کیل ٹھونک کر اپنے آپ کو عالمی سطح پر ننگا کر دیا جب حکومت کی ساری مشینری کو استعمال میں لاکر ’’مسلم متحدہ محاذ‘‘کی فتح کو شکست میں تبدیل کر کے نئی نسلوں کے ذہنوں کو بداعتمادی اور بے اعتباری سے آلودہ کردیا ۔کشمیر ی مسلمانوں کے اعتماد اور اعتبار کو باربار ٹھیس پہنچانے کی کوشش کی گئی شاید یہ سمجھ کر کہ کشمیری کمزور ہونے کی وجہ سے ہمیشہ خاموش رہے گا اور دلی والوں کوماضی کی غلطیوں سے نہ سیکھنے پر اپنے اوپر ماتم کرنا چاہیے نہ کہ کشمیریوں کو اس کا قصوروار ٹھہرانا چاہیے ۔

مسلم متحدہ محاذ کی شکل میں کشمیریوں کے ساتھ ’’اجتماعی جمہوری دھوکے‘‘سے پہلے بھی مسئلہ کشمیر زندہ تھا مگر جمہوری دعوے داروں کے من پسند طریقہ جدوجہد کو بھی جب دلی نے خاطر میں نہیں لایا تو سید صلاح الدین احمد سے لیکر محمد یسٰین ملک تک ہر ایک نے یہی سمجھا کہ آج کے دور میں تقریروں سے کوئی ہماری بات ماننے والا نہیں ہے لہذا بہتر ہے کہ اُنگلی ٹیڑھی کر نے والے راستے کو اختیار کر کے عسکری منہج اپنایا جائے ۔1990ء سے لیکر اب تک یہ سلسلہ جاری ہے البتہ اب اتنی تبدیلی ضرور آئی ہے کہ کشمیریوں کو بندوق کے بہانے قتل کرنے والے ’’بھارت موافق فارمولے‘‘ کے برعکس 2008ء سے ’’پرامن تحریک‘‘چلانے کا ماحول جب بن گیا تو بندوق کو دہشت گردی کہنے والا ’’پرامن جدوجہد کا عاشق بھارت‘‘اس قدر حواس باختہ نظر آیا کہ فوجی سربراہ تک میڈیا کے سامنے بلا جھجک ’’پتھر بازی کے برعکس بندوق بازی‘‘کی تمنا کرتا ہوا نظر آیااور دنیا حیران رہ گئی کہ کیا یہ گاندھی جی کا دیش ہے یا کوئی مطلق العنان ملک چین ۔ پر امن جدوجہد کی قیادت یہاں سید علی شاہ گیلانی نے بحیثیت قومی لیڈر کے تب بھی کی جب کشمیر میدان جنگ بنا ہوا تھا اور اب بھی کر رہے ہیں جب ناتوانی اور کمزوری اپنے عروج پر ہے اور جملہ امراض کی ضد میں آنے کے باوجود ثابت قدمی کے ساتھ یہ شخص اپنے موقف پر قائم ہے ۔

سید علی شاہ گیلانی نے میدان سیاست میں جماعت اسلامی جموں و کشمیر کی وساطت سے قدم رکھتے ہو ئے سرزمین کشمیر کے چپے چپے پر مسئلہ کشمیر اور حق خود ارادیت کی بھر پور وکالت کی حتیٰ کہ کشمیر اسمبلی میں بھی ببانگ دہل مسئلہ کشمیر کے پرامن تصفیہ کی وکالت کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔بھارت کے کشمیر پر قبضے کے بعد سے لیکر اب تک اس شخص نے اس کی چانکیائی سیاست کے ایک ایک طریقے اور رویے کو بہت قریب سے دیکھا ہے یہی وجہ ہے کہ جب بھی بھارت مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کسی ’’طریقہ کار ‘‘کو وضع کرتا ہے سید علی گیلانی کو اس میں تردد اور تذبذب رہتا ہے ۔انھوں نے نہ صرف اپنے بیانات میں بلکہ پچاس کے قریب کتابوں میں بھی بھارت کے اس ’’دجل و فریب‘‘کو چاک کر رکھا ہے ۔حد یہ کہ میر واعظ کشمیرمحمد عمر فاروق اور محمد یسٰین ملک جیسے اعتدال پسند لیڈران بھی اب واضح لفظوں میں کہتے ہیں کہ بھارت کبھی بھی مسئلہ کشمیر کے حل کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرا نہیں کرتا ہے بلکہ یہ وقت حاصل کرتے ہو ئے بین الاقوامی برادری کو کنفوژن میں رکھنا چاہتا ہے ۔

سید علی شاہ گیلانی کسی عسکری تنظیم کے برعکس ایک خالص سیاسی تنظیم ’’تحریک حریت جموں و کشمیر ‘‘ اور کئی سیاسی تنظیموں کے اتحاد حریت کانفرنس کے بھی چیرمین ہیں ۔پرامن جدوجہدکے طریقہ کار کو انھوں نے زندگی بھراختیار کیا ۔اس کے لئے ان کی تقاریر اور کتابیں گواہ ہیں مگر اس کے باوجود بھارتی ریاست نے انہیں ایک اذیت ناک صورتحال سے دوچار کر رکھا ہے ۔بھارت کا دعویٰ ہے کہ ہندوستان کی سرحدوں کے اندر ہر شہری کو پرامن طرز عمل اختیار کرتے ہوئے جدوجہد کرنے کی مکمل اجازت ہے ۔مگرجب یہی کچھ کشمیر کے آزادی پسند کرتے ہیں تو بھارت کی تمام تر مشینری حرکت میں آجاتی ہے ۔2002ء میں جب مفتی محمد سعید نے پہلی مرتبہ حکومت بنائی تو اس نے حریت والوں کو کھلا چھوڑ دینے کی وکالت کرتے ہو ئے ان پر قدغنیں ختم کر دیں ۔اس نے ’’مخصوص حالات اور ماحول‘‘میں یہاں تک کہہ دیا کہ حریت والے بند رکھنے سے ’’ہیرؤ‘‘بن جاتے ہیں انہیں کھلا چھوڑ دو ہم دیکھ لیں گے یہ لوگ کیاکر سکتے ہیں ؟2002ء سے لیکر2007ء تک ایک ایسا مرحلہ بے شک آیا تھا جب کشمیر میں کوئی سیاسی چہل پہل نہیں تھی جو خود ایک طویل بحث ہے سے گریز کرتے ہو ئے ہم سیدھے 2008 ء کی امرناتھ لینڈ اشو پر آتے ہیں جب پورا جموں و کشمیر سڑکوں پر نکل آیا جس سے نہ صرف کشمیر میں ایک زلزلہ آیا بلکہ نئی دہلی تک خوف ودہشت میں مبتلا ہوگئی ۔حریت کانفرنس نے تمام تر اختلافات کے باوجود قوم کی قیادت کی تو پتہ چلا 2008ء ایک ایجی ٹیشن ہی کا نام نہیں بلکہ1990ء کی طرح کشمیر کی تاریخ میں ایک نئی تبدیلی کا آغازہے ۔

پہلے سے کشمیری بزرگوں ،نوجوانوں اور ماؤں و بہنوں میں ’’پر امن جدوجہد‘‘کا ایک ذہن بن گیاتھا حتیٰ کہ 2009ء میں ’’نیلوفر اور آسیہ قتل ،2010ء میں مژھل فرضی انکاؤنٹر پر بے مثال ’’پُر امن احتجاجی تحریک ‘‘2013ء میں افضل گورو کی شہادت پر شدید عوامی ردعمل اور 2016 ء میں ’’عالمی سطح ‘‘کا ریکارڈانتفاضہ کی قیادت سید علی شاہ گیلانی نے دوسرے لیڈران سے مشاورت کے بعد جاری رکھی ۔یہاں بھارت ڈاکٹر امبید کر کی تشکیل کردہ قانونی کتاب کو بھول کر وہی کچھ کشمیریوں کے ساتھ کرنے لگا جو برطانیہ ایک عرصے تک بھارتی عوام کے ساتھ کرتا رہا ۔ اس نے پرامن جدوجہد کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے لیڈروں کو گرفتار کر کے جیلوں میں بند رکھا یا سید علی شاہ گیلانی کی طرح نظر بند ۔حیرت یہ کہ بھارت کی خواہش اب منفی حدود کو پھلانگتے ہو ئے اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ وہ کشمیریوں کے ہاتھ میں جھنڈوں اور بینروں کے برعکس بندوق دیکھنے کامتمنی ہے تاکہ بندوق کے بہانے کشمیر میں کھلے عام مسلمانانِ کشمیر کا قتل عام کیا جاسکے ۔جمہوریت اور سیکولرازم کا جھوٹا ڈھنڈورچی بھارت کشمیریوں کے پر امن احتجاج جیسے تسلیم شدہ بین الاقوامی حق کو بھی صرف اس لئے طاقت سے کچل رہا ہے کہ اس کے نتیجے میں دنیا کشمیریوں کے منشا اور آرزو سے واقف ہو جاتی ہے ۔سید علی شاہ گیلانی پرامن قوم کی پرامن تحریک کے جذبے کی ترجمانی کرتے ہوئے ان کی نا صرف قیادت کرتے ہیں بلکہ اب2016ء سے میر واعظ کشمیر محمد عمر فاروق ، محمد یسٰین ملک اور دیگر لیڈران سے مشاورت کے بعد قوم کے سامنے نقش راہ بھی رکھتے ہیں ۔بھارت کو سید علی شاہ گیلانی کے مسلم متحدہ محاذجیسے’’جمہوری اتحاد‘‘ سے بھی نفرت تھی تو اس کو کچلنے کے لئے تمام تر قوت استعمال میں لا کر الیکشنوں میں جیت کو شکست میں تبدیل کردیا ۔جب اسی الیکشن کی کوکھ سے مایوسی کے بعد بندوق سامنے آئی تو بھارت کی نفرت شعلوں میں تبدیل ہوگئی یہاں تک کہ ایک لاکھ انسان قتل ہو گئے اور دس ہزار لاپتہ!

آخر بھارت کشمیری لیڈر شپ سے کیا چاہتا ہے ؟نا اس کو ان کی الیکشنوں میں حصہ لیکر جمہوری طرزجدوجہد راس آتی ہے نا ہی پر امن جدوجہد ۔تو پھر کشمیری لیڈرشپ پر تمام تردروازے بند کرنے کے بعد وہ کشمیر میں نوے سے پہلے پرامن حالات بحال ہونے کے خواب کیوں دیکھتا ہے؟ کیا کشمیر میں ایک لاکھ لوگ قتل نہیں ہوئے ہیں ؟کیا اتنے بڑے انسانی المیے کو کشمیری قیادت نظر انداز کر کے دلی کے مرضی کا راگ الاپنے کی ہمت کرے گی ۔یقینی طور یہ بات دعوے کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ سید علی گیلانی یا کوئی اورلیڈر شیخ محمد عبداﷲ کا کردار ادا کرنے کے لئے تیار نہیں ہے ۔دلی والوں کو سوچنا چاہیے کہ ان کے پاس پہلے سے اپنے ہم نواؤں کی بہت بڑی کھیپ موجود ہے جو دلی کے لئے بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لئے تیار ہیں اور دلی کے دعوے کے مطابق کشمیر کی آبادی کی اکثریت ان کے ساتھ ہے تو پھر انہیں حریت لیڈران کو کھلی آزادی فراہم کرنے میں تردد کیوں ہے؟ ؟2010ء میں عمر عبداﷲ نے سید علی گیلانی کے گھر پر سے چند روز کے لئے پہرہ ختم کیا ۔حسبِ معمول سید علی شاہ گیلانی نے صرف ایک دن پہلے کی اطلاعات پر کولگام،شوپیان اور کپوارہ میں چند ایک پُر امن جلسوں کاانعقاد کیا تو لوگوں کاسمندر دیکھ کردلی سکتے میں آگئی حتیٰ کہ عمر عبداﷲ بھی گھبراہٹ میں مبتلا ہوگیا اور اس نے صرف دس روز بعد سید علی گیلانی کو دوبارہ نظر بند کر دیا ۔گویا دلی کی خواہش کشمیر کے حوالے سے یہ ہے کہ اگر چہ ہماری قانون کی کتاب میں صاف صاف یہ درج ہے کہ ہر فرد یہاں اپنی مرضی سے الیکشن میں حصہ لے سکتا ہے اور ووٹر اپنی مرضی سے ان میں سے جس کو چاہے منتخب کر سکتے ہیں، مگر مسلمانوں کے لئے بالخصوص اور کشمیریوں کے لئے بالعموم ’’دلی کا اصول ‘‘یہ ہے کہ آپ اسی کو منتخب کرو جو ہمارا منظورِ نظر ہو، نہیں تو ہم اپنے منشا کے خلاف نمائندے کو چوریاں کر کے بھی ہرا سکتے ہیں ۔اسی طرح بھارت کی سرحدوں کے اندر رہنے والے ہر شہری کو پرامن احتجاج کا حق حاصل ہے مگر اس کے لئے بھی شرط یہ ہے کہ اس کے اوپر ہماری مہر لگی ہو نہیں تو ہر وہ احتجاج انتہا پسندی کے زمرے میں شامل ہوگا جو ہمارے منظور نظر افراد کے سوا کسی اور کی قیادت میں کیا جائے ۔

سید علی گیلانی ہی نہیں بلکہ ان کے دست راس محمد اشرف صحرائی اور میر واعظ کشمیرمولوی عمر فاروق کو بھی ہر دوسرے روز نظر بند رکھا جاتا ہے ۔محمد یسٰین ملک کو ہر دوسرے روز گرفتار کر کے سینٹرل جیل کی زینت بنادیا جاتا ہے ۔گیلانی صاحب کی تحریک حریت کے بیشترذمہ داران اور اراکان جیلوں میں بند ہیں ۔دس بارہ افراد کو پہلی بار این ،آئی ،اے نے کشمیر سے گرفتار کر کے دہلی کے تہاڑ جیل میں بند رکھا ہے ۔ڈاکٹر محمد قاسم ،ڈاکٹر محمد شفیع خان (شریعتی)،غلام قادر شیخ ،نذیر احمد اور کئی درجن نوجوان کئی کئی سالوں سے جیلوں میں بند ہیں ۔جن میں اکثریت ان قیدیوں کی ہے جو پر امن جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں ۔آسیہ اندرابی اور فہمیدہ صوفی کوچند روز قبل نو ماہ بعد جیل سے رہا کیا گیا ۔گویا بھارت کشمیری آزادی پسند سیاسی لیڈرشپ اور کارکنان کو یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ پر امن ذرائع جدوجہد کے راستے آپ کے لئے بند ہیں۔ایسے میں القائدہ اور داعش جیسی تنظیموں کو پنپے کا موقع ملتا ہے اور نوجوانوں میں مایوسی کی لہر دوڑتی ہے اور قدرتی طور پر وہ ریاستی جبر کا جواب جبر سے دینے کے لئے اپنے آپ کو حق بجانب سمجھتے ہیں اور پھر دلی کے ’’حواس باختہ‘‘ٹیلی ویژن چینلز پر براجمان اینکروں کی چیخ و پکار ،فوج اور پولیس کی گولی ،پیلٹ اور گرفتاری سے یہ نوجوان نہیں گھبراتے ہیں بلکہ ان تمام کاروائیوں کو اپنے لئے ’’میعارِ حق‘‘قرار دیتے ہیں ۔اس موقع پر کسی عالم کا علم اور کسی دانشور کی دانشوری بے سود اور بے کار ہو جاتی ہے اور بسااوقات معاملات عراق اور شام جیسے خوف ناک رخ پر چلنے شروع ہو جاتے ہیں ۔

سید علی گیلانی عمرکے اس مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں جہاں انسانیت تقاضا کرتی ہے کہ انہیں بھر پورہمدردی اور شفقت فراہم کی جائے چہ جائیکہ مکمل نظر بندی ۔آٹھ برس سے ان کی رہائیش گاہ پر نہ صرف پولیس اور سراغرساں اداروں کے اہلکاروں نے ڈھیرے ڈال رکھے ہیں بلکہ اب 2016ء سے اس پہرے میں سی آر پی ایف بھی شامل کی جا چکی ہے ۔اتنا ہی نہیں بلکہ پولیس ہر آنے والے مہمان کا اندراج ایک رجسٹر میں کر کے گویا آنے والوں کو نہ آنے کا انتباہ دیتی ہے ۔حد یہ کہ اب ہر وقت کیمروں سے گیٹ پر صورتحال کو فلمایا جاتا ہے گویا یہ حیدرپورہ نہیں بلکہ جیل خانہ ہے جہاں قید سیاسی لیڈر نہیں بلکہ کوئی خونخوار قاتل ہو ۔خود بھارت کے نامی لیڈرانگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے نام پر کئی مرتبہ جیل جا چکے ہیں مگر کیا کبھی گاندھی جی،مولانا ابوالکلام آزاد ،مولا نا شوکت علی اور دیگر مسلم و غیر مسلم لیڈران کو ایسی صورتحال پیش آئی ہے جس صورتحال سے کشمیری لیڈرشپ کو سابقہ اور پالا پڑا ہے ؟۔ٹھیک ہے یہ اب گاندھی کا ہندوستان نہیں بلکہ مودی کا ملک ہے مگر کیا مسائل کو حل کرنے کا شائستہ طریقہ کار یہی ہو سکتا ہے جبکہ خود بھارت مسئلہ کشمیر کی حقانیت کا اعتراف کئی بار کر چکا ہے ایسے میں عقل ،قانون اور اخلاق تقاضا کرتا ہے کہ بھارت ’’عمر رسیدہ اوربیمار سید علی گیلانی ‘‘ کو بلا توقف اوربغیر حیل وحجت کے نظر بندی ختم اور پابندیوں سے آزاد کر کے خوشگوار ماحول تیار کرے تاکہ آزادی پسندوں میں ایک مثبت پیغام بھیجنے کا آغاز ہو اور پتہ چلے کہ جمہوریت کے دعویدار بھارت نے اپنی سیکولر روایات کی پابندی کرتے ہو ئے گاندھی جی کے پیغام اہنسا کو ابھی بھی فراموش نہیں کیا ہے۔

altaf
About the Author: altaf Read More Articles by altaf: 116 Articles with 83634 views writer
journalist
political analyst
.. View More