5جنوری2018کا دن پاکستان،آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر میں
اقوام متحدہ کی مسئلہ کشمیر کے بارے میں حق خود ارادیت کی قرار داد کے
حوالے سے منایا گیا۔آزاد کشمیر میں یہ دن سرکاری سطح پر منایا گیا اور اس
موقع پر آزاد کشمیر اسمبلی کا اجلاس بھی منعقد کیا گیا۔اسلام آباد میں حریت
کانفرنس آزاد کشمیر شاخ کے دفتر میں منعقدہ تقریب سے صدر آزاد کشمیر سردار
مسعود خان اور حریت نمائندگان نے اظہار خیال کیا۔ کشمیر کے حوالے سے قائم
این جی اوز کی طرف سے بھی اسلام آباد میں اس حوالے سے تقریبات کا اہتما م
کیا گیا۔کشمیریوں کے یوم حق خود ارادیت کے حوالے سے آزاد کشمیر اسمبلی کے
اجلاس اور تمام سرکاری و غیر سرکاری تقریبات میںہونے والے اظہار خیال سے
یہی تاثر ملتا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 5جنوری1948کو کشمیریوں
کے حق خود اردیت کی قرار داد منظور کی ۔چند تقریبات میں آویزاں کئے گئے
بینرز میں بھی یہی لکھا دیکھا گیا کہ'' اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی حق
خود ارادیت کی قرار داد''۔کشمیر میڈیا سروس کی طرف سے جاری خبر میں بھی کہا
گیا کہ1949کو اس دن اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے کشمیریوں کے حق خود
ارادیت کی قرار داد منظور کی ۔ اس سے یہ حقیقت کھل کو سامنے آ گئی ہے کہ
مسئلہ کشمیر اور مسئلہ کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی
قراردادوں اور اقوام متحدہ کی کشمیر سے متعلق کاروائیوں سے متعلق وسیع
پیمانے پر لاعلمی پائی جاتی ہے اور یہ لاعلمی سرکاری اور سیاسی سطح پر بھی
نمایاں ہے۔اگر مسئلہ کشمیر اور اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر سے متعلق
قراردادوں اور کاروائیوں سے آگاہی کا یہ عالم ہے تو عالمی سطح پر مسئلہ
کشمیر اجاگر کرنے کا دعوی کیسے کیا جا تا ہے؟لاعلمی کے اس کھلے اظہار کے
ساتھ کشمیر کاز کی وکالت کیسے کی جاتی ہے؟مسئلہ کشمیر سے متعلق پاکستان اور
بیرون ممالک کیسے آگاہی فراہم کی جاتی ہے؟ یہ مسئلہ کشمیر پر آزاد کشمیر
اور پاکستان میں سرکاری اور سیاسی سطح پر غیر سنجیدگی کا تلخ حقائق کا
اظہار ہے۔
اقوام متحدہ میں نمائندگی کی حامل جموں و کشمیر کونسل فار ہیومن رائٹس کے
سربراہ ڈاکٹر سید نزیر گیلانی نے یوم حق خود اردیت کے حوالے سے کشمیر کے
مقدمے پر پائی جانے والی اس سمجھ(سوجھ بوجھ) کو ناقابل اعتبار قرار دیا
ہے۔ڈاکٹر گیلانی کا کہنا ہے کہ 5جنوری2018کو یوم حق خود ارادیت منایا جانا
اچھا اقدام ہے تاہم5جنوری1949کو سلامتی کونسل سے قرار داد منظور ہونے کی
بات غلط ہے۔ کشمیر کے مقدمے کے بارے میںاس طرح کی ناقابل اعتماد
سمجھ(تفہیم)مسئلہ کشمیر کی وکالت میں بڑا مسئلہ ہے جسے درست کرنے کی ضرورت
ہے۔ڈاکٹر نزیر گیلانی نے کہا کہ 5جنوری1949کی قرار داد اقوام متحدہ کی
سلامتی کونسل کی قرار داد نہیں ہے جیسا کہ یوم حق خود ارادیت کی تقریبات
اور میڈیا میں کہا جا رہا ہے۔یہUNCIP(یونائیٹڈ نیشن کمیشن انڈیا پاکستان)کی
قرار داد ہے جس میں ریاست جموںو کشمیر میں رائے شماری کے بنیادی اصول کی
بات کی گئی ہے۔یہ دوسری عبوری رپورٹ کا حصہ تھی جو کمیشن (UNCIP) کے چیئر
مین کی طرف سے10 جنوری 1949کو سلامتی کونسل کے صدر کو پیش کی گئی اور یہ
اقوام متحدہ کی ریکارڈ میں زیر نمبرایس/ 1196موجود ہے۔5جنوری 1949کو کمیشن
کی قرارداد 23دسمبراور25دسمبر کو ہندوستان اور پاکستان کی حکومتوں سے رابطے
کے بعد تیار کی گئی۔اس قرار داد کے 10اصول ہیں جو دونوں ملکوں کی طرف سے
قبول کئے جانے تیارکئے گئے اور یہ اصول کمیشن کی13اگست1948کی قرار داد کا
حصہ ہیں۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے5جنوری1949کو ہندوستان-پاکستان کے
سوال کو زیر غور نہیں لایا اور5جنوری1949کو سلامتی کونسل کی کوئی قرارداد
نہیں ہوئی۔'اقوام متحدہ کی کمیشن ہندوستان -پاکستان ' کی5جنوری1949کی قرار
داد ایک اہم قرارداد ہے جس کے دس اصول اقوام متحدہ کی طرف سے رائے شماری کے
طریقہ کار کو بیان کرتے ہیں۔ڈاکٹر نزیر گیلانی نے کہا کہ کشمیر کے مقدمے
میں قابل اعتماد سوجھ بوجھ کا ہونا بہت اہم ہے۔کمیشن نے 7جنوری1949کی صبح
پریس کو جاری کرنے کے لئے ایک بیان بھی تیار کیا جو ہندوستان اور پاکستان
کی حکومتوں کو بھی ارسال کیا گیا۔
تاریخی حقائق کے مطابق بھارت نے یکم جنوری 48 ء کو ان نکات پر مسئلہ کشمیر
سلامتی کونسل میں پیش کیا کہ 1 ۔ حملہ آوروں کو پاکستانی علاقے سے گزر نے
نہ دیا جائے ۔2 ۔ حملہ آوروں میں پاکستانی شہری بھی شامل ہیں۔ 3 ۔ حملہ
آورورں کا بیشتر اسلحہ، فوجی رسد ذرائع نقل و حمل پاکستان کا مہیا کردہ ہے
اور پاکستانی افسران ان کو تربیت دے رہے ہیں اور امداد کر رہے ہیں۔ 15
جنوری 48 ء سے سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر پر بحث شروع ہوئی اور 20 جنوری
کو ایک قرارداد میں سلامتی کونسل کا ایک کمیشن برائے ہندو پاک مقرر کرنے کا
اعلان کیا گیا۔ 28 جنوری 48 ء کو صدر سلامتی کونسل نے اعلان کیا کہ
ہندوستان اورپاکستان حسب ذیل باتوں پر متفق ہوگئے ہیں۔1 ۔ ریاست جموں
وکشمیر کے مستقبل کا فیصلہ استصواب رائے کے ذریعے طے ہوگا۔ 2 ۔ استصواب
رائے مطلقاً غیرجانبداراور آزاد فضا میں کیا جائے گا۔ 3 ۔ استصواب رائے
اقوام متحدہ کی زیر نگرانی ہوگا۔ کمیشن برائے ہندوستان و پاکستان میں 1 ۔
ارجنٹائن کے ڈاکٹر ریکارڈوجے سری (پاکستان کا نامزد کردہ)2 ۔ چیکو سلاواکیہ
کے جوزف کاربیل (بھارت کا نامزد کردہ) 3 ۔ بیلجیئم کے آیگرٹ گرایفے۔4 ۔
کولمیا کے ابزٹوجی فرینڈ ہنر۔ (5 ) امریکہ کے جے ہڈل شامل تھے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے کمیشن نے13 اگست 48 ء کو دونوں فریقوں کی
رضا مندی سے قرارداد کا اعلان کیا۔(حصہ اول)(1)۔ہندوستان اور پاکستان کی
حکومتیں ایک ہی وقت جنگ بندی کا حکم دیں گی۔(2)۔دونوں جانب سے کوئی ایسا
اقدام نہ ہوگا جس سے کشمیرمیں ان کی فوجی طاقت میں اضافہ ہو۔2۔ کمیشن جنگ
بندی پر عمل کرانے کے لئے فوجی مبصرین مقرر کرے گا۔3 ۔ دونوں حکومتیں اپنے
عوام سے اپیل کریں گی کہ وہ گفت وشنید کے لئے فضا کو خوشگوار بنانے میں
تعاون کریں۔(حصہ دوم)حصہ اول و متارکہ جنگ کی منظوری کے بعد دونوں حکومتیں
ایک عارضی صلح نامہ کریں گی اس کی تفصیلات ان کے نمائندے اور کمیشن طے کرے
گا۔ 1۔حکومت پاکستان اپنی فوج واپس بلانے پر رضا مند ہے۔2 ۔ پاکستان اپنی
بہترین مساعی ان قبائلیوں اور پاکستانی باشندوں کو واپس بلانے پر صرف کرے
گا جو جنگ کی نیت سے کشمیر گئے ہیں۔ 3 ۔ آخری تصیفیہ تک جو علاقہ پاکستانی
فوج خالی کرے گی اس میں کمیشن کی نگرانی میں مقامی حکام کا نظم و نسق چلے
گا۔ 1۔ ب: جب کمیشن حکومت ہند کو یہ اطلاع دے گا کہ حصہ دوم الف نمبر 2 کے
مطابق قبائلی اور پاکستانی شہری واپس بلائے گئے او رمزید یہ کہ پاکستان کی
فوج ریاست سے واپس بلائی گئی تو حکومت ہند اس پر رضا مند ہے کہ اپنی فوج کا
بیشتر حصہ کمیشن کے مشورے سے واپس بلائے گی۔ 2 ۔ آخری تصفیہ تک حکومت ہند
متبارکہ جنگ کے اندر اپنی فوج کے وہ حصے باقی رکھے گی جو قیام نظم و نسق
میں مقامی حکومت کو امداد دینے کے لئے ضروری ہوگی۔ 3 ۔ حکومت ہند اس کی ذمہ
دار ہوگی کہ حکومت ریاست جموں وکشمیر اپنے تمام اختیارات سے کام لے کرامن
وامان کی کفیل رہے گی اور تمام انسانی حقوق کا تحفظ کرے گی۔ (ج) عارضی صلح
نامہ کا پورا متن ایک اعلان کے ذریعے شائع کیا جائے گا۔ (حصہ سوم )حکومت
ہند و پاکستان اپنی اس خواہش کا اظہار کرتی ہے کہ ریاست جموں وکشمیر کا
مستقبل اہل ریاست کی مرضی سے طے کیا جائے گا۔ آزادانہ اظہار رائے عامہ
کیلئے مطلوبہ منصفانہ اور مساویانہ حالات کا تعین کمیٹی سے مشورہ کے بعد
کیا جائے گا۔
مسلسل کئی ماہ کی بحث و تکرار کے بعد یکم جنوری 1949 ء کی رات کو کشمیر میں
جنگ بندی کا اعلان کر دیا گیا۔ 5 جنوری 1949 ء کو کمیشن نے دونوں فریقوں کی
رضا مندی سے اپنی دوسری تاریخی قرارداد پیش کی اس کے پہلے حصہ میں جنگ بندی
کا ذکر تھا جس پر عمل بھی ہوچکا تھا۔ حصہ دوم (عارضی صلح)1 ۔ قبائلیوں اور
پاکستانی شہریوں کو جو جنگ کی غرض سے کشمیر میں ہیں ،سب سے پہلے واپس آنا
ہوگا۔2 ۔ اس شرط کی تکمیل کے بعد پاکستانی افواج اورہندی افواج کا بیشتر
حصہ ریاست سے بیک وقت اور ساتھ ساتھ واپس ہوگا۔ 3 ۔ ہندی فوج کا ایک حصہ اس
علاقہ میں رہے گا جو متارکہ جنگ کے وقت ہندی قبضہ میں ہو اور آزادکشمیر کی
فوج علاقہ آزاد میں بدستور رہے گی۔ 4۔ اس کے بعد کمیشن اور ناظم استصواب
حکومت ہند و پاکستان کی حکومت کے مشورے سے فیصلہ کرے گا کہ ریاستی اور ہندی
فوج کس تعداد میں ریاست میں رہنے دی جائے اور آزاد فوج سے کیا کام لیا
جائے۔ (حصہ سوم )1 ۔ عارضی صلح کے بعد انتظامات مکمل ہوتے ہی استصواب رائے
عامہ ہوگا۔ 2 ۔ ناظم استصواب بین الاقوامی شہرت کے حامی ہوں گے ،جن کی
نامزدگی اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کریں گے۔ اس کی رسمی تقرری کا اعلان
ریاست جموں و کشمیر کی حکومت کرے گی۔ 3 ۔ ناظم آزاد اور بے لاگ استصواب
کیلئے ضروری اختیارات کے مالک ہوں گے۔ 4 ۔ اپنے معاونین و مبصرین کی بابت
فیصلہ ناظم استصواب خود کریں گے۔ 5 ۔ ناظم کو یہ فیصلہ بھی کرنا ہوگا کہ
باقی ماندہ ہندی فوج اور ریاستی فوج کو کہاں رکھا جائے تاکہ استصواب پر اثر
انداز نہ ہوسکے۔ 6 ۔ ریاست سے خارج کردہ اورخارج شدہ باشندگان ریاست باآرام
و آزادی واپس آسکیں گے اور ریاست میں اپنے تمام شہری حقوق حاصل کریں گے۔
مسلم مہاجرین کی واپسی کی نگرانی ایک کمیشن کرے گا۔ جس کے ممبران پاکستان
کے نامزد کردہ ہوں گے۔ اسی طرح غیر مسلم پناہ گیروں کی واپسی بھی ہندوستان
کا نامزد کردہ کمیشن کرے گا۔ 7 ۔ جو لوگ ناجائز مقاصد کیلئے 15 اگست 1947 ء
کے بعد ریاست میں داخل ہوئے ہیں وہ ریاست بدر ہوں گے۔ لیکن وہ غیر ریاستی
جو جائز مقصد اور جائز سیاسی سرگرمیوں کیلئے آئیں گے، ان پر کوئی پابندی نہ
ہوگی۔
22 مارچ 49 ء کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل ٹریگولی نے امریکی ایڈمرل
چسٹرنمٹزکو ہندوستان و پاکستان کی رضا مندی سے ناظم استصواب نامزد کیا۔ 25
دسمبر 48 ء کو کمیشن نے دونوں حکومتوں کی رضا مندی کے ساتھ 13اگست 48 ء کی
قرارداد کی حصہ سوم کی شرائط پیش کیں۔ 1 ۔ ریاست جموں وکشمیر کے ہندوستان
یا پاکستان کے ساتھ الحاق کا سوال ایک آزادانہ و غیر جانبدارانہ استصواب
رائے عامہ سے ہوگا۔ 2 ۔ ناظم استصواب کا یہ فرض ہوگا کہ وہ دیکھے کہ جائز
سیاسی سرگرمیوں پر ریاست میں کوئی پابندی نہ ہو تمام ریاستی باشندے آزادی
کے ساتھ اپنی رائے کا اظہار کر سکیں ریاست میں پریس پلیٹ فارم سفر اور جائز
طور پر آنے جانے کی پوری پابندی ہو۔ 3 ۔ تمام سیاسی قیدی رہا کر دیئے گئے۔
4 ۔ ریاست کے تمام حصوں کو اقلیتوں کو پورا تحفظ حاصل ہے ۔5 ۔ کہ منتقمانہ
کارروائی تو نہیں ہو رہی ہے۔ 6 ۔ استصواب کے خاتمہ پر ناظم استصواب نتیجے
سے کمیشن اور حکومت ریاست جموں وکشمیر کو مطلع کردے گا۔ اس کے بعد کمیشن کے
سامنے اس امر کی تصدیق کرے گا کہ آیا استصواب آزادانہ اور غیر جانبدارانہ
ہوا ہے یا نہیں۔
جب ان قراردادوں پر عمل کا وقت آیا تو بھارتی حکومت نے نت نئے مسائل پیدا
کئے۔ اس کے برعکس پاکستان نے 10 فروری 49 ء تک تمام قبائلی اور پاکستانی
باشندے آزادکشمیر سے واپس بلائے اور اس طرح کمیشن کی قرارداد کے اہم ترین
حصہ پر عمل کیا۔ بھارت نے قراردادوں کی ایک شرط کو بھی پورا نہ کیا۔ اس کے
بعد کمیشن کی ناکامی پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے سراون ڈکسن، ڈاکٹر
گراہم اورمسٹر جارنگ کو ان بنیادی قراردادوں پر عمل کرانے اور اس سلسلے میں
ہندوستان اورپاکستان کی حکومتوں کے درمیان اختلافات ختم کرانے کیلئے مقرر
کئے۔ لیکن یہ سب نمائندے بھارت کے حکمرانوں کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ناکام
ہوگئے اور پرنالہ وہیں کا وہیں رہ گیا۔15 فروری 1957 ء کو سلامتی کونسل میں
آسٹریلیا کیوبا برطانیہ اور امریکہ نے ایک مشترکہ قرارداد پیش کی جس میں
تجویز کیا گیا کہ ریاست جموں وکشمیر سے تمام غیر ملکی فوجوں کو نکال کر
وہاں اقوام متحدہ کی فوج تعینات کی جائے۔ بھارت نے اس کی بھی مخالفت کی جب
کہ پاکستان اس کے لئے بھی آمادہ تھا سلامتی کونسل کے 11 ممبروں میں سے 9 نے
اس کی حمایت کی سویڈین غیر حاضر رہا ۔ روس نے ویٹو کا استعمال کر کے اقوام
متحدہ کی اس ٹھوس کوشش کو ناکام بنا دیا۔ 21 فروری 57 ء کو سلامتی کونسل نے
صفر کے مقابلے میں 10 ووٹوں سے مسٹر جارنگ کو پھر ہندوستان اور پاکستان میں
تصفیہ کرانے کے لئے روانہ کیا۔ ایک طویل گفت و شنید کے بعد مسٹر جارنگ نے
اپنی ناکامی کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے یہ سفارش کی کہ بھارت اور پاکستان براہ
راست بات چیت کے ذریعے مسئلہ کشمیر حل کرنے کی کوشش کریں لیکن بھارت کے
حکمران بظاہر اس پر بھی آمادہ نہیں کیونکہ وہ بزعم خود اسے ایک طے شدہ
مسئلہ خیال کرتے ہیں۔ بہرحال مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں
ایک زندہ مسئلہ ہے یہ ٹھیک ہے کہ فی الحال وہ اسے ٹال رہے ہیں لیکن کشمیری
عوام کا عزم آزادی ایک دن سلامتی کونسل کو مجبور کر دے گا کہ وہ تنازعہ
کشمیر کو بین الاقوامی دنیا میں ایک مسئلہ قرار دے کر فوری طور پر حل کرنے
کی کوشش کریں۔ مگر اس کے لئے کشمیری عوام کو یہاں وہی حالات پیداکرنے ہوں
گے۔ جو الجزائر اور کانگو کے حریت پسند وں نے اپنے علاقوں میں پیدا کئے
ہیں۔ |