ڈونلڈ ٹرمپ وہ شخص ہیں جو پاکستان سے متعلق ہمیشہ کچھ
نہ کچھ بولتے رہتے ہیں۔جس کے بعد پاکستان کے اندر ایک محاذ کُھل جاتا ہے۔
عوام ، سیاست دان ، تجزیہ کاراور اہل قلم حضرات اپنے تبصروں سے مختلف
پہلوؤں پر سیر حاصل بحث کرتے ہیں۔یہ سلسلہ کئی ہفتوں تک بلا تعطل جاری رہتا
ہے۔پھر موضوع جیسے ہی پُرانا ہونے لگتا ہے توٹرمپ کی جانب سے ایک اور بیان
داغ دیا جاتا ہے۔بسا اوقات اُن کے بیانات سے متعلق یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ
جب بھی وہ پاکستان کے خلاف کوئی بیان دیتے ہیں تو ہماری سیاسی جماعتوں کے
درمیان اتحاد واتفاق کی فضا دیکھنے کو ملتی ہے۔ اور عسکری قیادت ملکی دفاع
کے لئے ہمیشہ کی طرح بھر پور عزم کا اظہار کرتی ہے۔ پس ٹرمپ کے بیانات پر
زیادہ ناراض اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی اس کے بیانات کو
سنجیدہ لیا جائے۔ البتہ ہمیں اُن کا شکر گزر ہونا چاہیئے کہ وہ ہماری قوم
کو یکجا و متفق کرنے کے مواقعے فراہم کرتے رہتے ہیں۔
اگر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات کاسرسری جائزہ لیا جائے تو اس کے پیچھے تین پہلو
بہت نمایاں نظر آتے ہیں۔پہلا پہلو یہ ہے کہ اس وقت امریکہ اور اس کے اتحادی
افغان جنگ کی دلدل میں بُری طرح پھنس چکے ہیں۔سترہ سال سے جاری بے نتیجہ
جنگ سے اُن کا نکلنا ناممکن بن چکا ہے۔ نئی افغان پالیسی کے بعد سے نیٹو
اور افغان سکیورٹی فورسسز کی طالبان کے ہاتھوں جو دُرگت بنی ہوئی ہے ۔ اس
کی بوکھلاہٹ ٹرمپ اور اس کی ٹیم کے بیانات سے بالکل واضح ہے۔ شکست کا سارا
ملبہ پاکستان پر ڈالا جا رہا ہے۔ دوسرا اور اہم پہلو ٹرمپ کی اسلام اور
پاکستان دشمنی ہے ۔ جس کا بَرملا اظہار وہ اقتدار سے پہلے اور بعد میں اپنے
بیانات اور وعدوں میں کرچکے ہیں۔راقم الحروف بارہا اپنے کالموں میں یہ بات
لکھ چکا ہے کہ ٹرمپ کے حوالے سے پاکستان کو زیادہ اُمیدیں نہیں رکھنی
چاہیئے۔ ڈومور اور حقانی نیٹ ورک سے متعلق مطالبات بار بار دہرائے جائیں گے۔
اس کے علاوہ امداد کو روکا اور مشروط بھی کیا جائے گا۔ ٹرمپ کے بیانات کے
پیچھے تیسرا پہلو امریکہ اور بھارت کے پروان چڑھتے تعلقات ہیں۔جس کی وجہ سی
پیک اور چین کا گلوب میں پھیلتا ہوا معاشی اثر و رسوخ ہے۔ چین کی سرمایہ
کاری نہ صرف جنوبی ایشیا تک محدود ہے بلکہ مشرق وسطی اور براعظم یورپ و
افریقہ تک پھیلتی جارہی ہے۔ ایک خطہ اور ایک سڑک کے منصوبہ سے دنیا کے ایک
تہائی سے زائد ممالک مستفید ہو رہے ہیں۔ جس سے امریکہ کی معاشی ساکھ کے
ساتھ ساتھ بد معاشانہ ساکھ بھی بُری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ اس مقصدکے لئے اس
خطہ میں بھارت کے ساتھ تعلقات کو بڑھوتی دے رہا ہے۔ ’’ آدمی اپنی صحبت سے
پہچانا جاتا ہے ‘‘ کے مصداق وہ اَب بھارت کی زبان میں پاکستان سے بات کرتا
ہے اور بھارت کو خوش رکھنے کی خاطر پاکستان کے خلاف بیانات سے گریز نہیں
کیا جاتا ہے۔
یہ وہ تین پہلو ہیں جو بالکل نمایاں اور واضح نظر آتے ہیں۔لیکن راقم الحروف
کے نزدیک چوتھا پہلو بھی ہے جو مالی امداد دینے اور اس پر گاہے بگاہے
پابندئیاں عائد کرنے کے تناظر میں پاکستان کو معاشی لحاظ سے ایک بدحال ملک
دکھاناچاہتا ہے۔ جس کا بُرا تاثر ملک کے اندر اور باہر ڈیو یلپ ہو چکا ہے ۔یہ
عمل پچاس کی دہائی سے جاری ہے جب امریکہ نے ایک معاہدے تحت 65 ء کی جنگ سے
قبل تک تین ارب بیس کروڑ ڈالر امداد دی تھی اور جس کو 1979 ء میں جوہری
پلانٹ کی موجودگی کے انکشاف پر روک دی گئی۔ تاہم افغان جنگ کے دوران پانچ
ارب ڈالر کی رقم دی گئی۔ پریسلر ترمیم کے بعد سنہ 2000 تک پچاس کروڑ ڈالر
امداد ملی۔ اَب سال ِ نو کے آغاز پر امریکی صدر نے اپنے ٹویٹر پیغام میں
کہا کہ امریکہ نے گزشتہ 15 سالوں میں پاکستان کو 33ارب ڈالر امداد دی ہے جب
کہ انہوں نے ہمیں سوائے جھوٹ اور دھوکے کے کچھ نہیں دیا۔ شاید امریکی صدر
پاکستان کے ہزاروں شہداء کی قربانیوں کو نہ صرف بھول گئے ہیں بلکہ 13 ارب
ڈالر کولیشن سپورٹ فنڈ کے اخراجات کو بھی اسی کھاتے میں ڈال دیا گیا۔یاد
رہے کہ اَب بھی 9 ارب ڈالر کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں واجب الادا ہیں۔ پس
من حیث القوم ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اندرونِ خانہ اختلافات کو
بالائے طاق رکھ کر اتفاق و یک جہتی کا مظاہرہ کریں ، ملکی عزت و وقار کو
مجروح نہ ہونے دیا جائے اور دنیا بالخصوص امریکہ کو یہ واضح پیغام دیں کہ
ہم ایک خود مختار ملک ہیں اور ہم کسی کے محتاج نہیں بلکہ دنیا ہماری محتاج
ہے۔ |