ائر مارشل (ر) محمد اصغر خان کو بہت قریب سے دیکھنے کا
اتفاق تو نہیں ہوا البتہ نو ستاروں کی تحریک میں متعدد بار جلسوں میں انہیں
دیکھنے اور سننے کا اتفاق ہوا۔ ذولفقار علی بھٹو کے خلاف نو ستاروں کی
تحریک کے سرگرم بلکہ تحریک کے روح رواؤں میں سے تھے۔ مذہبی شخصیات میں
علامہ شاہ احمد نورانی صف اول کے لیڈروں میں سے تھے جن کو عوام پسند کیا
کرتے تھے اور دوسرے لیڈر اصغر خان ابھر کر سامنے آئے جنہیں پشاور سے کراچی
تک، کشمیر سے گوادر تک عوام کی پسنددیگی حاصل تھی۔ ان کا کراچی کا جلسہ یا
جلوس پاکستان کی سیاست میں ایک تاریخی جلوس تھا جس کی مثال نہیں ملتی۔ یہ
ہماری جوانی کا دور تھا ، 1971-72میں ہم جامعہ کراچی کے طالب علم تھے۔
سیاست میں بھی فعال تھے، نو ستاروں کے جھرمٹ کو اس وقت پسند کیا کرتے اور
ان کی سرگرمیوں میں شریک رہا کرتے تھے۔
ذولفقار علی بھٹو کے خلاف نو ستاروں کی تحریک پی این اے (پاکستان قومی
اتحاد) کی تحریک کہلاتی تھی اس میں اصغر خان کے کردار کو در گزر نہیں کیا
جاسکتا ۔ وہ ذولفقار علی بھٹو کی حکومت کے خاتمے کے مرکزی کردار سمجھے جاتے
ہیں۔ پشاور سے کراچی تک اصغر خان کی مقبولیت عروج پر تھی۔ ان کا کارواں جب
کراچی پہنچا تو وہ جلوس پاکستان کی سیاسی تاریخ کا سب سے بڑا جلوس تھا جس
میں یہ ناچیز بھی شریک تھا۔ خیال یہی کیا جارہا تھا کہ بھٹو صاحب کی حکومت
کے خاتمے کے بعد ائر چیف مارشل (ر) محمد اصغر خان پاکستان کے حکمرانوں میں
شامل ہو کر پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں اہم کردار ادا کریں
گے۔ 1972سے1977تک ملک کی سیاست اور بھٹو صاحب کی مخالفت میں نوستاروں میں
ایک ستارہ ائر مارشل (ر) محمد اصغر خان تھے ۔ ان کی مقبولیت کا اندازہ اس
بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مارچ1977کے انتخابات میں ائر مارشل (ر) محمد
اصغر خان ایبٹ آباد اور کراچی کے دو حلقوں سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب
ہوئے، انہیں یوں تو پورے ملک میں پسند کیا جارہا تھا لیکن کراچی کی سیاست
میں کراچی عام طور پر سیاست کے سفر میں مخالف سمت چلتا رہا ہے اس لیے اصغر
خان صاحب کراچی کے مقبول ترین شخصیت تھے۔ لیکن نوستاروں نے بائیکاٹ کیا ،
حلف نہیں اٹھایا، نتیجہ یہ ہوا کہ سیاست نے ایسی کروٹ لی کے جمہوریت تو
کیابحال ہوتی فوج کے سربراہ جنرل ضیاء الحق نے 5 جولائی 1977ء کو مارشل لا
ء لگا کر بھٹو صاحب کو جیل جب کہ نو ستاروں کو اپنے اپنے گھربھیج دیا۔ جنرل
ضیاء الحق کے مارشل لا ء میں اصغر خان صاحب کو ذمہ دار ٹہرایاگیا ، لیکن وہ
ضیاء کی حکومت میں کسی بھی مرحلے میں شریک نہیں ہوئے۔ ان پر مارشل لاء کی
حمایت کر نے کا الزام ضرور عائدہوا، کیونکہ اصغر خان بھی فوجی ہی تو تھے
فرق اس قدر تھا کہ وہ آرمی کے بجائے ائر فورس کے سربراہ رہے تھے۔ بہت ممکن
ہے کہ ضیاء الحق نے انہیں اعتماد میں لیا ہو ، لیکن اس قسم کی بھی کوئی بات
سامنے نہیں آئی۔
اصغر خان صاحب بحیثیت انسان بہت نفیس ، ایماندار، محب وطن ، پر خلوص، سچے
پاکستانی اور بلند کردار کے مالک تھے۔ انہیں پاکستان کی فضائیہ کا
پہلاکمانڈر انچیف ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ 17جون 1921ء کو جموں میں پیدا
ہوئے گویا وہ پیدائشی کشمیری تھے اور 6جنوری 2018ء کو 97 سال کی عمر میں
داعی اجل کو لبیک کہا۔ ان کی زندگی کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے
ایک فوجی یعنی رائل انڈین ملٹری کالج ڈیرہ دون میں تعلیم ، 1940ء میں
گریجویشن اور اِسی سال نویں رائل دکن ہارس میں کمیشن آفیسر ، 1941ء میں
انڈین ائر فورس اور پھر قیام پاکستان کے بعد پاکستان ائر فورس میں خدمات کا
دائرہ1965ء تک وسیع رہا۔ وہ 1957ء میں 36سال کی عمر میں ائر وائس مارشل ،
1958ء میں ائرمارشل اور1965ء میں ائر فورس سے ریٹائرہوئے۔ دوسرا دور سیاست
کا رہا بھٹو صاحب کی حکومت گرانے میں وہ سیاست کی بلندیوں پر رہے ضیاء الحق
کی حکومت اور اس کے بعد کے دور میں وہ سیاست تو کرتے رہے لیکن پاکستانی
سیاست دانوں سے ان کا مزاج نے لگا نہیں کھایا۔ پھر تیسرا دور خاموشی کا تھا
، کافی عرصے وہ سیاست سے کنارہ کش رہے ، اس میں ان کے نجی معاملات کا بھی
کچھ دخل تھا جس میں ان کی بیٹے کی خودکشی جیسے حادثات شامل ہیں۔
ائر مارشل (ر) محمد اصغر خان بلاشبہ نیک ، ایماندار ، سچے اور مخلص
پاکستانی ، محب وطن تھے ان میں موجودہ سیاستدانوں والی چالاکیاں، خودغرضیاں
اور اے ٹی ایم مشین بننے والی خصوصیات نہ تھی ۔ وہ ملک و قوم کے لیے ہمدرد
اورفلاح کا جذبہ رکھتے تھے۔ وہ پاکستان کے روائتی سیاست دانوں کی طرح نہ
تھے۔ انہوں نے ائر چیف کی حیثیت سے 1965کی پاک بھارت جنگ میں رن آف کچھ کے
تنازعے پر بھارتی فضائیہ کے سربراہ کو فون کر کے دونوں ممالک کے ائر فورسز
کواس تنازعے سے دور رکھنے کا اہتمام بھی کیا ،ان کے اس اقدام پر تنقید ہوئی
خاص طورپر ان کے بعد بننے والے ائر چیف مارشل نور خان نے شدید تنقید کی۔
ائر فورس سے ریٹائرہوجانے کے بعد ایوب خان صاحب نے انہیں پی آئی اے کا
سربراہ بنایا ، انہوں نے پی آئی اے کو ترقی دینے میں مثالی کردار ادا کیا،
1969ء میں پی آئی اے سے ریٹائر منٹ کے بعد اصغر خان صاحب نے سیاست کا رخ
کیااور اپنی سیاسی جماعت جسٹس پارٹی بنائی ، بعد میں اس کا نام تحریک
استقلال رکھ دیا۔ ایوب خان کے خلاف وہ ذو الفقار علی بھٹو کے ساتھ تھے،
الیکشن بھی لڑا لیکن ہار گئے تھے ، 1977کے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف
بھٹو صاحب کے خلاف سیاسی لیڈروں میں صف اول میں دکھائی دیے۔ بھٹو صاحب کے
مقابلے میں لگتا تھا کہ وہ ہی دوسرے بھٹو ثابت ہوں گے ۔ وہ نو ستاروں کی
تحریک میں سیاست میں صف اول کے لیڈر شمار کیے جارہے تھے لیکن وہ شریف انسان
تھے، سیاست کا ساتھ نہ دے سکے۔ پی این اے کی تحریک جمہوریت تو بحال نہ
کرسکی ضیاء الحق کو ملک پر مسلط کر دیا۔ جس کے نتیجے میں بھٹو صاحب اقتدار
سے گئے ، قید ہوئے پھر تختہ دار پر لٹکا دئے گئے، نوستارے اپنے اپنے گھر وں
کو لوٹ گئے، ضیا ء الحق نے ملک پر حکومت کی ، آخر کارطیارہ حادثہ میں جان
بحق ہوگئے۔ ملک کی سیاست جمہوریت کی پٹری پر تو چھڑگگئی لیکن اصغر خان کی
سیاست دم توڑ گئی، ان میں سیاستدانوں والی لچک ، توڑ جوڑ ، آج ایک پارٹی
میں کل دوسری پارٹی میں جانے والی خصوصیات نہ تھیں ۔ اصغر خان کیس محمد
مشہور ہے وہ اس حوالے سے بھی ملک میں جانے جاتے ہیں، ان کی زندگی میں کیس
پر عمل نہ ہوا ، اب کیا ہوگا، کہتے ہیں کہ اس کیس میں بہت سے پردہ نشینوں
اور طاقت وروں کے نام بے نقاب ہوتے ہیں، حقیقت ہے کہ ائر مارشل (ر) محمد
اصغر خان کی وفات سے ملک کی سیاست میں شرافت کاعنصر جاتا رہا، شرافت کی
سیاست ختم ہوگئی، ایمانداری اور استقامت کا ایک حسین باپ ہمیشہ ہمیشہ کے
لیے بند ہوگیا۔ (8جنوری2018) |