سکیولر بھارت کی موت اور ہندو انڈیا کا احیائ

بھارت میں سیکولر ریاست کے نام پر شروع سے ہی دھوکہ دیا جاتا رہا ہے۔ ہندو، ہندی، ہندوستان کے نعرے اور پھر ہندوستان میں رہنا ہے تو رام رام کہنا ہے۔ کو ایک تحریک کی شکل میں جبراً نافذ کرکے آج تک مسلمانوں، مسیحوں کی زندگی جہنم بنائی جا رہی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بھارت میں سیکولرازم کی غیر طبعی موت ہو چکی ہے جبکہ انتہاء پسند ہندو ریاست کا طے شدہ منصوبے کے تحت حقیقی چہرے کی نقش گری سرکاری سطح پر جاری و ساری ہے۔ سیکولر بھارت اب نام کو بھی سیکولر نہیں رہا جب سے حکومت آر ایس ایس جیسی متشدد تنطیم کی ذیلی شاخ سے وابستہ نریندرامودی جیسی متعصب کٹڑ ہندو ذہنیت سے سرشار شخص کے ہاتھوں میں آئی ہوئی ہے بھارت کی اب یہ سب سے بڑی مشکل ہے کہ وہاں کوئی بھی اقلیت نہ محفوظ ہے نہ ہی ان کی ملی وثقافتی تشخص کا مستقبل محفوظ آج بھارت ایک مکمل ہندو دیش بن چکا ہے یہ ہم نہیں بلکہ خود بھارت کا ایک ممتاز جریدہ 'آوٹ لک' کا ماننا ہے آؤٹ لک کی اشاعت میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں بھارت کا’’ہندوچہرہ‘‘بے نقاب کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ نئی دہلی کے حکمرانوں نے سرکاری سطح پر11 دسمبر2017 کو بابری مسجد کی تباہی کی 25 ویں سالگرہ منائی جوکہ خود بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کی صریحا خلاف ورزی ہے بھارتی اعتدال پسند غیر مسلم دانشوروں نے بھارتی حکومت کے ایک انتہائی اقدام کی شدید مذمت کرتے ہوئے اندیشہ ظاہر کیا کہ مودی کے مسلم دشمنی کے احکامات بھارت کی بقا اور سلامتی کے لئے اعلانیہ خطرہ بنتے جا رہے ہیں۔ یاد رہے بھارت میں مودی جیسے انتہائی درجے کے متعصب مسلم دشمنی پر بھارت کے عوام کے ووٹ سمیٹنے کے لئے مودی نے ایک انتخابی وعدہ یہ بھی کیا تھا کہ وہ اقتدار کا سنگھاسن سنبھالنے کے بعد پہلی فرصت میں ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ ’’رام مندر‘‘کی تعمیر ہر صورت میں کرائیں گے اب دنیا خود دیکھ لے کہ بھارت مودی کی قیادت میں کس خطرناک راستہ پر چل نکلا ہے موہن بھگت سنگھ نے جب سے آرایس ایس کی صدارت کا عہدہ سنبھالا کوئی روز بھارت میں ایسا شائد ہی گزرتا ہوگا جب دیش بھر میں کہیں ’’گاو رکھشا‘‘کے نام پر کسی مسلمان کو انتہا پسند ہندو موت کے گھاٹ نہ اتاردیتے ہوں اب تو بی جے پی نے بھارت کی اہم ریاست اتر پردیش کا ریاستی کنٹرول اپنے ہاتھوں میں لے لیا تو کیا اب دنیا یہ سمجھ لے کہ بھارت میں اعلی ترین عدالتوں کی حیثیت بالکل نہیں رہی یعنی بھارت کے سیکولر چہرہ پر بہت بری طرح سے کالک مل دی گئی اب وہاں اقلیتوں کا کیا مستقبل ہے بھارت میں کسی کے پاس اِس کا جواب نہیں ایودھیا کے سنگین مسئلہ کی بنیادی جزوئیات کو سمجھنے سے قبل ہمیں ذرا ماضی میں جانا پڑے گا جب ’’آپسی بھائی چارے‘‘ کی جو سمجھ ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان انگریز سامراج کو برصغیر سے اکھاڑ پھنکنے کے لئے قائداعظم محمد علی جناح کے دوقومی نظرئیے سے ختم ہونے کے نزدیک تھی وہ کیسے اور کیونکر اچانک ایک نفرت اور متشددانہ فاصلوں میں تبدیل ہوگئی سردار ولبھ بھائی پٹیل اِس کے تنہا ذمہ دار ہیں جنہوں نے باقاعدہ ایک گہری سازش اور بہیمانہ منصوبے کے نکات کو بروئے ِکار لاکر تقسیم ِہند کے موقع پر ’’وہ‘‘اور’’ہم‘‘کا نظریہ دشمنی کے زہریلے نعروں کے ذریعے پورے دیش میں پھیلا کر ایک آگ سی لگا دی دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں مسلمان خاندانوں کا قتل ِعام کیا گیا کروڑوں روپے کی مسلمانوں کی جائیداد تباہ و برباد کر دی گئی مذہبی فرقہ واریت کی بنیاد پر ’’ہندوتوا‘‘کی پیروکار تنظیموں نے جولائی 1992 سے قبل ہی ایودھیا میں بابری مسجد کے مقام پر رام مند ر بنانے کی آوازیں اٹھانا شروع کردی تھیں یہ معاملہ برسوں سے فیصلے کے انتظار میں تھا انگریزوں کے برصغیر سے چلے جانے کے بعد کانگریس کئی دہائیوں تک نئی دہلی میں اقتدار میں رہی لیکن اِس کی اعلیٰ قیادت میں بھی کئی ہندو شخصیات جن کا اندرونی تعلق آرایس ایس سے جڑا ہوا تھا انہوں نے بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے جیسے مذموم عزائم کی حوصلہ افزائی کرنے میں اپنا کردار بخوبی ادا کرنے میں کوتاہی نہیں برتی کانگریسی اقتدار کو نئی دہلی سے مکمل آؤٹ کرنے کے لئے یکایک بی جے پی جوکہ اصل میں آرایس ایس ہی ایک ’’سافٹ‘‘شاخ تھی اس نے موقع غیمت جانا اور1990 میں ایڈوانی نے ہندوعوام میں بیداری کی لہر پیداکرنے کی غرض سے 'رام مند تعمیر' کا کارڈ کھیلا یوں آج بھارت ایک مکمل ہندو دیش کی صورت اختیار کرچکا ہے اکتوبر1992 سے نومبر1992 کے درمیان آرایس ایس کی تقریبا تمام ذیلی متشدد تنظیموں جسیے وشواہندو پریشد’’بجرنگ دل‘‘اور سنگھ پریوارکے کار سیکوں نے تیاریاں زور وشور سے شروع کر دیں ابھی جبکہ اس وقت کے اترپردیش کے وزیرِاعلیٰ کلیان سنگھ نے بھارتی سپریم کورٹ کو یقین دلادیا تھا کہ تاریخی بابری مسجد کوکوئی نقصان نہیں ہونے دیاجائے گا، خود اس وقت کے بھارتی وزیراعظم نرسمہاراو نے پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت ایک سیکولر ملک ہے ہم بابری مسجد کو مکمل تحفظ فراہم کریں گے لیکن 6 دسمبر 1992 کو اعلی بھارتی حکام کی یہ باتیں چکنے گھڑے کی مانند ثابت ہوئیں دنیا بھر کے میڈیا نے دکھلادیا کہ لاکھوں ہندووں کے جنونی لشکر نے 2 بج کر30 منٹ پر مختلف اقسام کے آلات کے ہمراہ دکھاوے کی رکاوٹوں کو دیکھتے دیکھتے عبور کیا۔ مقامی پولیس کھڑی تماشا دیکھتی رہ گئی اور یوں کئی صدیوں سے قائم تاریخی بابری مسجد شہید کر دی گئی۔ بھارتی جریدے آؤٹ لک کے متذکرہ بالا آرٹیکل سے دنیا پر صاف ثابت ہوگیا کہ مودی سرکار نے بھارت سے سیکولرازم کا جنازہ نکال دیا ہے۔

Raja Majid Javed Bhatti
About the Author: Raja Majid Javed Bhatti Read More Articles by Raja Majid Javed Bhatti: 57 Articles with 43805 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.