کلبھوشن کا دہشت گردی کا اعتراف مکرر

پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل کے مطابق کلبھوشن بھارتی ریاستی دہشت گردی کا بدنما چہرہ ہے، اس نے فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن کے متعدد اہلکاروں پر کوئٹہ اور تربت میں حملوں اور مہران بیس حملے میں کالعدم تنظیم کی مدد کا اعتراف کیا، وہ 17 بار پاکستان آیا اور پھر رنگے ہاتھوں پکڑا گیا جبکہ اسے مقدمے میں صفائی کا پورا موقع دیا گیا، ہماری حدود میں ایک بھارتی دہشت گرد پکڑا گیا ہے اور ہمیں بہت سے سوالوں کے جواب چاہئیں، لیکن بھارتی حکومت اس کی وضاحت دینے میں ناکام رہی ہے۔ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ کلبھوشن سے آج اہل خانہ کی ملاقات آخری نہیں جبکہ تاحال قونصلر رسائی کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا اور معاملہ ہمارے پاس ہے، وقت آنے پر اس کا فیصلہ ہوجائے گا، پاکستان نے 30 منٹ ملاقات کی اجازت دی تھی لیکن کلبھوشن کی درخواست پر ملاقات کا دورانیہ 10 منٹ بڑھایا گیا، اس کے اہل خانہ روانگی کے وقت مطمئن تھے۔ڈاکٹر محمد فیصل کے مطابق بھارتی درخواست پر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اس ملاقات کی اجازت دی گئی، کمرے میں نصب شیشہ سانڈ پروف تھا اور بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر نے ساری کارروائی دیکھی لیکن بات چیت نہیں سنی، چونکہ پاکستان نے بھارت کو قونصلر رسائی نہیں دی اس لیے بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر بطور مبصر موجود رہے، اگر بھارتی ہائی کمشنر کو جاسوس سے بات چیت کا موقع دیا جاتا تو پھر یہ قونصلر رسائی ہوجاتی۔

پاکستان نے انسانی ہمدردی کے تحت پاکستانیوں کے قاتل اور دہشت گرد سے اُس کی والدہ اور اہلیہ کی ملاقات کرائی مگر بھارت کتے کی دُم کی طرح کبھی سیدھا نہیں ہوتا اور نہ سیدھی بات کرتا ہے لیکن کلبھوشن نے ایک بار پھر اعتراف دہشت گردی کرتے ہوئے یہ بیان دیا ہے بھارتی عوام جان لیں میں اب بھی راکا ایجنٹ ہوں، پاکستان میں مجھے کسی قسم کے تشدد کا نشانہ نہیں بنایا گیا، والدہ سے ملاقات کرانے پر میں پاکستان کا شکر گزار ہوں۔ دفتر خارجہ سے جاری ہونیوالے ویڈیو بیان میں اس نے اہلخانہ سے ملاقات کرانے پر پاکستان کا شکریہ ادا کیا۔ اس ویڈیو میں کلبھوشن نے کہا کہ ملاقات کے دوران محسوس ہوا والدہ اور اہلیہ خوفزدہ تھیں جب کہ اس موقع پر بھارتی سفارتکار ملاقات کے دوران والدہ کو دھمکا رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ میری والدہ اور اہلیہ کو جہاز میں مار پیٹ کر پاکستان لایا گیا ہے، میری والدہ بہت ڈری ہوئی تھی۔پاکستان کی طرف سے بدنام زمانہ دہشت گرد کلبھوشن سے اسکی والدہ اور اہلیہ کی ملاقات انسانی ہمدردی کے طور پر کرائی گئی مگر بھارت نے اس موقع کو بھی اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی کوشش کی۔ وہ تو پاکستان کے متعلقہ اداروں کو بھارتی مکارانہ ذہنیت کا ادراک تھا چنانچہ اسکی ملاقات کیلئے خصوصی اور منفرد انتظامات کئے گئے تھے۔ ان خواتین کے لباس بدلوا دیئے اور میک اپ اتروا دیا گیا۔ کلبھوشن کی بیوی کے جوتے میں میٹل چپ چھپائی گئی تھی۔ جہاز میں سوار کرانے سے پہلے اور بعد ان کو کلبھوشن کو نقصان پہنچانے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہو گی غالب امکان ہے کہ اسی لئے ان کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہو گا جس کی تصدیق اب کلبھوشن بھی کر رہا ہے۔ پاکستان کے متعلقہ اداروں نے بھارتی جاسوس ادارے را کی سازشیں ملاقات کے خصوصی اقدامات کر کے ناکام بنا دیں۔ ملاقات کیلئے کنٹینر میں تین کیبن بنائے گئے۔ ایک میں کلبھوشن دوسرے میں مہمان خواتین اور تیسرے میں بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر جے پی سنگھ بیٹھے تھے۔ کلبھوشن نے اپنی اہلیہ اور والدہ کے ساتھ انٹر کام پر گفتگو کی۔ اس دوران جے پی سنگھ کا دھاڑنا حیران کن ہے۔ آخر وہ ان خواتین سے کیا چاہتا تھا۔ بلاواسطہ ملاقات نہ کرانے پر بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج اور بھارتی میڈیا پاگل پن میں مبتلا نظر آیا۔ کیونکہ بالواسطہ ملاقات کرانے سے انکی سازشیں خاک میں مل گئیں۔ احسان فراموشی کی کوئی حد ہوتی ہے۔ بھارت نے اپنی فطرت کے مطابق احسان کا جواب سازش اور مکاری سے دینے کی کوشش کی۔ کلبھوشن پاکستان کی سلامتی سالمیت اور بقاء کیخلاف سازشیں کرتا رہا جس سے ہزاروں لوگ متاثر ہوئے سینکڑوں جاں بحق اور زخمی ہوئے۔ انسانی ہمدردی کے تحت اسکی والدہ اور بیوی سے ملاقات کرا دی گئی۔ مزید ہمدردی کا وہ بھی مستحق نہیں ہے۔ اسکی سزا پر جتنا جلد ممکن ہے قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے عمل کر دینا چاہئے۔

بھارتی جاسوسوں اور دہشت گردوں کو سرعام پھانسی دینی چاہئے تاکہ پاکستان کے خلاف دہشت گردی کرنے والے دشمن ممالک کے جاسوسوں کو نشانِ عبرت بنا کر واضح کر دیا جائے کہ پاکستان کے دشمنوں کا سراغ لگانے کا سہرا جہاں آئی ایس آئی کے سر جاتا ہے وہاں حکومت و ریاست پاکستان دہشت گردوں اور جاسوسوں کے لئے کوئی نرم گوشہ نہیں رکھتی۔

Shumaila Javed Bhatti
About the Author: Shumaila Javed Bhatti Read More Articles by Shumaila Javed Bhatti: 18 Articles with 12451 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.