جو حکمران خود غیر جمہوری قوتوں کے بل بوتے پر اپنے وجود
برقرار رکھے ہوئے یا جنہوں نے آمریت کی کوکھ سے جنم لیا ہے ایسے حکمران
قانون کی بالا دستی کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔ اُن کے نزدیک ہر شخص ہر
ادارہ بکاؤ مال ہوتا ہے۔ سیاست میں اُن کے نزدیک صرف طاقت کا حصول ہوتا ہے۔
عوام کی فلاح و بہبود کے ذہن کے کسی گوشے میں پروان نہیں چڑھی ہوتی کیونکہ
اُن کے خمیر میں یہ ہوتا ہے کہ ہر جائز اور ناجائز طریقہ اپناؤ اور اپنی
کرسی کو مضبوط کرو۔ ایوب خان ، بھٹو، ضیا الحق، بے نظیر مشرف ، زرداری اور
نواز شریف ہمای ملکی سیاست میں فعال کردار کے حامل ہیں۔ باقی چھوٹے موٹے
سیاستدان یا مذہبی رہنماء صرف بطور پریشر گروپ ہی فعال رہے ہیں اور موجود
دو میں بھی ایسا ہی ہے۔ ریاستی اداروں کی عزت و تکریم سے ہی ملک میں امن و
سکون او ر خوشحالی کی فضاء قائم ہو پاتی ہے۔قانون معاشرے کی بہبود کے لیے
ہوتے ہیں۔ مقننہ قانون بناتی ہے عدلیہ اُسکی تشریح کرتی ہے اور حکومت اِس
پر عمل در آمد کرواتی ہے۔ گویا کہ قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کا اختیار
عدلیہ کا ہے لیکن اُس فیصلے پر اُس کی روح کے مطابق نفاذ کیے جانے کا
اختیار حکومت کے پاس ہوتا ہے قانون نافذ کرنے والے ادارے عدلیہ کے فیصلوں
پر من و عن عمل درآمد کرواتے ہیں۔ گویا مققنہ نے قانون بنا کر اپنا فرض ادا
کردیا۔ عدلیہ نے قانون کے مطابق فیصلہ کردیا اور اُس فیصلے کو منوانا کے
لیے طاقت/ نافذ کے کرنے کی قوت صرف حکومت کے پاس ہوتی ہے۔ آزاد عدلیہ کے
نظریے کے مطابق انتظامیہ کے زیر تحت عدلیہ نے کام نہیں کرنا ہوتا ۔ بلکہ
انتطامیہ اِس حوالے سے عدلیہ کے احکام پر عمل درآمد کروانے کی سو فی صد ذمہ
دار ہوتی ہے۔ جن ملکوں میں شرح خواندگی سو فی صد ہے وہاں پر جمہوری نظام کے
ثمرات نظر آتے ہیں لیکن جہاں وڈیرہ شاہی، سرمایہ دارنہ اور جاگیر دارانہ
نظام ہو وہاں انسان کی عزت و توقیر نہیں بلکہ طاقت کو فوقیت حاصل ہے ایسا
ہی تیسری اور چوتھی دُنیا کے ممالک کا پرابلم ہے وہ یوں کہ انسانوں کو نام
نہاد جموریت جانوروں کی طرح ہانک رہی ہوتی ہے۔ یہاں نام نہاد جموریت کے
طریقہ کار میں صرف وڈیرے سرمایہ دار، با اثر، لوگ ہی انتخابات جیت کر عوام
پر باد شاہت کرتے ہیں۔چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار کی
سربراہی میں ڈویژن بنچ نے لاہور کے سرکاری ہسپتالوں کی حالت پر برہمی کا
اظہار کرتے ہوئے پالیسی بناکر 15 روز میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیدیا اور
کہا ہے کہ صحت شہریوں کا بنیادی حق ہے۔ صحت کی سہولتیں فراہم کرنا ریاست کی
ذمہ داری ہے۔ سرکاری اسپتالوں میں دوائی تک میسر نہیں۔مفت ادویات مل نہیں
رہیں اور تشہیر پر پیسہ خرچ کیا جا رہا ہے۔ اگر تعلیم اور صحت کے شعبوں میں
کام نہ ہوا تو اورنج لائن سمیت تمام منصوبے بند کردیں گے۔ اگر سندھ کے
وزیراعلیٰ کو طلب کیا جاسکتا ہے تو وزیراعلیٰ پنجاب کو بھی طلب کرسکتے ہیں۔
اس وقت جو صحت اور تعلیم کا حال ہے وزیراعلیٰ پنجاب سے بہت سے سوال کئے
جاسکتے ہیں۔ فاضل عدالت نے نئے میڈیکل کالجز کی رجسٹریشن اور وائی ڈی اے کی
ہڑتالوں پر پابندی لگا دی جبکہ رجسٹرڈ میڈیکل کالجز میں داخلوں کی اجازت
دیتے ہوئے سہولیات کا جایزہ لینے کیلئے اٹارنی جنرل کی سربراہی میں کمیٹی
تشکیل دیدی۔ معیار پر پورا نہ اترنے والے میڈیکل کالجز اور یونیورسٹیوں کو
بندکردینگے۔ گزشتہ روزفاضل عدالت نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں مفاد عامہ
کے تحت دائر درخواستوں کی سماعت کی جس میں نجی میڈیکل کالجوں کی فیسوں میں
اضافہ اور سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار کا کیس شامل ہے۔ چیف جسٹس نے تمام
نجی میڈیکل کالجز کے مالکان اور سی ای اوز سے کالجز کی عمارتوں، فیسوں کے
سٹرکچر اور لیب کی سہولیات سے متعلق بیان حلفی حاصل کئے۔ دوران سماعت چیف
جسٹس نے سرکاری ہسپتالوں کی حالت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ
سرکاری ہسپتالوں میں دوائی تک میسر نہیں، ایک ہسپتال میں یہاں تک صورتحال
تھی کہ مریض کو ٹانکا لگانا تھا اور دھاگہ نہیں تھا۔ چیف جسٹس نے چیف
سیکرٹری پنجاب کو حکم دیا کہ تمام سرکاری ہسپتالوں کی آڈٹ رپورٹ اور فراہم
کی جانے والی ادویات کی معلومات کے حوالے سے بیان حلفی جمع کرائیں۔ جان
بچانے والی ادویات کی موجودگی کی رپورٹ بھی جمع کرائی جائے۔ فاضل عدالت نے
متعلقہ میڈیکل سپرنٹنڈنٹس کو کہا کہ ہسپتالوں کہ صورتحال اچھی نہیں۔ حکومت
سیف سٹی کے اشتہاروں کی بجائے یہ پیسے دوائیں لینے پر لگائے۔ اگر صحت اور
تعلیم کے شعبے پر توجہ نہ دی تو تمام منصوبوں پر حکم امتناعی دیدوں گا۔
لگتا ہے کہ اورنج ٹرین منصوبے پر بھی ازخود نوٹس کی ضرورت ہے۔ یہ منصوبہ از
خود نوٹس پر ہی روکا جاسکتا ہے۔ اٹارنی جنرل پاکستان بھی کمرہ عدالت میں
موجود تھے۔ فاضل عدالت نے قرار دیا کہ اگر کسی پرائیویٹ کالج نے زیادہ پیسے
لئے تو واپس کرنے پڑیں گے، یہ میرا مشن ہے اور میں یہ ٹھیک کرکے رہوں گا۔
مجھے یہ مت کہیں کہ یہ ہوسکتا ہے اور یہ نہیں۔ غریب کا بچہ ڈاکٹر بننا
چاہتا ہے لیکن وسائل نہیں۔ کسی خرابی کے پیچھے کرپشن نظر آئی تو اسے نہیں
چھوڑوں گا۔ بدنصیب ہیں وہ لوگ جن کے ملک ہیں اور وہ اسکی قدر نہیں کرتے۔
خرابی پکڑی گئی تو تمام پرائیویٹ میڈیکل کالجز اور یونیورسٹیاں بند کرا
دینگے۔ پرائیویٹ میڈیکل کالجز کی اپنی مارکنگ ہوتی ہے، اپنے طلبا کو پاس
کرتے ہیں۔ ہم جائزہ لے رہے ہیں کہ ایک جگہ داخلہ ہو اور ایک میرٹ ہو۔
ڈونیشن اور پیسے کی بنیاد پر داخلے نہیں ہونگے۔سپریم کورٹ نے میڈیکل کالجز
کمیشن کیلئے عائشہ حامد ایڈووکیٹ کو معاون مقرر کر دیا۔فاضل عدالت نے قرار
دیا کہ کوئی میڈیکل کالج 6لاکھ 42 ہزار سے زائد فیس وصول نہیں کرینگے۔ فاضل
عدالت نے کہاکہ آپ اپنے تین سال ملک کو دیدیں نہ کمائیں۔ چیف جسٹس پاکستان
نے سرکاری و نجی ہسپتالوں کے دورے کیلئے اٹارنی جنرل کی سربراہی میں کمیٹی
بھی تشکیل دی جس میں سینئر ڈاکٹرز اور وکلا شامل ہوں گے۔ فاضل جج نے اپنے
ریمارکس میں کہا کہ نوٹس کا مقصد ایکشن لینا نہیں۔ ہسپتالوں کی حالت زار
بہتر کرنا ہوگا۔ سرکاری اسپتالوں کے ڈاکٹرز پرائیوٹ کلینک جاتے ہیں، ڈاکٹرز
اپنے کلینک بند کریں اور کلینک پر لکھیں کہ سرکاری ہسپتالوں میں مصروف ہیں
آج کلینک نہیں چلے گا۔ اگر ایسا نہ ہوا تو تمام کلینک بھی بند کردیں
گے۔دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان نے حکومت پنجاب کی تشہیر کے لیے کیے گئے
اخراجات کا بھی ریکارڈ طلب کرلیا۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے
کہ مفت ادویات مل نہیں رہیں اور تشہیر پر پیسہ خرچ کیا جاریا ہے،پنجاب
حکومت اپنی تشہیر پر کروڑ وں روپے اشتہارات کی مد میں لگا رہی ہے۔ عدالت نے
قرار دیا کہ ہمیں پتہ چل جائے گا کہ پنجاب حکومت اس معاملے پر مخلص ہے تو
ہمیں مداخلت کی ضرورت نہیں۔فاضل عدالت نے کہا کہ وقت ابھی سے شروع ہوتا ہے
اور 10 دن میں تفصیلات طلب کر لیں۔سپریم کورٹ میں ڈی جی ایل ڈی اے نے بیان
دیا کہ حمید لطیف ہسپتال کی کچھ تعمیرات غیر قانونی ہیں عدالت نے حکم دیا
کہ قانون کے مطابق کارروائی کریں۔ عدالت نے ہسپتال کی انتظامیہ کو کہا
کہ50لاکھ روپے گلاب دیوی ہسپتال کو امداد دے کر آئیں پھر دیکھیں گے کیا
کرنا ہے۔ آپ کے ہسپتال میں اٹارنی جنرل اف پاکستان کے بھائی کی ڈیڈ باڈی
دینے سے انکار کر دیا تھا۔ علاوہ ازیں سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں غیر
رجسٹرڈ شادی ہالز سے متعلق از خود کیس کی سماعت ہوئی۔ ڈی جی ایل ڈی اے نے
فاضل عدالت کو بتایا کہ شہر کے 186 شادی ہالز کا سروے کر لیا ہے۔ جب بھی
کسی شادی ہال کیخلاف کارروائی کرتے ہیں تو وہ عدالتوں سے حکم امتناعی لے
آتے ہیں۔سپریم کورٹ نے عدالتوں کو شادی ہالز کو حکم امتناعی دینے سے روک
دیا۔ سپریم کورٹ نے بھینسوں کو زائد دودھ کے حصول کے لیے لگائے جانے والے
آر وی ایس ٹی نامی ٹیکوں کی فروخت پر پابندی عائد کر دی عدالت نے آئی سی
آئی اور غازی برادر کمپنیوں کا تمام سٹاک فوری قبضے میں لینے کا حکم دے
دیا۔فاضل عدالت نے قرار دیا کہ بھینسوں کو لگنے والے ٹیکوں سے ملنے والا
دودھ کینسر کا باعث ہے عدالت کوئی رعایت نہیں دیگی۔ ہماری بچیوں میں
ہارمونل تبدیلیاں آگئی ہیں۔عورتیں وقت سے پہلے بوڑھی ہوگئی ہیں۔ عدالت نے
ٹیکوں میں استعمال ہونے والے کیمیکل کی درآمد پر پابندی کا حکم امتناعی
خارج کردیا۔سندھ ہائیکورٹ نے کیمیکل کی درآمد پر حکم امتناعی جاری کر رکھا
تھا۔ عدالت میں پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق ڈبے کے دودھ میں کینسر کا سبب
بننے والے فارملین کیمکل کی موجودگی بھی پائی گئی۔ عدالت نے قرار دیا کہ
بچے اور بڑے کینسر زدہ بھینسوں کا دودھ پینے پر مجبور ہیں۔ فاضل عدالت نے
استفسار کیا کہ بتائیں کیا ٹی وائٹنر دودھ کا متبادل ہے؟ دودھ بیچنے والی
کمپنیوں کے نمائندوں نے جواب دیا کہ ہم نے کبھی دعوی نہیں کیا کہ ٹی وائٹنر
دودھ کا متبادل ہے۔ وکیل دودھ کمپنیاں یہ بتائیں کہ دودھ کے ڈبے کی تبدیلی
کتنے عرصے میں کردیں گی۔ متعلقہ وکیل نے جوابدیا کہ عدالت 4 مہینے کا وقت
دیں۔ سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان کے چیمبر سے لئے گئے
پانی کے نمونے کے آلودہ ہونے کا اس وقت انکشاف ہوا جب ڈائریکٹر پی سی ایس
آئی آر لیبارٹری نے پانی کے نمونوں کے بارے اپنی رپورٹ پیش کی۔ چیف جسٹس نے
تشویش کا اظہار کیا کہ حکومت ابھی تک اپنی ترجیحات کا تعین کیوں نہیں کر
سکی۔شہریوں کوآر سنیک اور آلودہ پانی پلایا جا رہا ہے۔ فاضل بنچ نے صاف
پانی کی فراہمی کیلئے از خود نوٹس پر سماعت کی جس کے دوران ڈائریکٹر پی سی
ایس آئی آر لیبارٹری نے پانی کے نمونوں کے بارے اپنی رپورٹ پیش کی اور
انکشاف کیا کہ چیف جسٹس پاکستان کے چیمبر سے لئے گئے پانی کے نمونے آلودہ
ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ لوگوں نے ہمیں ووٹ نہیں دینے۔اگر
وزیراعلیٰ سندھ کو عدالت میں بلایا جاسکتا ہے تو وزیر اعلی پنجاب کو کیوں
نہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے لاہور میں سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کرکے انکی
بندش کا نوٹس لے لیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار نے چیف
سیکرٹری پنجاب، ڈی آئی جی اور چیف ٹریفک پولیس آفیسر سے رپورٹ طلب کرلی۔
فاضل چیف جسٹس نے قراردیاکہ جوڈیشل کالونی میں کس کے کہنے پر رکاوٹیں لگائی
گئیں کیوں سڑکوں کی بندش کی گئی ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ راستے بند کرنا
بنیادی حقوق کی نفی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ میں بھی ایک چھوٹا سا
وی وی آئی پی ہوں۔ میرے گھر کے آگے سے سٹے بیچنے والا بھی گزرتا ہے، میں نے
کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کی۔
اتنا اہم معاملات پر عدالتوں نے ہی اگر نوٹس لینے ہیں تو پھر حکومتی وزیر
مشیر اور افسروں کی فوج ظفر موج کیا کر رہی ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جسے
حاصل کرنے کا مقصدے ہی یہ تھا کہ مسلمانوں کو عقیدے کا تحفظ حاصل ہوگا۔لیکن
یہاں عوام کو تحفظ حاصل نہیں ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکمران اشرافیہ
عوام کے بدترین دُشمن ہیں اور عدلیہ بچاری مجبور ہے۔ |