اس کے ماں باپ عمرے کی ادائیگی کے لیے اﷲ کے گھر میں
تھے لیکن انھیں نہیں معلوم تھا کہ ان کی غیر موجودگی میں ان کے اپنے گھر پہ
کیا قیامت ٹوٹ پڑے گی۔ انھیں علم بھی کیسے ہوتا کہ قیامت تو ہے ہی ناگہانی
کا نام…… زینب کا اغوا، تشدد، قتل اور پھر کوڑے کے ڈھیر پہ اس کی نعش کی
موجودگی ہماری معاشرتی، تہذیبی اور اخلاقی اقدار کا اظہار تو ہے ہی ساتھ ہی
وہ تمام ریاستی و حکومتی اداروں کی نااہلی کا اظہار بھی ہے جو عوام کے حقوق
و تحفظ کے لیے موجود ہیں۔ زینب نہ تو پہلی بچی ہے جس کے ساتھ وطنِ عزیز میں
ایساہوا ہے اور نہ ہی آخری…… ہم ہر ایسے واقعے کے بعد افسوس کا اظہارکرتے
ہیں۔ ظالموں کو کوستے ہیں۔ لعن طعن کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اب کسی
اور گھر کا چراغ نہ بجھے…… کہیں یہ قیامت بپا نہ ہو…… لیکن نہ تو یہ واقعات
رکتے ہیں اور نہ ہی ان میں کمی آتی ہے…… ہماری لعن طعن مجرموں کو ان
گھناؤنے جرائم سے باز نہیں رکھ پاتی…… ہماری دعائیں رائیگاں جاتی ہیں…… ہوس
پرست بے لگام معاشرے میں دندناتے پھرتے ہیں لیکن قانون کی پکڑ میں نہیں آتے۔
کہیں قانون خود ایسے واقعات پہ خاموش ہو جاتا ہے اور کہیں صاحبانِ اقتدار و
اختیار خود مجرموں کی ڈھال بن جاتے ہیں…… ایسے میں کون کہے گا کہ زینب وہ
آخری بچی ہے جس کے ساتھ یہ ظلم ہوا ہے۔ اسی شہر قصور میں گذشتہ دو تین برس
میں کیا کیا نہیں ہوا۔ یہیں بچوں کے ساتھ تشدد کے واقعات ہوئے۔ ان بچوں کی
ویڈیوز بنائی گئیں اور ان کے والدین کو بلیک میل کیا جاتا رہا۔ سال ۲۰۱۷
میں اسی شہر میں کتنے ہی بچے زیادتی کے بعد قتل کر دیے گئے۔ حکومت،
انتظامیہ اور قانون والوں کے سامنے یہ سب ہوتا رہا لیکن کوئی بڑھ کر ظالم
کا ہاتھ نہ روک پایا۔
پاکستان کے ہر شہر کی ایسی ہی کہانی ہے۔ ہر گزرتے دن ملک میں تشدد کے
واقعات میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک
ادارے ساحل کے اعداد و شمار کے مطابق سال ۲۰۱۶ء میں پاکستان میں بچوں کے
ساتھ جنسی تشدد کے4139 واقعات رپورٹ ہوئے جو کہ سال ۲۰۱۵ء میں رپورٹ شدہ
3768 واقعات سے دس فیصد زیادہ ہے۔ ان واقعات میں100 بچوں کو زیادتی کے بعد
قتل بھی کیا گیا۔ ساحل کی ہی ۲۰۱۳ء کی رپورٹ کے مطابق بچوں سے زیادتی کے
3002کیس رپورٹ ہوئے تھے جو ۲۰۱۲ء کے اعداد و شمار کے مطابق ۷ فیصد اضافی
تھے۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ ۲۰۱۳ء سے ۲۰۱۶ء تک بچوں سے زیادتی
کے واقعات کی شرح میں بتدریج اضافہ ہی ہوا ہے۔ گو کہ سال ۲۰۱۷ء کے اعداد و
شمار تاحال جاری نہیں کیے گے لیکن گذشتہ برس میں جس تیزی سے بچوں کے ساتھ
زیادتی کے کیس رپورٹ ہوتے رہے ہیں سال ۲۰۱۷ء گذشتہ برسوں کے شرح اضافہ کو
بھی مات دے گا۔
بچوں کے ساتھ تشدد کے واقعات کی روک تھام میں ناکامی کی وجوہات میں مجرموں
کا بااثر ہونا یا متاثرہ خاندان کا خاموشی اختیار کر لینا تو بنیادی وجہ
ہیں ہی لیکن ایک اور وجہ مجرمان کی کوئی ایک اجتماعی شناخت نہ ہونا بھی ہے۔
بچوں سے تشدد کا واقعہ دہشت گردی کی طرح کوئی منظم سلسلہ نہیں کہ اس میں
کسی ایک کو پکڑ لیا جائے تو اس کے نیٹ ورک کے بارے معلومات حاصل ہو جائیں
(یہ الگ بات کہ یہاں نیٹ ورک کا معلوم ہو جانے کی بنیاد پہ بھی کوئی
کارروائی موثر نہیں ثابت ہوتی)۔ ان واقعات میں کوئی قریبی عزیز، جاننے
والا، دوست اور حتیٰ کہ استاد (مدرسہ اور اسکول دونوں کا) بھی ملوث پائے
گئے ہیں۔ اب اس نظام کے ساتھ کیسے نبٹنا ہے۔ اس معاملے میں حکومت اور
معاشرہ کو سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔ ہمارے معاشرے میں بچوں کی تربیت میں
عموما یہ لحاظ نہیں رکھا جاتا کہ انھیں سمجھایا جائے کہ دوسرے کی حدود کہاں
تک ہیں اور آپ نے کسی دوسرے کی کسی حرکت کا جواب کیسے دینا ہے۔ دوسرا آپ کے
کس قدر قریب ہو سکتا ہے اور آپ کے جسم کے کس حصے کو چھو سکتا ہے اور کہاں
اسے روکنا ہے۔ اور اگر کوئی آپ کی مرضی کے بنا آپ کے قریب ہونا چاہے تو
ایسی صورت میں آپ کا ردِ عمل کیا ہونا چاہیے اور سب سے ضروری یہ کہ ایسی
کسی بھی صورتِ حال میں آپ نے اپنے سرپرستوں کو آگاہ کرنا ہے تا کہ آپ کا
تحفظ بنھی کیا جائے اور متعلقہ شخص کے خلاف کارروائی بھی کی جا سکے۔ ہمارے
معاشرے میں ان بنیادی چیزوں کو معیوب سمجھ کے بچوں کو نہیں بتایا جاتا اور
انھی کی وجہ سے بچے ایسی کسی بھی صورتِ حال کے مقابلے سے محروم ہوتے ہیں۔
نہ تو وہ متعلقہ شخص کی نیت سے آگاہ ہوتے ہیں اور نہ ہی اپنے دفاع کا سوچتے
ہیں اور جب ایسا کوئی واقعہ رونما ہو جائے تو وہ ڈر اور خوف کے باعث کسی سے
اس کا ذکر کرنے کی بھی کوشش نہیں کرتے۔ اور یوں وہ مسلسل ایسے مجرموں سے
نقصان اٹھاتے رہتے ہیں جو نہ تو انسانیت کا پاس رکھتے ہیں ا ور نہ خوفِ خدا
ان کا کچھ بگاڑ سکتا ہے۔
ہمیں اپنے معاشرے میں ان موضوعات پہ آگاہی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے جن سے
واقفیت بچوں کے لیے نقصان نہیں بلکہ تحفظ کی ضمانت بن سکتا ہے۔ ایسی کسی شے
پہ بات معاشرے میں برائی کو جنم نہیں دیتی بلکہ شعور و آگاہی کا سبب بنتی
ہے جس کے نتیجے میں برائی میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ بعض لوگ مجرموں کی
نفسیاتی تربیت کا مطالبہ بھی کرتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے لیکن ایک مجرم کی جتنی
بھی نفسیاتی تربیت کر لیں۔ اسے آیندہ جرم سے روک لیں لیکن اس سے متاثرہ
فریق کے زخم مندمل نہیں ہوں گے۔ سو بہتر حل یہ ہے کہ ایسے اقدامات کیے
جائیں جس کے نتیجے میں کوئی متاثرہ نہ کہلا سکے۔ اور حکومت اور انتظامیہ کو
ایسے سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے کہ کوئی بھی شخص قانون کی گرفت سے باہر
نہ نکل پائے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اس دیس کے ہر گھر میں زینب ہے
جس کا بچپنا اور مستقبل محفوظ کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
ژژژ
|