خاندان کا بدلتا روپ: سہاروں سے تنقید تک

خاندان کا بدلتا روپ: سہاروں سے تنقید تک
تحریر: محمد علی رضا
ایک زمانہ تھا جب خاندان محض ایک رشتہ نہیں بلکہ ایک مضبوط سہارے کا نام تھا۔ خوشی ہو یا غم، دکھ ہو یا تکلیف پورا خاندان ایک دوسرے کے ساتھ کھڑا رہتا تھا۔ گھر کے بزرگ شفقت کی مثال ہوتے تھے اور بچے محبت کی چھاؤں میں پروان چڑھتے تھے۔ رشتوں میں سچائی، اخلاص اور قربانی نظر آتی تھی۔ لیکن افسوس کہ بدلتے وقت کے ساتھ خاندان کا یہ خوبصورت تصور ماند پڑتا جا رہا ہے۔

آج کے ماحول میں وہی خاندان جو کبھی سہارا سمجھا جاتا تھا، اب اکثر تنقید، مقابلے اور چغلی کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔ ایک دوسرے کے دکھ بانٹنے کے بجائے، لوگ ایک دوسرے کی کمزوریاں ڈھونڈنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ رشتوں کی بنیادیں مضبوط کرنے کے بجائے انا، حسد اور برتری کا احساس جگہ بنانے لگا ہے۔

اسی طرح بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ بھی رویّوں میں بڑی تیزی سے تبدیلی آئی ہے۔ پہلے بچوں کو پیار، شفقت اور حوصلہ افزائی ملتی تھی۔ ان کی غلطیوں پر ڈانٹ کم اور رہنمائی زیادہ ہوتی تھی۔ مگر آج اکثر خاندان والے بچوں سے ایسے سوالات کرتے نظر آتے ہیں جو نہ صرف غیر ضروری بلکہ تکلیف دہ بھی ہوتے ہیں.
“شادی کب کرو گے؟”
“نوکری کیوں نہیں لگی؟”
“شادی ہوگئی ہے تو بچہ کیوں نہیں ہوا؟”

یہ سوالات بظاہر سادہ لگتے ہیں لیکن ان کے پیچھے ایک ایسا دباؤ چھپا ہوتا ہے جو نوجوانوں کو ذہنی طور پر تھکا دیتا ہے۔ ہر شخص کی زندگی میں وقت، حالات اور ترجیحات مختلف ہوتی ہیں۔ مگر جب خاندان سمجھنے کے بجائے سوالات کی بوچھاڑ کر دے تو نوجوان بے زار ہو کر خود کو فاصلے پر محسوس کرتا ہے۔

اسی وجہ سے آج کا نوجوان خاندان اور خاندانی تقریبات سے دوری اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اسے لگتا ہے کہ وہاں محبت کے بجائے تنقید ملے گی، حوصلہ افزائی کے بجائے موازنہ ہوگا، اور سکون کے بجائے ذہنی دباؤ ملے گا۔ یہی دوریاں رشتوں کو کمزور اور گھروں کو بے رونق بنا رہی ہیں۔
اگر ہم اپنے رویّوں میں مثبت تبدیلی لائیں تو وہی خاندان جو آج بکھرتا ہوا دکھائی دیتا ہے، دوبارہ مضبوط، محبت بھرا اور سکون دینے والا بن سکتا ہے۔ 
MUHAMMAD ALI RAZA
About the Author: MUHAMMAD ALI RAZA Read More Articles by MUHAMMAD ALI RAZA: 8 Articles with 8763 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.