فرنٹیئر کالج پشاور: تعلیم کا مرکز یا تفریح کی مارکیٹ – ذمہ داری کس کی ہے
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
فرنٹیئر کالج پشاور کی چند ویڈیوز پچھلے کئی روز سے سوشل میڈیا پر بحث کا موضوع بنی ہوئی ہیں. ان ویڈیوز میں طالبات کو گانوں پر رقص کرتے دیکھا جا سکتا ہے. حیران کن پہلو یہ ہے کہ کچھ طالبات برقعوں میں بھی ناچ رہی ہیں. یہ منظر ایک سرکاری تعلیمی ادارے میں پیش آیا جو دہائیوں سے خواتین کی تعلیم اور تربیت کا مرکز مانا جاتا رہا ہے. اس پروگرام کا عنوان ادارے کی تاریخ اور اس کے سفر کو خراج تحسین بتا کر پیش کیا گیا مگر جو کچھ ویڈیوز میں دکھائی دیا اس کی وضاحت دینے سے انتظامیہ مسلسل گریز کر رہی ہے.
یہ وہی کالج ہے جہاں کچھ عرصہ قبل ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا تھا. ایک طالبہ نے زندگی کا خاتمہ کیا تھا. اس واقعے کے بعد انتظامیہ اور اساتذہ نے بڑے دعوے کیے کہ تعلیمی ادارے کردار سازی اور رہنمائی کے مراکز ہوتے ہیں. والدین سے کہا گیا کہ وہ بیٹیوں کو بلا خوف تعلیم کے لیے بھیجیں. مگر آج انہی دعوو¿ں اور عملی عمل میں زمین آسمان کا فرق نظر آ رہا ہے. سٹیج پر بیٹھ کر ایسی شاعری اور ایسے جملے سنائے گئے جو کسی تربیتی مقصد کی نمائندگی نہیں کرتے تھے. یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ اگر تعلیم کا پلیٹ فارم تفریح اور نمائش کی جگہ بن جائے تو پھر تربیت کہاں کھڑی رہتی ہے.
اصل مسئلہ رقص نہیں اصل مسئلہ ترجیح اور سوچ کا ہے. کسی ادارے کا ماحول اس کی شناخت ہوتا ہے. جب ایک سرکاری خواتین کالج میں گانوں پر ڈانس ہونے لگے، سوشل میڈیا کیلئے کلپس بنائے جائیں، پرائیویٹ سٹالز لگیں، تو یہ محض تفریح نہیں رہتی یہ پیغام بن جاتا ہے. سوال یہ ہے کہ یہ پیغام کس کی طرف سے ہے اور کس کیلئے ہے. کیا والدین اپنی بچیوں کو اسی مقصد کے لیے کالجز بھیجتے ہیں کہ ان کی ویڈیوز ٹک ٹاک اور فیس بک پر وائرل ہوں.
پختون معاشرے میں حیا اور وقار ہمیشہ خواتین کی تعلیم کی بنیاد رہے ہیں. اگر وہ بنیاد ہی ہل جائے تو پھر باقی ڈھانچہ خود ہی گر جاتا ہے. والدین بھی اسی خوف سے بیٹیوں کو تعلیم سے روک دیتے ہیں کہ کہیں ماحول ان کے اعتماد کو ٹھیس نہ پہنچائے. پھر ہم حیران ہوتے ہیں کہ اس صوبے میں خواتین کی تعلیم کی شرح کیوں کم ہے، داخلے کیوں کم ہیں، ڈراپ آو¿ٹ کیوں بڑھتا ہے. اگر ایک کالج کا ماحول بھی ایسا ہو جائے تو آج جو سوال اٹھ رہا ہے وہ غیر منطقی نہیں.
بات یہاں ختم نہیں ہوتی. تعلیم صرف نصاب کا نام نہیں. تعلیم کردار ہے، تہذیب ہے، ذمہ داری ہے. اگر ایک پورے پروگرام میں یہ نہ بتایا جائے کہ ادارے نے کن نمایاں خواتین کو معاشرے کو دیا، کون اس سے نکلی اور کس نے میدان علم میں مقام بنایا، کتنی نے مشکلات کے باوجود اپنا سفر جاری رکھا، ان کے انٹرویوز، لیکچر یا رہنمائی جلسوں کا کیوں نہ اہتمام کیا گیا. کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ اسٹیج پر علمی گفتگو ہوتی. سابقہ طالبات کو مدعو کیا جاتا. تجربات کا تبادلہ ہوتا. نئی نسل کو مستقبل کی سمت دی جاتی.
یہ کمی صرف ترجیحات کی نہیں بلکہ احساس ذمہ داری کی ہے. ادارے صرف عمارتوں کا نام نہیں ہوتے. ادارے سوچ پیدا کرتے ہیں یا سوچ بگاڑتے ہیں. فرنٹیئر کالج کا شمار تاریخی اور اہم اداروں میں ہوتا ہے. یہ سینکڑوں نہیں ہزاروں خاندانوں کی امید سے جڑا ہوا ہے. اس کا ماحول اگر سنجیدہ اور تربیتی نہ ہو تو یہ نقصان صرف ایک نسل کا نہیں، آنے والی نسلوں کا ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ تفریح بھی انسانی ضرورت ہے. مگر تفریح عنصر تب مسئلہ بنتا ہے جب وہ مقصد بن جائے. جب تعلیمی بجٹ، اکیڈمک شیڈول، ادارے کی ساکھ اور طالبات کی شناخت صرف چند ویڈیوز کی خاطر داو¿ پر لگا دی جائے تو پھر یہ سوال پوچھنا بنتا ہے کہ اجازت کس نے دی. کون ذمہ دار ہے. پالیسی کہاں ہے. نگرانی کہاں ہے. جواب کون دے گا.
پختون ثقافت کے نام پر اتنڑ کو رقص کے برابر رکھ دینا تاریخ سے ناواقفیت ہے. اتنڑ قبائلی اور تہذیبی شناخت کا حصہ ہے جو صدیوں سے مخصوص تقریبات کا علامتی رقص ہے. لیکن مخلوط یا مغربی طرز کے ڈانس کو ثقافت کہہ کر نمائندگی دینے والے کس سمت میں لے جا رہے ہیں. جب ثقافت کا مفہوم ہی بدل جائے تو تہذیب بھی بدل جاتی ہے.
یہ بھی سوال ہے کہ ایک حکومتی ادارے میں پرائیویٹ سٹالز کیوں لگے. کس نے اجازت دی. کیا کوئی مالی شفافیت موجود ہے. کیا یہ فنڈ جمع کرنے کی آڑ میں کوئی اور مقصد نہیں تھا. جب کسی حکومتی ادارے میں کاروباری ماحول لایا جائے اور پھر تعلیمی سرگرمیوں کا نام استعمال ہو تو اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا.کیا کسی نے اب تک نوٹس لیا. کیا کوئی انکوائری ہوئی. کیا ذمہ داری طے کرنے کا کوئی عمل شروع ہوا. اگر نہیں تو کیوں. اگر ایک معمولی غلطی پر غریب خاندانوں کے بچے اور بچیاں ڈسپلن کے نام پر سزا پا سکتے ہیں تو پھر سرکاری عہدوں پر بیٹھے افراد جوابدہ کیوں نہیں.
یہ ویڈیوز محض چند گھنٹوں کی تفریح نہیں رہیں. یہ عالمی پلیٹ فارمز پر دیکھے جانے والے کلپس ہیں. یہ صوبے کی خواتین کی نمائندگی کے حوالے سے بحث بن گئی ہیں. کیا ہم یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہماری نوجوان لڑکیاں ڈانس کلچر کی نمائندہ ہیں. کیا ہماری شناخت صرف اتنی سی ہے. اگر کل کوئی استاد، کوئی والد، کوئی ماں سوال کرے تو اس ادارے کے پاس کیا جواب ہوگا.وقت آگیا ہے کہ بنیادی سوال پوچھے جائیں. کیا ہم اپنے تعلیمی اداروں کو کردار سازی کے مراکز بنانا چاہتے ہیں یا پھر انہیں مارکیٹنگ ایونٹس میں بدل کر چھوڑ دینا ہے. کیا بیٹی کی تعلیم اس لیے ہے کہ وہ مضبوط ہو، خود مختار ہو، یا اس لیے کہ وہ سوشل میڈیا کا مواد بنے.
بارہ سال قبل مولانا بجلی گھر رحمہ اللہ نے ایک جلسے میں چند الفاظ کہے تھے کہ اگر حالات یونہی رہے تو آنیوالے وقتوں میں تمھارے لڑکے اور لڑکیاں ڈانس کرنے والے ہوں گے. اس وقت شاید بات عجیب لگی ہو مگر آج صورتحال سامنے ہے. تعلیمی ادارے اگر ماحول کی سمت طے نہ رکھ سکیں تو قوم کی سمت بھی بے سمت ہو جاتی ہے.
آج ضرورت جذباتی نعروں کی نہیں عملی اقدامات کی ہے. تحقیقاتی کمیٹی بنائی جائے. ذمہ داروں کا تعین کیا جائے. پالیسی بنائی جائے کہ تعلیمی ادارے کس قسم کی سرگرمیاں کر سکتے ہیں اور کس مقصد کے ساتھ. والدین کی شکایات سنی جائیں. شفاف جواب دیا جائے.اپنی تہذیب کو پہچاننا لازم ہے. شناخت کی حفاظت صرف تقریروں سے نہیں ہوتی. عمل سے ہوتی ہے. اگر ہم نے ابھی رخ درست نہ کیا تو خطرہ ہے کہ کردار سازی صرف کتابوں کا عنوان رہ جائے گا اور عملی زندگی میں نمائش اور تفریح اصل پہچان بن جائے گی. ایسی پہچان وہ معاشرہ کبھی ترقی نہیں کرتا جس کے پاس اپنی بنیاد کا کوئی تصور باقی نہ ہو.
#FrontierCollege #Peshawar #WomenEducation #CulturalResponsibility #EducationSystem #KPColleges #PublicInstitutionsAccountability #SocialMediaImpact #IdentityAndValues #EducationReforms #ParentConcerns #AcademicEnvironment #PakistanSociety #YouthDirection #EthicsInEducation
|