لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے .....

حکومتی رٹ کو چیلنج کرنے کا جنون کی حدتک شوق رکھنے والے ڈاکٹر طاہر القادری ٗ شیخ رشید احمد اور عمران خان ایک بار پھر پورے جوش و خروش سے سڑکوں پر دھرنادینے اور حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کرنے کے لیے تیار ہیں ۔ ڈاکٹر طاہر القادری کہتے ہیں کہ پہلے ہم استعفی مانگتے تھے ۔ اب زبردستی استعفی لیں گے ۔گویا حکومت نے جو کرنا ہے کرلے ۔ہم نے موجودہ حکومت کا بوریا بستر لپیٹ دینا ہے ۔ میں نے پاکستان کی تاریخ میں اتنی کمزور اور بزدل حکومت کبھی نہیں دیکھی جو ہر کسی کے سامنے بھیگی بلی بنی نظر آتی ہے ۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ نواز شریف تین مرتبہ وزیر اعظم بنے اور تینوں مرتبہ ہے ناکام ثابت ہوئے ۔کبھی انہیں غلام اسحاق خان نے نکالا تو کبھی جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سے اتار کر اٹک قلعے کی سیر کروائی ۔دس سال بعد قسمت بار آوری ہوئی اور عوام نے ایک بار پھر ڈیڑھ کروڑ ووٹ دے کر اقتدار بخشا تو عمران خان نے اپنے مونہہ بولے چپڑاسی کے بہکاوے میں آکر نواز شریف کا ناطقہ بندکردیا ۔ ایک جانب عمران خان اپنے لاؤلشکرکے ساتھ اسلام آباد کے بلیو ایریا پر قابض تھے اور تحریک انصاف کے مونہہ زور کارکن پارلیمنٹ پر قبضے کے لیے تابڑ توڑ حملے کررہے تھے تو دوسری جانب ڈاکٹر طاہر القادری اپنے جدید ترین کینٹینر پر نواز شریف کو غلیظ القاب سے نواز رہے تھے۔جب دونوں نے جان چھوڑی تو موصوف سپریم کورٹ سے تاحیات نااہل ہوگئے اور اب کیوں نکالا کی گردان کرتے پھر رہے ہیں ۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ 2014ء کے دھرنے کے دوران ڈاکٹر طاھر القادری اور عمران خان نے وہ کونسا جرم نہیں کیا جس پر ان کی گرفتاری نہیں ہوسکتی تھی ۔ بجلی کے بلوں کی ادائیگی روکنے ٗ غیرممالک میں موجود پاکستانیوں کو زرمبادلہ نہ بھیجنے ٗ کرنسی نوٹوں پر ہمارا وزیر اعظم چور ہے لکھنے کی ترغیب دینے والے اور سرکاری افسروں کو حکومت کے احکامات نہ ماننے کی بار بار گردان کرنے والے ہر قسم کی گرفت سے محفوظ رہے ۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ نواز شریف بھیگی بلی بن کر وزیر اعظم ہاؤس میں چھپے رہے ۔ سپریم کورٹ کے ججوں کو راستے بدل کر اپنے گھروں سے سپریم کورٹ میں جانا پڑاا لیکن دھرنے والوں نے نہ صرف ریاستی رٹ کو ختم کردیا بلکہ دنیا بھر میں پاکستان کو تماشا بنا دیا ۔ غیر ملکی یہ کہتے ہوئے سنے گئے کہ پاکستانی حکومت دھرنوں سے تو نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتی یہ دہشت گردی کیسے ختم کرے گی ۔ چند دن پہلے اخبارات میں ایک خبر شائع ہوئی کہ ایران کے سابق صدر احمدی نژاد کو حکومت کے خلاف مظاہرین کو اکسانے پر گرفتار کیا جارہا ہے ۔ یہ خبر پڑھ کر میں حیران رہ گیا کہ ایرانی حکومت مظاہرین کو اکسانے کے الزام میں ایک سابق صدر کو گرفتار کررہی ہے لیکن پاکستان میں حکومت ایسے تین سیاست دانوں کو ساڑھے چار سال میں بھی ہاتھ نہیں لگا سکی جنہوں نے ہر جگہ اور ہر مقام پر حکومتی رٹ کو ملیا میٹ کیا ۔ بلکہ دھرنے اور احتجاجی تحریکوں کے ذریعے عوام کو نفسیاتی مریض بنائے رکھا ۔ عمران خان کو جب سے کچھ عوامی مقبولیت حاصل ہوئی ہے وہ بات بات سڑکوں پر آنے کی دھمکی دیتے ہیں ۔دھشت گردی کی عدالت سے تین سال تک اشتہاری رہنے والے ملزم کو اچانک تمام مقدمات میں ضمانت بھی مل گئی ۔جبکہ دوسرے اشتہاری ملزم ڈاکٹر طاہر القادری نہ صرف آزاد ہیں بلکہ ایک بار پھر ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں ۔ چیف جسٹس پاکستان کے مطابق سڑکیں بند کرنا جرم ہے لیکن حکومت اس قدر بزدل اور پولیس نااہل ہے ۔جس کا جب دل کرتا ہے مال روڈ پر دھرنا دے کر بیٹھ جاتا ہے ۔ چند سو مولوی حضرات بھی حکومت سے اٹھائے نہیں گئے ٗ حکومت آج بھی ان کے سامنے سجدہ ریز نظر آتی ہے ۔ حکومتی بزدلی کو دیکھ کر پیر آف سیال شریف نے بھی صوبائی دارالحکومت کا رخ کرلیا ہے ۔ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن سے خوفزدہ حکمران حقیقی معنوں میں اب حکمرانی کے قابل نہیں رہے ۔ مصرمیں جب مرسی حکومت کا تختہ الٹاگیا تو ایک لاکھ مصری شہریوں نے قاہر ہ میں دھرنا دیا ۔ جہاں فوج کی فائرنگ سے دو اڑھائی سو افراد شہید ہوگئے اس کے بعد مصر میں سکون ہی سکون ہے۔ کسی کو دھرنا دینے اور احتجاج کرنے کی جرات نہیں ۔ پیپلز پارٹی حکومت نے پنجاب میں شہباز شریف حکومت ختم کرکے جب گورنر راج نافذ کیا تھا تو پولیس نے سارے پنجاب کو جیل میں بد ل دیا تھا۔ شہباز شریف خود گرفتاری سے بچنے کے چھپتے پھر رہے تھے وگرنہ ان کوکو گرفتار کرکے دس پندرہ مقدمات بنا کرجیل میں ایسا بند کرنا تھا کہ دوبارہ ان کی شکل بھی کسی کو یاد نہ رہتی ۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں لال مسجد میں احتجاج کرنے کے والے آج کہاں ہیں ۔ پرویز الہی نے نواز شریف کی ماڈل ٹاؤن کی رہائش گاہوں کے ساتھ کیا سلوک تھا اور مسلم لیگ کے دفتر پر بھی ایسا قبضہ کیا کہ آج تک چھڑایا نہیں سکا۔ مختصر یہ کہ حکومتیں دھرنوں اور احتجاجی تحریکوں سے نہیں ڈرتیں بلکہ احتجاج کرنے والے حکومت سے ڈرتے ہیں کہ کہیں ان کا احتجاج ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے کا باعث نہ بن جائے ۔ میں یہ بات دعوی سے کہتا ہوں کہ اگر ڈاکٹر طاہر القادری ٗعمران خان اور شیخ رشید جیسے فتنہ پرست اور احتجاجی مزاج رکھنے والوں کو حکومت نے لگام نہ ڈالی تو پھر واقعی شہباز شریف کو وزارت اعلی چھوڑنی پڑے گی ۔ یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ شریف برادرن حکومت کرنے کے اہل نہیں ہیں ۔ دھرنوں اور احتجاجی تحریکوں سے ان کی ٹانگیں کانپنے لگتی ہیں ۔ دیکھتے ہیں دہشت گردی عدالت کے اشتہار ی ملزم ڈاکٹر طاہر القادری اپنے موسمی صعوبتوں سے بے نیاز اور جدید ترین سہولتوں سے آراستہ کینٹینرمیں بیٹھ کر حکمرانوں کو کب گھر بھیجتے ہیں ۔
 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 662427 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.