ترقی،بے روزگاری،رشوت ستانی ،بلیک منی اور اچھی حکمرانی
دینے میں ناکام و نا مراد نریندر مودی اپنی ناکامیاں چھپانے کے لئے روز
کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑ کر مسلمانان ہند کی پریشانیوں میں اضافے کا موجب
بنا ہوا ہے ۔ دو دہائیں قبل بعض دانشوروں کی باتیں ایک ایک کر کے سچ ثابت
ہو رہی ہیں کہ گجرات میں مودی حکومت ’’سنگھ پریوار کی لیبارٹری‘‘ہے جس میں
کامیاب تجربوں کو یہ لوگ بعد میں پورے ہندوستان میں عملانے کی کوشش کریں گے
۔آج بلا شک و شبہ مودی اینڈ کمپنی ’’گجرات تجربات ‘‘کو پورے ملک میں آزمانا
چاہتی ہے ۔حکومت میں آنے کے لئے انھوں نے بہت دلفریب نعرے بلند کئے مگر
دہلی فتح ہوتے ہی نریندر مودی نے مسلمانان ہندکو نفسیاتی طور سخت ہزیمت اور
خوف کا احساس دلانے کا آغاز دلچسپی اور دلجمعی کے ساتھ کیا ۔سچائی یہی ہے
کہ ابھی تک اس شخص نے اسے بڑھکر اگر کچھ کیا بھی تو صرف یہ کہ ر وز نئے نئے
شوشے چھوڑ کرملک کے عوام کو ذہنی خلجان میں مبتلا کر رکھا ہے ۔تین طلاق کے
معاملے میں بھی اس شخص کی سوچ اسی کے ارد گرد گھوم پھر رہی تھی کہ مسلم اور
غیر مسلم سماج کواسلام کے ہاتھوں مسلمان عورت کے ساتھ ’’ناروا سلوک‘‘ برتنے
کا احساس دلاکر ’’دعوت و تبلیغ کا راستہ‘‘بند کردیا جائے ۔اور پوری دنیا کو
یہ باور کرایا جائے کہ اسلام نے مسلمان عورتوں کے ساتھ جو ’’ظلم ‘‘روارکھا
ہے ’’گجرات کے مسیحا‘‘نے وزیر اعظم بنتے ہی سب سے پہلے اس کا ازالہ کر لیا
۔ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ جہاں سوا ارب کی آبادی کو ہر شام درجنوں ٹیلی
ویژن چینلز پر قابض سنگھ پریوار کے ’’چیخنے چلانے والے تنخواہ دار
ایجنٹ‘‘مسلمانوں کے خلاف فضا زہر آلودہ کرتے ہیں ،وہیں ساتھ ہی مسلمانوں
میں سے بعض ’’بدؤں‘‘کو بٹھاکر دق کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑ تے ہیں
تاکہ بھارت کی پچیس کروڑ مسلم آبادی کو یہ بھی احساس دلایا جائے کہ تم میں
ایک بھی عقلمند قابل شخص موجود نہیں ہے ۔
حال ہی میں تین طلاق پرپابندی لگانے کے لئے پارلیمنٹ میں بحث کے بعد ووٹنگ
پر مسلمانانِ ہند کے جذبات کی جھوٹی دعویدار’’کانگریس ‘‘نے اس قانون کو
لانے میں بالکل ویسا ہی رول ادا کیا جیسا بی جے پی نے نبھایا ۔بعض لوگ اس
پر حیرت کا اظہار کر رہے ہیں حالانکہ یہ بالکل بھی حیرت کی بات نہیں ہے
۔مسلمانوں پر پچاس ہزار سے زیادہ حملے کانگریس حکومت میں ہو ئے ہیں ،مسئلہ
کشمیر کو تخلیق کرنے میں سارا رول کانگریس کا ہے ،پاکستان کو ایک منفرد
وجود قبول کرنے کے بعد اس کو دولخت کرنے کا سارا کارنامہ کانگریس کا ہے
۔ٹاڈا اورپوٹا جیسے سیاہ ترین قوانین لانے اور ان کے ذریعے مسلمانان کشمیر
کو بالخصوص اور مسلمانان ہند کو بالعموم تہہ تیغ کرانے کی ساری ’’بدی اور
گناہ‘‘کانگریس کے کھاتے میں جمع ہے لہذا دانشمندانِ ہند کو بالکل بھی حیرت
نہیں ہونی چاہیے ۔اس سب سے افسوس ناک معاملہ چند گنے چن2ے مسلمان ممبران
پارلیمنٹ کا رہا جنہوں نے اولاََ اس ظالمانہ مسلم مخالف بل کو روکنے کی ذرا
بھر بھی کوشش نہیں کی سوائے ایک اسد الدین اویسی صاحب کے ۔گویا باقی سب یا
تو مر گئے تھے یا ایسے بیمار کہ بستروں میں ہلنا جلنا بھی ممکن نہیں تھا
۔ایک ممبر پارلیمنٹ نے مختلف مصروفیات کا بہانہ بنا کر بدترین ضمیر فروشی
کا ثبوت دیدیا اور ایک صاحب نے ’’ٹریفک جام‘‘میں پھنس جانے کی خبر چھپوائی
۔المیہ یہ ہے کہ جب اسلام کے وجود پر حملہ کی تمام تر تیاریوں کے ساتھ سنگھ
پریواراپنے ’’غلاموں ‘‘ کو لیکردہلی کے پارلیمنٹ ہاوس میں جمع ہو چکاتھا
ایسے نازک موقع پر بھی ان لوگوں نے مختلف مصروفیات اور ٹریفک جام کا بہانہ
بنا کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی گویا یہ لوگ اس قدرغریب اور مفلوک الحال
ہیں کہ آج ان کے لئے2017ء نہیں بلکہ 1917ء ہے جس میں دہلی پارلیمنٹ ہاوس
پہنچنے کے لئے گاڑی نہیں صرف ٹانگہ میسر ہے اور بدقسمتی سے ممبر پارلیمنٹ
ہونے کے باوجود بھی ان کے پاس وہ ٹانگہ یا رکھشا نہیں ہے ۔جہاں تک کشمیر سے
تعلق رکھنے والے دو ممبران پارلیمنٹ فاروق عبداﷲ اور مظفر بیگ کی مذہب سے
واقفیت اور اس کے دفاع کا تعلق ہے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ یہ لکھے پڑھے
تو بے شک ہیں مگر مذہب کے حوالے سے ان کے ریمارکس’’ جو کچھ اور جتنے
کچھ‘‘اب تک سامنے آچکے ہیں کی روشنی میں یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی
ہے انہیں اس کے اصول و فروع دونوں کا علم نہیں ہے مگر المیہ یہ ہے کہ یہ
لوگ اس کے باوجود مذہب پر بات کرنے سے ذرا بھر نہیں جھجکتے ہیں۔ان کے نزدیک
مذہب سے تعلق کے لئے اسلامی نام تجویز کرنے کے بعدعیدین کی نمازوں میں شرکت
کافی ہے اوربس ۔لہذا ان سے اس کی امید رکھنا ہی کار عبث ہے کہ وہ لوگ طلاق
ثلاثہ کے سلسلے میں کوئی رول نبھاتے ۔اس کے باوجود یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ
بل کو روکنا ان کی اخلاقی ذمہ داری تھی کہ وہ اس کے خلاف سینہ سپر ہوتے اس
لئے کہ یہ لوگ جس عوامی منڈیٹ سے پارلیمنٹ تک پہنچے ہیں ان کی اکثریت تین
طلاق پر وہی عقیدہ رکھتی ہے جو جمہور امت کا ہے کہ یہ دنیا ناجائز اور گناہ
ہے مگر اس کے باوجود جب کوئی تین طلاق دیدے تو اس کے واقع ہونے سے انکار
نہیں کیا جا ئے گامگر جس کے نزدیک قوم بیچنے کی شئی ہو اس کے لئے قوم کیا
حیثیت رکھتی ہو گی ۔
پارلیمنٹ میں یہ بل پاس ہونے کے بعد زبانی ، تحریری یا ایس ایم ایس اور
وہاٹس ایپ کے ذریعہ کسی بھی شکل میں تین طلاق یا طلاق بدعت کو غیر آئینی
قرار دیا گیا ہے اور شوہر کو تین سال کی سزا کا بندوبست کیا گیا ہے۔ اس
قانون کو پارلیمنٹ سے قبل مرکزی کابینہ نے منظوری دی تھی۔آل انڈیا مسلم
پرسنل لا بورڈ نے اس بل کی مخالفت کرتے ہوئے نریندر مودی کے نام ایک خط میں
اسے پارلیمنٹ میں پیش نہ کرنے کی درخواست کی تھی۔آل انڈیامسلم پرسنل لا
بورڈ بورڈکے صدر اور دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنوکے ناظم اعلیٰ مولانا
سید محمدرابع حسنی ندوی نے اس بل کو شریعت کے ساتھ ساتھ ہندوستانی آئین میں
حاصل ضمانتوں کے خلاف قرار دیا ہے۔ دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند
جنھا نے طلاق ثلاثہ بل پیش کرکے اسے لوک سبھا میں اکثریت سے پاس کرانے پر
مودی حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کرتے ہوئے کہاکہ ’’ مرکزی حکومت کے وزیر کا
ٹریپل طلاق بل پیش کرنے کے وقت یہ کہنا کہ تین طلاق سیاست کا نہیں انسانیت
کا معاملہ ہے ‘ حیران کن ہے‘‘۔انہو ں نے طلاق ثلاثہ بل پیش کئے جانے کے دن
کو پارلیمنٹ کے لئے شرمناک دن قراردیا۔ انہو ں نے گجرات میں مسلمانوں کے
قتل عام کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ ’’2002ء کے دوران گجرات میں جو ہوا اور جو
کیاگیا اور آج ملک میں جو ہورہا ہے اور کہاجارہا ہے اسے سمجھے، سال2002ء
میں گجرات کے وزیراعلی نے کہاتھا کہ ہمیں کیمپوں( جہاں فساد متاثرین نے
پناہ لی تھی جن میں خواتین بھی تھیں) کو توڑ دینا چاہئے ہم دہشت گرد پید
اکرنے والے اڈہ نہیں بناسکتے ۔پروفیسر صاحب نے درست کہا کہ اور یہ خصوصیت
صرف ہندوستان کی ہے کہ جہاں انسانیت کا قاتل ہی انسانیت کا درس دیتا ہے
جہاں ظالم مظلوم کی وکالت کرتا ہے اور جہاں اسلام دشمن ہی اس کی ہمدردی کا
جبہ زیب تن کئے اس کی ہمدردی کے آنسؤ بہاتا ہے ۔
ابھی تین طلاق کی آگ نہیں بجھی تھی کہ ’’من کی بات ‘‘کے پروگرام میں بولتے
ہو ئے نریندر مودی نے ایک نیا شوشہ چھوڑا کہ ’’مسلمان خواتین کو بغیر محرم
حج پر جانے کی اجازت نا ہونا ’’ناانصافی‘‘ہے۔نریندرمودی نے کہا ہے کہ انکی
حکومت نے یہ ’’امتیازی بندش‘‘ہٹادی ہے۔مودی کا کہنا تھا کہ اس حکومتی اقدام
کے بعد سینکڑوں خواتین نے محرم کے بغیر حج پر جانے کی درخواست دیدی ہے۔
مشہور اردو پورٹل ’’تفصیلات ڈاٹ کام ‘‘کے مطابق نریندر مودی نے اپنے ماہانہ
ریڈیو پروگرام ’’من کی بات‘‘کے تازہ شمارے میں کہاکہ اس بندش کو ہٹایا جانا
ایک ’’چھوٹا قدم‘‘دکھائی دے سکتا ہے لیکن’’ہماری سماجی شبیہ پر اسکے دور رس
اثرات مرتب ہوں گے‘‘۔مودی نے کہا کہ جب انہوں نے پہلی بار اس ’’بندش‘‘کے
بارے میں سْنا ،وہ حیران ہوگئے کہ ’’آخر اس طرح کا قانون کس نے تیار کیا
ہوگا‘‘اور جب میں معاملے کی گہرائی میں گیا یہ جان کر حیران ہوگیا کہ آزادی
کے ستر سال بعد بھی ہم اس طرح کی بندشیں عائد کئے ہوئے ہیں۔دہائیوں تک
مسلمان خواتین کے ساتھ ناانصافی ہوتی رہی ہے لیکن اس پر کبھی کوئی بحث نہیں
ہوئی‘‘۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ کئی ’’اسلامی ممالک‘‘میں اس طرح کی
’’بندشیں‘‘عائد نہیں ہیں۔وزیر اعظم مودی نے مزید کہا’’میں خوش ہوں کہ اس
بار قریب 1300مسلمان خواتین نے بغیر محرم کے حج پر جانے کی درخواست دی ہوئی
ہے اور کیرالا سے شمالی بھارت تک ملک کے مختلف حصوں سے خواتین نے حج پر
جانے کی خواہش ظاہر کی ہے‘‘۔مودی نے انکشاف کیا کہ اس نے اقلیتی امور کی
وزارت کو تجویز دی ہے کہ ان سبھی خواتین کو حج پر بھیجا جانا چاہیے جو بغیر
محرم کے سفر کرنا چاہتی ہوں۔انہوں نے کہا’’عمومی طور عازمین حج کا انتخاب
قرعہ اندازی سے کیا جاتا ہے لیکن میں چاہوں گا کہ اکیلی خواتین کو قرعہ
اندازی سے الگ رکھا جائے اور انہیں خصوصی طور جانے کا موقعہ دیا جانا
چاہیے‘‘۔اقلیتی امور کی مرکزی وزارت کے مطابق نئے قوانین کے تحت 45سال سے
زیادہ عمر والی خواتین کم از کم چار نفری گروپ میں بغیر محرم کے حج پر جانا
چاہیں تو انہیں اجازت ہوگی۔
تفصیلات کے مطابق سہ طلاق کے معاملے میں سپریم کورٹ کی مداخلت اور پھر
اسے(سہ طلاق کو)قابلِ سزا جْرم قرار دینے کیلئے پارلیمنٹ میں قانون بنائے
جانے کے دو ایک دن بعد ہی یہ بات سامنے آئی ہے البتہ ابھی تک واضح نہیں ہے
کہ بھارت سرکار نے اس حوالے سے سعودی حکومت کو آگاہ کیا ہے یا نہیں اور اگر
کیا ہے تو سعودی حکومت کا اس بارے میں کیا ردِعمل رہا ہے۔بھارت سرکار نے حج
پالیسی میں کئی تبدیلیوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب سے خواتین عازمین
بغیر محرم کے بھی سفرِ محمود پر جاسکتی ہیں۔ تاہم بغیر محرم کے حج کو جانے
والی خواتین کو انفرادی طور نہیں بلکہ گروہوں میں حج کو جانا ہوگا۔ حج 2018
ء کا اعلان کرتے ہوئے مرکزی سرکار میں اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی
نے پالیسی میں کی گئی کئی تبدیلیوں کے بارے میں بتایاکہ اس مرتبہ 2روانگی
مقامات کو برقرار رکھتے ہوئے عازمین حج کو سفر کے لئے متبادل بھی دیاگیا ہے
اور اپنے مسلک کے تحت محرم کے بغیر خواتین کو سفر حج کی سفارش کو نافذکیا
جارہاہے۔ ممبئی حج ہاوس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مختار عباس
نقوی نے کہاکہ ممبئی ،دہلی، کولکتہ ،احمد آباد،بنگلور،چنئی اور حیدرآباد کے
علاوہ سری نگر کے لئے نئی دہلی ،گوہاٹی کے بدلے کولکتہ ،ناگپور، اورنگ
آباد، بھوپال اور اندور کے متبادل کے طورپرممبئی کو رکھا گیا ہے جبکہ بنارس
کے عاز مین حج لکھنؤ سے بھی جاسکتے ہیں۔مرکزی وزیر حج نے کہا کہ نئی حج
پالیسی کے تحت70سال کی عمر کے شہری، جو حج کرنا چاہتے ہوں کیلئے مخصوص کوٹا
رکھا گیا ہے۔اسکے علاوہ 45سال سے زیادہ عمر کی خواتین کو 4یا اس سے زیادہ
تعداد کے خواتین گروپ میں شامل کرکے سفر محمود پر روانہ ہونے کی اجازت
ہوگی۔انہوں نے کہا ’’ ہم محرم مرد کے بغیر خواتین کے گروپ کو حج کرنے کی
اجازت دیں گے‘‘۔ رابطہ عالم اسلامی کے سابق ممبر اوربزرگ حریت پسند راہنما
سید علی شاہ گیلانی نے بھارتی پارلیمنٹ کی طرف سے سہ طلاق کو قابلِ سزا
جْرم قراردئے جانے کے بعد بغیر مرد محرم کے خواتین کو حج پر جانے کی اجازت
دئے جانے کے مودی سرکار کے فیصلے کی مذمت کی ہے۔انہوں نے کہا ہے ’’ بھارت
کی طرف سے اسلامی قوانین کو بدل ڈالنے کی بہیمانہ کارروائی صریحاً مداخلت
فی الدین ہے، جو کسی بھی مسلمان کے لیے ناقابلِ برداشت ہے‘‘۔شریعتِ اسلامی
سے متعلق ان اہم معاملات کو لیکر بھارت سرکار کی تازہ قانون سازی پر ردِ
عمل ظاہر کرنے کیلئے جاری کردہ ایک بیان میں سید گیلانی نے کہاہے’’ دراصل
بھارت کی موجودہ فرقہ پرست حکومت بھارت کو بڑی برق رفتاری کے ساتھ ایک ہندو
راشٹریہ بنائے جانے کی راہ پر گامزن ہوچکا ہے اور اس ضمن میں وہ سب سے پہلے
دین اسلام کی بنیادوں کو اکھاڑنے کے درپے ہونا چاہتا ہے، جوکہ قطعی طور پر
ناممکن العمل ہے، اس کے بعد دوسری تمام اقلیتوں کو ہندوازم میں ضم کرنے کے
خاکوں میں رنگ بھر دینا ایک آسان عمل سمجھتا ہے‘‘۔انہوں نے بھارت کی طرف سے
اسلام جیسے آفاقی دین پر نشانہ سادھنے کی دوسری اہم وجہ عالمی سطح کے ساتھ
ساتھ خود بھارت میں نوجوان نسل میں دین اسلام کی مقبولیت میں آئے روز بڑھتا
ہوا رحجان ہے جس نے بھارت کی موجودہ حکومت میں شامل فرقہ پرست جماعتوں آر
ایس ایس، شیو سینا اور بی جے پی کی نیندیں حرام کردی ہیں۔ رابطہ عالم
اسلامی کے ممبر رہ چکے راہنما نے اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی (OIC)کے
معزز ارکان ممالک سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ’’ بھارت جیسی اسلام دشمن
قوتوں‘‘ کی طرف سے اسلام کے حیات بخش قوانین میں ردوبدل کرنے کی کارروائیوں
کا سنجیدہ نوٹس لیتے ہوئے دین مبین کے خلاف ہورہی گھناؤنی سازشوں کو طشت
ازبام کرنے کا فریضہ انجام دیں۔انہوں نے عالم اسلام کے جید علمائے کرام اور
مجتہدین سے بھی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ بعض فقہی مسائل میں فروعی اختلافات
کے حوالے سے ایک جامع فیصلہ ساز ادارے کا قیام عمل میں لاکر متعصب غیر مسلم
اسلام دشمنوں کے لیے اْن تمام کمزور دروازوں کو بند کرنے کا منظم آغاز
کردیا جائے جہاں سے ایسے دین دشمن عناصر داخل ہونا آسان سمجھتے ہیں۔سید
گیلانی نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ دین اسلام کے مستند الٰہی
قوانین کے خلاف ایک فرقہ پرست حکومت ردّ وبدل کرنے کا بڑی ڈھٹائی کے ساتھ
اعلان کرتی ہے اور عالم اسلام کے مفکرین خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ حریت
رہنما نے متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی قوانین میں ردّوبدل کے کا حق نہ تو
منجملہ دنیا بھر کے لوگوں کا ہے اور نہ ہی اقوامِ عالم کی سبھی حکومتوں کو
ہے، دنیا میں اگر صرف ایک ہی مسلمان موجود ہو اْس کے لیے قرآن اور سنت کا
اتباع فرض عین ہے اگرچہ پوری دنیا اس کی مخالف بھی ہو۔
حیرت کا مقام یہی ہے کہ ابھی تک مسلمانان ہند طلاق جیسے خالص شرعی مسئلہ پر
کی گئی غیر اسلامی ،غیر فطری اور غیر انسانی قانون سازی کا زخم سہہ نہیں
پائے تھے کہ اسے بھی خطرناک کھیل کھیلنے کا پروگرام تشکیل دیکر مسلمانوں
میں حرام اختلاطِ مردوزن کے تصور کو مٹانے کے لئے اس کا آغاز حج جیسی خالص
عبادت سے کرنے کا فیصلہ لیا گیا ہے ۔مودی حکومت اگر چہ ان اسلام دشمن افعال
سے مکمل طور پر ننگا ہو چکی ہے مگر اس کھیل کا یہ آغاز آنے والے طوفان کا
پتہ دیتی ہے ۔ان کے عزائم میں جہاں مساجد و مدارس کی مسماری اورانفرادی طور
پر چند ایک مسلمانوں کو بہیمانہ انداز میں قتل کر کے اس کو فلماکر مسلمانوں
کو خوف زدہ کرنے کے بعد ’’گجرات طرز پر قتل عام‘‘کے ذریعے انھیں روہینگیائی
مسلمانوں کی طرح اپنے وطن سے ہجرت کرنے پر مجبور کرنا ہے ۔نریندر مودی اس
لحاظ سے باتونی وزیر اعظم ثابت ہو چکا ہے کہ یہ شخص نا ہی اپنے وعدے کے
مطابق اچھے دن لانے میں کامیاب ہو چکا ہے اور ہی بلیک منی واپس لانے کے لئے
کچھ کر پایا ہے ،نا ہی رشوت ستانی سے ملک کو نجات دلا سکا ہے اور نا ہی
اچھی گورنینس کے وعدے کا ایفاء کر نے میں کامیاب ہواہے ۔اس کو وزارت عظمیٰ
کی کرسی پر بیٹھتے ہی اس بات کا احساس ہو گیا کہ میں نے باتیں بہت بڑی کیں
مگر ان پر عمل کرنا ممکن نہیں ہے لہذا بہتر راستہ یہ ہے کہ مسلمانوں اور
دیگر اقلیتوں کو پریشان رکھ کر سنگھ پریوار کو بھی خوش رکھا جائے وہی
مسلمان جوان کے آر ایس ایس آئیڈیالوجی کے عین مطابق ’’اصل دشمن ‘‘قرارپا
چکے ہیں کے مذہبی معاملات میں مداخلت کر کے نہ صرف انہیں ذہنی کوفت میں
مبتلا رکھا جائے بلکہ انہیں ہندوستان میں رہتے ہو ئے اس بات کا احساس دلایا
جائے کہ موجودہ ہندوستان مغلوں کا ملک نہیں بلکہ ہندو راشٹر ہے جہاں عزت و
احترام صرف ایک قلیل اقلیت برہمنوں کے لئے ہے ۔مسلمانوں کو بھی اس حوالے سے
احساس کرنا چاہیے کہ اب یہ آفت بلا تخصیص مسلک و مشرب ان کے لئے تباہی اور
بربادی کے سارے سامان جمع کر چکی ہے جس کا مقابلہ صرف اتحاد ہی سے ممکن ہے
کسی اور طریقے سے نہیں ۔ اگر مسلمانان ہند نے اب بھی اس طوفان کی شدت کا
احساس نہیں کیا تو وہ دن دور نہیں جب شاعر کا یہ شعر ان پر صادق آئے گا ۔
نہ سمجھوگے تو مٹ جاووگے اے ہندوستان والو
تمہاری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں |