پاکستان اور معاہدہ ابراہم اکارد

پاکستان اور معاہدہ ابراہم اکارد
تحریر - محمد واجد عزیز

2020 میں ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کے دوران، امریکا نے مشرقِ وسطیٰ میں ایک بڑا سفارتی قدم اٹھایا جسے معاہدہ ابراہم (Abraham Accords) کہا گیا۔
اس معاہدے کے تحت کئی عرب ممالک نے اسرائیل کو بطور ریاست تسلیم کرتے ہوئے اس سے سفارتی، تجارتی اور دفاعی تعلقات قائم کیے۔یہ معاہدہ سب سے پہلے متحدہ عرب امارات اور بحرین نے ستمبر 2020 میں کیا۔
اس کے بعد سوڈان اور مراکش بھی اس کارواں میں شامل ہو گئے۔ یہ سب کچھ اس وقت ہوا جب فلسطین پر اسرائیل کے مظالم، غزہ کی بمباری، مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی سب کچھ دنیا دیکھ رہی تھی اور ،اس سب کا مقصد "امن" کے نام پر مشرق وسطیٰ میں سفارتی تعلقات کی نئی بساط بچھانا تھا — مگر فلسطینی عوام، جن کی زمین پر یہ سب کچھ ہو رہا تھا، ان سے کوئی مشورہ نہیں لیا گیا۔
لیکن مفادات نے ضمیر کو خاموش کر دیا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کے
جب عرب ریاستیں ایک ایک کر کے اسرائیل سے ہاتھ ملا رہی ہیں ، تو اب نظریں پاکستان پر بھی جم گئ ہیں
کیا پاکستان بھی یہ قدم اٹھائے گا؟
کیا وہ قوم جس کی بنیاد ہی نظریہ، انصاف، اور مظلوم کا ساتھ دینے پر رکھی گئی، اب مفاد پرستی کے تحت یہ تاریخی انکار ختم کر دے گی؟
یہ سوال محض قیاس آرائیاں نہیں، بلکہ حقیقی خدشات میں تبدیل ہو چکے ہیں۔
پاکستان میں مختلف ادوار میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی کوششیں کی گئیں، لیکن ہر بار قوم کی نظریاتی دیوار نے اسے روک دیا۔

جب اقوام متحدہ نے اسرائیل کو تسلیم کیا، تو اسرائیل کے پہلے وزیراعظم ڈیوڈ بن گوریان نے قائداعظم محمد علی جناح کو خط لکھا، جس میں پاکستان سے تعلقات قائم کرنے اور اسرائیل کو تسلیم کرنے کی درخواست کی گئی۔
مگر قائداعظم نے نہ صرف اس خط کا کوئی جواب نہ دیا، بلکہ کہا:
"یہ جس اصول اور قانون کے تحت فلسطین کو توڑ کر اسرائیل بنایا جا رہا ہے، وہ انصاف کے خلاف اور غیر پائیدار ہے اور اسکا اسرائیل کو کوئ فائدہ نہیں ہوگا ۔
یہی وہ نظریہ تھا جو پاکستان کی روح کہلایا — کہ ہم کسی غاصب، قابض، اور ظالم قوت کو ریاست ماننے کے لیے تیار نہیں، چاہے دنیا کچھ بھی کر لے۔

2005 میں جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ایک غیر معمولی موڑ آیا۔
ترکی میں پاکستانی وزیر خارجہ خورشید قصوری اور اسرائیلی ہم منصب کے درمیان خفیہ ملاقات ہوئی۔
یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار تھا کہ اسرائیل سے براہِ راست کسی اعلیٰ سطح پر رابطہ کیا گیا۔
مگر جب یہ بات منظرِ عام پر آئی، تو پاکستانی عوام، مذہبی جماعتوں، اور سول سوسائٹی نے سخت ردعمل دیا۔
حکومت کو پیچھے ہٹنا پڑا اور یہ "پیش رفت" وہیں رک گئی۔
عمران خان کی حکومت میں بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی آوازیں پھر اٹھیں، مگر اس بار انداز زیادہ چالاک اور میڈیا پر اثرانداز ہونے والا تھا۔
ذرائع کے مطابق کچھ مشہور صحافیوں کو خفیہ بریفنگز دی گئیں۔انہیں کہا گیا کہ وہ میڈیا میں اسرائیل سے متعلق نرم مؤقف اپنائیں تاکہ عوام آہستہ آہستہ ذہنی طور پر تیار ہوں۔ مگر جب سوشل میڈیا پر یہ باتیں لیک ہوئیں تو شدید عوامی ردعمل سامنے آیا۔ عمران خان نے بظاہر میڈیا پر اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کا مؤقف دہرایا،
لیکن قوم نے دیکھ لیا تھا کہ پسِ پردہ ایک اور کہانی لکھی جا رہی تھی۔
پاکستان کے عوام کا اسرائیل سے متعلق مؤقف کبھی نہیں بدلا۔
ہر دور میں، ہر حکومت میں، اور ہر دباؤ کے باوجود قوم کی نظریاتی غیرت زندہ رہی۔
چاہے فلسطینی بچے مارے جائیں یا مسجدِ اقصیٰ پر حملہ ہو، پاکستان کی گلیوں، محلوں، اور سوشل میڈیا پر فلسطین کے حق میں آوازیں گونجتی رہتی ہیں۔ یہی وہ دیوار ہے جو اب تک پاکستان کو اسرائیل کو تسلیم کرنے سے روکے ہوئے ہے۔ لیکن پاکستان کے امریکہ سے بڑھتی رقابتوں نے ایک بار پھر سوال کھڑا کر دیا ہے

کیا پاکستان بھی ابراہم اکارڈ کا حصہ بننے جا رہا ہے؟
عالمی سطح پر امریکا اور اس کے اتحادی ممالک چاہتے ہیں کہ پاکستان بھی اسرائیل سے ہاتھ ملا لے۔
عرب دنیا کی خاموشی یا حمایت بھی اس دباؤ کو بڑھا رہی ہے۔

مگر سوال یہ ہے:
کیا ہم وہ قوم ہیں جو قائداعظم کے انکار کو بھول جائے گی؟
کیا ہم وہ ریاست ہیں جو اقبال کے فلسفے کو سرمایہ کاری سے بدل دے گی؟
کیا ہم وہ ملک ہیں جو فلسطینی شہداء کے لہو سے بے وفائی کرے گا؟
میرا نہیں خیال۔
اب اگر کوئی سیاست دان، کوئی حکومت، یا کوئی طاقت ہمیں اسرائیل تسلیم کرنے پر مجبور کرے گی،
تو وہ اپنی سیاست کا جنازہ خود اٹھائے گی۔
پاکستان صرف ایک ریاست نہیں، یہ ایک نظریہ ہے —
اور نظریات فروخت نہیں ہوتے۔
دنیا بدل رہی ہے، مگر ہر تبدیلی ترقی نہیں ہوتی۔
فلسطین کے بچے آج بھی کنکریوں سے ٹینکوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
ان کی ماہیں آج بھی اقصیٰ کے سائے میں شہادت کی دعائیں مانگتی ہیں۔
اور ہم؟ کیا ہم ان کے خون پر معاہدے کریں گے؟

اب فیصلہ صرف حکومت کا نہیں،
یہ قوم کے ضمیر کا امتحان ہے۔


 

Wajid aziz
About the Author: Wajid aziz Read More Articles by Wajid aziz: 5 Articles with 1778 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.