ہندوستانی تاریخ میں ایسے سے بہت سے مواقع آئے، جب
مسلمانوں کے تئیں بے شمار مسائل پر سیاسی پارٹیاں باہم ایک ہوگئیں، حالانکہ
دیگر ملکی معاملات پر وہ باہم مختلف ہوتیں۔اپنی اپنی ڈفلی اور اپنا اپنا
راگ انھیں عزیز ہوتا ، مگر مسلمانوں کے تئیں بیشتر مواقع وہ اس طرح ہم خیال
ہو گئیں ، جیسے ان کے درمیان کوئی اختلاف رہا ہی نہیں ۔ تین طلاق بل پر لوک
سبھا میں کانگریس نے جس طرح بی جے پی کے سُر میں سُر ملایا ، ا س سے صاف
واضح ہوگیا تھا کہ تمام تر اختلافات کے باوجود مسلما نوں کے مسائل پر دونوں
پارٹیاں ایک ہیں۔یہی وجہ تھی کہ ایک جمہوری ملک ہندوستان میں ایک ایسا بل
پاس ہوتے ہوتے رہ گیا ، جو سراسر پرسنل لا میں مداخلت تھی ۔ کانگریس کا
دہرا رویہ اس وقت بھی سامنے آیا جب اس نے پارٹی کے موقر لیڈر ممبر آف
پارلیمنٹ مولانا اسرارالحق کو اس بل پر پارلیمنٹ میں اپنی رائے رکھنے کا
موقع نہیں دیا۔ کانگریس کو معلوم تھا کہ اگر مولانا اسرارالحق قاسمی اس بل
پر بولیں گے تو اس بل کے منفی نکات بھی سامنے آئیں گے ، جن کی بنیاد پر اس
بل کو پاس کرانا آسان نہیں ہوگا ۔ اس لیے کانگریس نے مولاناقاسمی کو اس پر
اظہار خیال کا موقع ہی نہیں دیا ۔ ہم کل بھی پرامید تھے اور آج بھی پرا مید
ہیں کہ اگر پارٹی انھیں پارلیمنٹ میں کچھ بولنے کا موقع دیتی تو طلاق ثلاثہ
بل پر وہ اپنی اچھوتی رائے رکھتے ۔ اسلامی طلاق اور عائلی نظام کے مدنظر اس
بل کی بیخ کنی کرتے ۔ کیوں کہ مولانا اسرارالحق قاسمی نہ صرف ایک سیاسی
لیڈر ہیں، بلکہ وہ اسلامی شریعہ سے بھی مکمل طور پر آگاہ ہیں ۔ اس لیے یہ
کہا جاسکتا ہے کہ جتنے لیڈروں اور سیاستدانوں نے اس بال پر پارلیمنٹ میں
تقریر کی ، ان سب سے بہتر مولانا قاسمی بولتے لیکن بدقسمتی سے انھیں بولنے
کا موقع نہیں دیا گیا ۔
اب سوال یہ ہے کہ لوک سبھا میں اس بل کو منظوری ملنے کے بعد آخر کانگریس کے
موقف میں اچانک تبدیلی کیوں آئی ؟ کیا کانگریس سیاست پر آمادہ تھی کہ لوک
سبھا میں اس بل کی حمایت کرنی ہے اور راجیہ سبھا میں اس کی مخالفت؟کیا
کانگریس ایک ایوان میں اس بل کی حمایت کرکے برادران وطن کی نگاہ میں محبوب
بن رہی تھی اور دوسرے ایوان میں اس کی مخالفت کرتے ہوئے مسلمانوں کی ہمدرد
بننا چاہتی تھی ؟یا پھر کانگریس عوامی مزاج کو پرکھنا چاہتی تھی کہ اس بل
کی حمایت سے لوگوں میں اس کے تئیں کیسے کیسے خیالات پنپ رہے ہیں ؟ اگر
گہرائی سے دیکھیں توان تمام سوالوں کا جواب ایک ہے۔ وہ یہ ہے کہ لوک سبھا
میں اس بل کی حمایت کی وجہ سے کانگریس کو مسلمانوں کی برہمی کا احساس ہوگیا
تھا ۔ مسلمانوں کی برہمی کا احساس دلانے میں مولانا اسرارالحق قاسمی ایم پی
نے سب سے اہم کردار ادا کیا ۔ کیوں کہ انھوں نے واضح لفظوں میں پارٹی سے
کہہ دیا کہ اگر پارٹی راجیہ سبھا میں اپنا موقف تبدیل نہیں کرتی ہے تو
پارٹی میں میرا آخری دن ہوگا ۔ کانگریس کے لیے مولانا قاسمی کا یہ عندیہ
پارٹی کے لیے دوطرفہ جنگ کے مانند تھا۔ ایک یہ کہ اگر وہ استعفیٰ دے دیتے
تو پارلیمنٹ میں خود کانگریس کی نمائندگی کم ہوجاتی ۔ دوسرایہ کہ مسلمانوں
کے درمیان کانگریس کی شبیہ انتہائی مجروح ہوجاتی ہے ۔ اس لیے نازک صورت حال
میں کانگریس کو اپنا موقف تبدیل کرنا پڑا۔ کانگریس بخوبی واقف تھی کہ اگر
مولانا پارٹی چھوڑتے ہیں تو پارٹی نہ صر ف میں ایک رکن سے دست بردار ہوگی ،
بلکہ ایک بڑے طبقہ کی مایوسی لازم آئے گی۔یہ حقیقت ہے کہ مولانا اسرارالحق
قاسمی فقط اپنے پارلیمانی حلقہ تک محدود نہیں ہیں، بلکہ ملی ، تعلیمی اور
سماجی خدمات کے پس منظر میں ملک بھر کے نمائندہ ہیں ۔ ظاہر ہے پارٹی سے
ایسے قاید کا استعفیٰ دینا ، اس پارٹی کے لیے ایک انتہائی نقصان دہ معاملہ
ہوگا۔ گویا کانگریس نے لوک سبھا میں اس بل کو منظوری ملنے کے بعد اپنا جو
موقف تبدیل کیا ، اس میں مولانا اسرارالحق قاسمی کا بڑا عمل دخل رہا ہے ۔
حالیہ دنوں راجستھان اور مدھیہ پردیش میں اسمبلی کا الیکشن ہونا ہے۔ اس لیے
کانگریس کو پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے۔ کانگریس کی سیاسی مجبوری
تھی کہ وہ مولانا اسرارالحق قاسمی کے فیصلہ کو آنکھ نہ دکھا ئے ۔ اس لیے یہ
کہنا بھی بجا ہوگا کہ مولانانے مناسب موقع سے اچھا قدم اٹھایا اور سیاسی
بصیرت کا مظاہرہ کیا ۔اگر وہ فی الفور اسی وقت استعفیٰ دے دیتے ، جس وقت
کانگریس نے انھیں لوک سبھا میں ٹرپل طلاق بل پر بولنے کا موقع نہیں دیا تو
آج نہ مولانا پارٹی پر کوئی دباؤ بنا پاتے ہیں اور نہ ہی ٹرپل طلاق کی یہ
صورتحال ہوتی ۔ اگر وہ عجلت کا ثبوت دیتے ہوئے پارٹی سے مستعفی ہوتے تو
کانگریس کا نقصان ضرور ہوتا ، مگر مسلمانوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا ۔ کیوں
کہ اس صورت میں وہ نہ پارٹی پر دباو بنا سکتے تھے اور نہ ہی اپوزیشن
پارٹیوں کے لیڈران سے مل کر راجیہ سبھا میں اس بل کو رکوانے کی مدد مانگ
سکتے تھے ۔ اس لیے یہ کہنا پڑتا ہے کہ برو قت مولانا قاسمی نے جو فیصلہ لیا
، وہ واقعی قابل التفا ت ہے ۔
سیاسی تاریخ میں ایسا بہت ہی کم ہوتا ہے کہ ایک رکن پارلیمنٹ کے سامنے ملک
کی بڑی پارٹی کمزور نظر آئے، لیکن مولانا اسرارالحق قاسمی کے استعفیٰ کے
فیصلے کے بعد کانگریس جس طرح کمزور نظر آئی ، ویسا منظر نامہ کبھی کبھی ہی
سامنے آتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ ایک جمہوری ملک میں عوام کو اپنے نمائندگان سے
بہت سی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں ۔ مولانا قاسمی سے بھی ایک بڑے طبقہ کو ٹرپل
طلاق بل کے تئیں امیدیں وابستہ تھیں، مولانا نے سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے
ہوئے ان امیدوں کی لاج رکھی۔ اور وہ بھی اس حد تک کہ پارٹی دفاعی پوزیشن پر
پہنچ گئی اور چند دنوں کے فاصلہ میں ہی اس نے اپنا موقف تبدیل کرلیا۔ اس
تبدیلی میں بآسانی یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک رکن پارلیمنٹ نے پارٹی کو
گھنٹہ ٹیکنے پر مجبور کردیا ہے ۔
مولانا اسرارالحق قاسمی کے تئیں ایک سوال یہ بھی گردش کررہا ہے کہ انھوں نے
کانگریس سے کوئی سانٹھ گانٹھ کی ہوگی، اس لیے وہ لوک سبھا میں اس بل کی
مخالفت کے لیے موجود نہیں رہے ۔ اس سوال کے متعدد جوابات ہوسکتے ہیں۔ کیوں
کہ اگر انھیں پارٹی کی منہ بھرائی ہی مقصود ہوتی تو وہ پریس ریلیز جاری
کرکے ٹرپل طلاق بل یا کانگریس کے موقف کی تردید نہیں کرتے ۔ اس کے علاوہ یہ
بھی کہا جاسکتا ہے کہ کانگریس کے پاس فی الحال کوئی ایسی لاپی پاپ بھی نہیں
کہ اس کے لالچ میں کسی ایماندار لیڈر کو اپنے قبضے میں رکھا جاسکے ۔ اگر
کانگریس برسر اقتدار ہوتی تو لوگ بآسانی کہہ دیتے کہ مولانا کو منسٹری کی
لالچ ہے ، حالانکہ کانگریس کی موجودہ صورتحال میں ایسی ڈیلنگ نہیں ہوسکتی ۔
اگر کانگریس اور مولانا اسرارالحق قاسمی کے مابین تعلقات پر نظر ڈالیں تو
یہ بھی معلوم ہوگا کہ ماضی میں مولانا کاموقف ہمیشہ واضح رہا ہے ۔ کیوں کہ
انھوں نے کبھی ٹکٹ کی پروا نہیں کی ، بلکہ پارٹی اگر غلط سمت گئی تو انھوں
نے انگشت نمائی کی اور اس کے خلاف باضابطہ پارلیمنٹ میں اپنی بات رکھی۔ اس
تناظر میں خواتین بل اور مسلم نوجوان کی گرفتاری کے مسئلہ کو سامنے رکھ
سکتے ہیں ۔ ان دونوں ایشوز پر مولانا نے ہمیشہ وہی موقف اپنایا جو ملک اور
قوم کے مفاد تھا ۔ اسی طرح مولانا اسرارالحق قاسمی نے پارٹی کے لیے ان
علاقوں میں تشہیر ی کا م نہیں کیا ، جہاں مسلمانوں کے تئیں کانگریس کا
ڈھلمل رویہ رہا ہے۔چاہے مہاراشٹر ہوکہ دیگر ، مولانا پارٹی سے صاف لفظوں
میں تشہیر ی کام کے لیے منع کردیا ۔ اس لیے یہ کہنا پڑے گا کہ کئی ریاستوں
میں ہونے انتخابات کے پس منظر میں مولانا اسرارالحق قاسمی کے استعفیٰ کے
اشارہ سے کانگریس خوف میں مبتلا ہوگئی ، جس کا سیدھا فائدہ یہ ہوا کہ اسے
اپنے موقف میں تبدیلی لانا پڑی اور اس واقعہ قبل بھی انھوں نے کانگریس کے
پاس اپنا واضح موقف رکھا۔
ٹرپل طلاق بل پر اہم کردار کرنے کے لیے اسی طرح سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرنا
ضروری ہے ، جس طرح مولانا اسرارالحق قاسمی نے کیا۔ ملک کے موجودہ سیاسی
منظرنامہ میں پارٹی مفاد ات سے تھوڑا اوپر اٹھنے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی
مسلم پرسنل لا کو سمجھنے اور سمجھانے کی بھی، تاکہ پارٹیوں کو سمجھانا آسان
ہوسکے اور عوام کو بھی بیدار کرنا ممکن ہو جائے۔ کیوں کہ پارلیمنٹ کے آئندہ
سیشن سے پہلے عوامی سطح پر مسلمانوں کو مضبوط ہونے کی ضرورت ہے اور اپوزیشن
پارٹیوں کی ذہن سازی کرنا بھی لازمی ہے ، تاکہ یہ پارٹیاں راجیہ سبھا میں
ٹرپل طلاق بل کو رکوانے میں مزید اہم کردار ادا کرسکے اور پرسنل لا ء میں
برسراقتدار پارٹی کی طرف سے کوئی منفی مداخلت کی مثال قائم نہ ہوجائے۔ |