دانش مندہمیشہ اپنی غلطیوں پرنادم اورحالات سے سیکھتاہے
جبکہ جاہل اس کے بالکل برعکس کرتاہے۔موجودہ حکومت مکافاتِ عمل کے ایسے دور
سے گزررہی ہے کہ انتخابات سے قبل ہی تنہائی کاشکارہوتی جارہی ہے۔صوبہ
بلوچستان اور کراچی میں سینکڑوں آدمیوں کواپنے مکروہ عمل سے لقمہ اجل بنانے
والے بھارتی جاسوس کلبھوشن پرپلک جھپکتے ہی ایسی مہربان ہوگئی کہ اچانک اس
کی والدہ اوربیوی کو بابائے قوم کے یوم پیدائش پر وزارتِ خارجہ کے خصوصی
سیل میں ملاقات کااہتمام کرکے اس عمل کوخارجہ پالیسی کی اہم کامیابی سے
تعبیر کررہی ہے جبکہ ترجمان دفترخارجہ ڈاکٹرفیصل نے بصدالتزام اوربغیرکسی
سوال کے خوشخبری دی ہے کہ یہ کلبھوشن سے آخری ملاقات نہیں
تھی۔ادھروزیرخارجہ خواجہ آصف نے اس سے بھی پہلے بھارت کورام کرنے کیلئے
عندیہ دے چکے ہیں کہ بھارت کوکلبھوشن تک قونصلرکی رسائی بھی دی جاسکتی
ہے۔وزیر خارجہ نے توبھارتی دہشتگرد کلبھوشن کی رحم کی اپیل کے حوالے سے
ممکنہ فیصلے کے حوالے سے رعایتوں کے امکان کابھی تاثردیاہے۔
اسے پاکستان کے مخصوص ماحول اورفیصلہ سازی کے کلچرمیں کہاجاسکتاہے کہ یہ
اہل وطن کی ذہن سازی کی کوششوں کاحصہ بھی ہوسکتاہے۔ بیرونی طاقتوں کامثبت
اشارہ اورپاکستان کے ازلی دشمن بھارت کیلئے ایک خوشگوار پیغام بھی۔اس بارے
میں معاملہ صاف ہونے میں اب شایدزیادہ دیرنہ لگے لیکن ماضی میں جس طرح
حکومت کی سطح سے بھارتی بحریہ کے دہشتگردافسرکے بارے میں
اندازاختیارکیاگیااسے وزیرخارجہ کی تازہ گفتگو اوردفترخارجہ کی متجاوزوضاحت
کہ یہ آخری ملاقات نہیں تھی،کے ساتھ ملاکردیکھاجائے تواس معاملے میں شکوک
وشبہات کوبڑھاواملتاہے کیونکہ یہ سامنے کی بات ہے کہ سابق وزیراعظم
نوازشریف نے ٣مارچ٢٠١٦ء کوکلبھوشن کی صوبہ بلوچستان سے گرفتاری سے لیکراب
اپنے سابق ہوجانے تک اورموجودہ وزیر اعظم خاقان عباسی نے اس معاملے پرلب
کشائی سے گریزکی یکساں حکمت عملی اختیارکر رکھی ہے۔اس لمبی چپ کو بلاوجہ
نہیں ماناجاسکتاخصوصاًجب وزیرخارجہ کے حوالے سے یہ بھی انکشافات ہوچکے ہوں
کہ کلبھوشن کے معاملے میں موصوف امریکی حکام سے کچھ ہدایات لیکراورکچھ وعدے
کرکے آئے تھے کہ بھارت کواس سلسلے میں کچھ رعائتیں دینے کی کوشش کی جائے گی۔
اس سے پہلے رواں سال ہی بھارت میں لوہے کی صنعت کی ایک اہم شخصیت جندال بھی
نوازشریف سے مری میں میں ایک انتہائی غیرمعمولی ملاقات میں کلبھوشن کیلئے
بھارتی خواہشات پہنچاچکے ہیں جبکہ ہماراماضی کاریکارڈ ریمنڈ ڈیوس جیسے
قاتلوں کے حوالے سے بھی شکست خوردی، فرمانبرداری اورخون فروشی پرمبنی
رہاہے۔یوں یہ ساری باتیں اس معاملے کواوربھی مشکوک بناتی ہیں کہ کہیں
بھارتی دہشتگردکلبھوشن کورہاکرنے کی تیاری یاذہن سازی توجاری نہیں
ہے۔پھانسی کے منتظرایک بھارتی دہشتگردقیدی کوآخریہ ساری آؤٹ آف باکس
سہولیات اوررعائتیں کیونکر دی جارہی ہیں۔اس تناظرمیں پاکستان کے ایک
غداراورامریکاکیلئے ہپیروکادرجہ رکھنے والے شکیل آفریدی کی رہائی اور
امریکاروانگی کے بارے میں ایک مرتبہ پھرشکوک پیداہونے لگے ہیں۔لامحالہ
امریکی اشاروں پرکلبھوشن کی رہائی کی باتیں ہوسکتی ہیں تو شکیل آفریدی جس
کابراہ راست امریکی آشاؤں اورمفادات سے تعلق ہے اس کیلئے نرمی کااسلوب کیوں
سامنے نہیں لایا جاسکتاہے؟
کلبھوشن کیلئے نرمی اورلچک پرمبنی روّیہ اورمہربانیوں کے اس اندازکوانسانی
حقوق کی پاسداری کانام دیاگیاہے۔اسی کھاتے میں پہلے کلبھوشن کی درخواست
پراس کی اہلیہ کودعوت دی گئی ،جب بھارت کی طرف سے والدہ کی ملاقات کیلئے
کہاگیاتو یہ مطالبہ بھی مان لیاگیا۔یوں معاملہ بھارت کے حق میں طے ہوگیا ۔بھارت
جواس معاملے کوشروع سے انسانی بنیادوں پرڈیل کرنے کی بجائے خالصتاًریاستی
مفادات کے حوالے سے ڈیل کررہاتھا کہ اس نے پونے دوبرسوں میں کلبھوشن کے اہل
خانہ بشمول اس کی والدہ اوراہلیہ کسی کومیڈیاکی دسترس میں نہیں آنے دیا۔
گویاپاکستان میں دہشتگردی اور جاسوسی کے الزام میں کلبھوشن
کیاگرفتارہوابھارت میں اس کے اہل خانہ غیراعلانیہ حراست میں چلے گئے۔ اب اس
موقع کوبھی بھارت نے اپنے سیاسی اورریاستی مفادات کیلئے استعمال کرنے کی
حکمت عملی اپنائی۔
اسلام آبادمیں موجود بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر اس مقصدکیلئے بطورخاص دہلی
گئے۔کلبھوشن کی والدہ اوراہلیہ کوپاکستان میں لانے تک طوطے کی طرح سبق
رٹانے کی کوشش کی کہ جس ماں کواپنے بیٹے اوربیوی کواپنے شوہرسے ملاقات
کاموقع مل رہاتھابھارت نے اپنے منفی مقصداورریاستی مقاصد کیلئے استعمال
کرتے ہوئے ان دونوں خواتین کواپنے من پسند سوالات اورنکات سے
لاددیا۔ادھرنئی دہلی میں بھارتی دفترخارجہ اورمیڈیاکوان دونوں خواتین کی بے
بسی اورمحرومی کو بیچتارہاجبکہ پاکستان میں بھارتی ہائی کمیشن خالصتاًاپنے
اس ماں اوربیوی کے احساسات کومسل کچل کراپنی ضرورت پوری کرنے کی کوشش میں
رہا۔اس مقصدکیلئے دونوں خواتین کے اسلام آبادائیرپورٹ پہنچنے ہی انہیں طے
شدہ پروگرام کے برعکس بھارتی ہائی کمیشن لیجایا گیا کہ انہیں بھارتی سبق کے
مطابق کلبھوشن سے بات چیت کرکے کچھ بھارت کوبچانے والے جوابات حاصل کرنے کی
کوشش کریں، گویاانسانی حقوق کی آڑمیں بھارت نے اپناالوسیدھاکرنے کی پوری
کوشش کی اورحکومت پاکستان نے اسے اس کا پورا موقع دیے رکھا حتیٰ کہ بھارتی
ڈپٹی ہائی کمشنرکوبھی اس خصوصی طورپر تیار کئے گئے کمرے میں موجودگی کاحق
دے دیاگیاتاکہ وہ کلبھوشن اوراس کی ملاقات کیلئے ّنے والے اہل خانہ کی کم
ازکم باڈی لینگویج سے ضرورکچھ فائدہ اٹھاسکاتواٹھالے۔
وزیرخارجہ خواجہ آصف نے بھارتی سفارتکارکی اس موجودگی کوقونصلرکی رسائی
کانام ہی دیاہے،بلاشبہ یہ قونصلرکی ملاقات یارسائی تونہ تھی لیکن اس جانب
ایک پیش رفت ضرورکہی جاسکتی ہے۔کل بھارت اسی کوبنیادبناکرحکومت پاکستان میں
کلبھوشن اوربھارت کیلئے پیداہوچکی نرمی کوآگے بڑھانے کی کوشش
کرسکتاہے۔ادھرحکومت پاکستان جو یہاں تک تو پہنچی،یہاں تک توآئی کہ مصداق
بھارت پرمہربانی کوتیارپائی گئی ہے اورجس نے اس چکرمیں کہ اس کیلئے باہر
اچھاپیغام جائے گاایک طرح سے کلبھوشن کیلئے آئندہ دنوں میں مزید نرمی
کاتاثردے دیاہے۔یہ سب کچھ اس کے باوجود کیاجا رہا ہے کہ کلبھوشن ہزاروں بے
گناہ پاکستانیوں کی جانیں لینے کابراہِ راست یابالواسطہ ذمہ دارہے۔
بلوچستان میں آج بھی جاری دہشتگرد کاروائیوں میں کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی
حدتک اس کاکردارہے۔
حیرت انگیزامریہ ہے کہ ایک بھارتی دہشتگردکے انسانی حقوق کیلئے تڑپ دکھانے
والی ہماری حکومت نے آج تک اس احساسیت کاعشرعشیربھی پاکستان کی بیٹی عافیہ
صدیقی کیلئے اظہارنہیں کیاہے۔اپنی جانب سے کوئی کوشش تو ایک طرف سابق
امریکی صدر اوباماکی جانب سے قیدیوں کیلئے معافی کی اعلان کردہ سہولت سے
بھی فائدہ اٹھانے اورقوم کی اس بیٹی کو واپس لانے کی کوشش نہیں کی گئی۔اس
کے باوجودعافیہ کی والدہ اوربہن فوزیہ صدیقی کی جانب سے مطالبہ بھی کیاجاتا
رہا،پکاراورفریادبھی کی جاتی رہی،صرف یہی نہیں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے اہل
خانہ کی ٢٠١٥ء کی اس سلسلے میں ایک درخواست پر اسلام آبادہائی کورٹ کافیصلہ
بھی آچکالیکن کلبھوشن کیلئے مری جانے والی حکومت پاکستان بشمول سابق وزیر
اعظم نواز شریف ،موجودہ وزیراعظم خاقان عباسی اوروزیرخارجہ خواجہ آصف کسی
نے توجہ نہیں کی۔کسی کوخیال نہیں آیاکہ عافیہ صدیقی کوامریکی عدالت نے ٨٦سال
کی سزا غیر قانونی طورپردی ہے،بلاجوازدی ہے۔امریکی عدالت کے اس غلط فیصلے
پرذاتی نہیں توحکومتی سطح پرہی آوازاٹھادیتے کہ امریکامیں عدل کی بحالی
تحریک کااثرپہنچ جاتا۔ایک بے حسی کاایسا ماحول ہے کہ الاامان الحفیظ!اب
ڈاکٹرعافیہ کے اہل خانہ وفاقی محتسب سے بھی اس سلسلے میں رجوع کر چکے ہیں،
شائد کوئی حکومتی عہدیداریاکسی دوسرے معتبرادارے کاذمہ دار کلبھوشن جتنی
انسانی ہمدردی کا اظہارڈاکٹرعافیہ کیلئے بھی کر دے کہ عافیہ کی ممتاکے بھی
انسانی حقوق ہیں لیکن شائد انسانی حقوق ہماری حکومتوں نے بلیک واٹرکے
دہشتگرد اور برسر عام دوپاکستانیوں کے قاتل ریمنڈڈیوس اور کلبھوشن جیسوں کے
ہی تسلیم کئے ہیں کہ ان کی پشت پرامریکااوربھارت ہوتا ہے۔
حکومت پاکستان کی اس نرم دلی کاکلبھوشن کے ساتھ معاملہ جس ٢٥دسمبر کوکیا
گیا،اسی روزکلبھوشن کی والدہ اوراہلیہ اسلام آبادسے نئی دہلی کیلئے روانہ
نہیں ہوئی تھیں کہ بھارت نے بدلہ چکادیا۔عسکری ذرائع کاکہناہے بھارتی قابض
فوج نے راولاکوٹ کے نزدیک پانچ بجکرپچاس منٹ پر کنٹرول لائن کی خلاف ورزی
کرتے ہوئے اچانک گولہ باری کرکے پاکستان کے تین فوجیوں کوشہیدکردیا ۔
فاعتبرویااولی الابصار...فاعتبرویااولی الابصار ۔ بھارتی دہشتگردکے نخرے
اٹھانے کے ساتھ ساتھ اپنے شہریوں اورجوانوں کی لاشیں بھی اٹھانے کیلئے تیار
رہیں۔واضح رہے کہ پاکستانی وزارت خارجہ کے مطابق بھارت ۲۰۱۷ء کے دوران لائن
آف کنٹرول کی تیرہ سوسے زائدمرتبہ خلاف ورزی کرچکاہے ،اس کے باوجود بھارتی
دفتر خارجہ ،بھارتی ذرائع ابلاغ اورہیگ کی بین الاقوامی عدالت انصاف میں
دہشتگردکلبھوشن کا کیس لڑنے والے وکیلوں سمیت سبھی نے ایک ایک ہی راگ الاپ
رکھاہے کہ پاکستان کی اس نیکی کو''کھوہ کھاتے''ہی نہیں ڈالابلکہ
الٹاپاکستان کوموردِ الزام ٹھہرایاہے کہ کلبھوشن کی بیوی کی جوتی یہاں رہ
گئی ،کپڑے بدلوادیئے اوردرمیان میں شیشہ حائل کردیا،وغیرہ وغیرہ، گویانیکی
بربادگناہ لازم والی بات ہوگئی۔
مہاراج!آپ نے کون سے پاکستانی قیدی کوانہی انسانی حقوق کی بنیادپراس کے اہل
خانہ سے ملوایا؟بھارت نے توابھی تک پاکستانی فوج کے ریٹائرڈ کرنل حبیب
کاکچھ اتہ پتہ نہیں دیاجسے بھارتی اداروں نے نیپلا سے اغواء کیاتھالیکن
افسوس کہ حکومت پاکستان کی ساری ہمدردی بھارتی اورامریکی دہشت گردوں کیلئے
ہے جبکہ بھارت ان کشمیری مسلمانوں اورحریت پسندوں کے ساتھ بھی انسانی انداز
اختیارکرنے کوتیارنہیں حالانکہ کشمیرکواپنااٹوٹ انگ بتاتی ہے ۔اگرایک سیکنڈ
کیلئے یہ فرض کرلیں(جوکہ میرے لئے مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے)بھلا دنیا
میں کون ساایساملک ہے جواپنے ہی ایک لاکھ سے زائدشہریوں کوبے رحمانہ
اورظالمانہ ندازمیںنہ صرف قتل کردے بلکہ اس ملک کی فوج بے گناہ خواتین کوبے
آبرواوربچوں کویتیم کردے اور بلاتخصیص کشمیری مردوزن کو محض اس لئے
دیوارزنداں کے پیچھے قیدکردے کہ وہ اقوام متحدہ میں خود بھارت کے تسلیم
کردہ حق خود ارادیت کا مطالبہ کرتے ہوں۔
بزرگ علیل کشمیری رہنماجناب سیدعلی گیلانی کوپچھلے آٹھ سالوں سے گھرمیں
نظربندکرکے رکھنا،انہیں ملک کے اندر اورباہرنقل وحرکت کی اجازت نہ دینا کیا
انسانی حقوق کامسئلہ نہیں بنتاہے ؟ ایک بیمار خاتون آسیہ انداربی کو کئی
مرتبہ آہنی سلاخوں کے پیچھے دھکیل کرکون سی جوان مردی کااظہار کیا جارہاہے۔
محترمہ آسیہ اندرابی کے شوہرڈاکٹرقاسم کوپچھلے ٢٥سالوں سے غیرقانونی
طورپرجیل میں بندکررکھاہے جبکہ آسیہ اندرابی کاچھ مہینے کابیٹا محمدبن قاسم
بھی جیل میں رہ چکاہے جسے کئی سال بعدجیل سے رہائی ملی تھی جبکہ وہاں کی
عدالتوں کے فیصلوں کے مطابق یہ سب کچھ غیرقانونی ہے اوراسی نام نہاد اٹوٹ
انگ کے شہری یٰسین ملک کی اہلیہ اورتین سالہ بیٹی کوبھی ملنے کی اجازت
نہیں۔کیامشعال ملک یااس کی۳ سالہ بیٹی کوئی دہشتگردہیں یاپھریٰسین ملک بھی
تو ایک سیاسی رہنماء ہیں جوکشمیرکی آزادی کی قانونی اورجائز جدوجہد کر رہے
ہیں۔کیاماں بیٹی کی ملاقات سے مہان بھارت ٹوٹ جانے کاخطرہ ہے مگر افسوس کہ
حکومت پاکستان نے دہشتگرد کلبھوشن کیلئے تواپنادل واتوکردیا،ان بھارتی
مظالم اورجبرو استبدادکی جانب توجہ مبذول نہ کروائی اورنہ ہی اس کا اہتمام
کیاکہ ایک دہشتگردکے اہل خانہ کی ملاقات کاموقع فراہم کررہے ہیں تو بھارت
بھی کم از کم سکہ بندسیاسی رہنماؤں اور حریت پسندوں کے ساتھ انسانی سلوک
کرے۔
پاکستان کی طرف سے نرمی کایکطرفہ زم زم بہتارہا اس کے باوجودمکارصنم خوش نہ
ہوسکاجبکہ دنیاکے بتکدے میں سب سے بڑابت امریکابھی ٹس سے مس نہیں ہوا بلکہ
امریکاکی جانب سے بھی مسلسل پاکستان کے خلاف منفی طرزِعمل سامنے
نظرآرہاہے۔یقیناًیہ سارادباؤ پاکستان کومزیددباؤ میں لاتے ہوئے اس سے اپنی
مرضی کے فیصلے کروانے اوراس سے اپنی مرضی کے کام کرانے کیلئے ہے۔اس لئے یہ
بھی سمجھناچاہئے کہ جوں جوں ان امریکی اور بھارتی آشاؤں کو پوراکرنے کیلئے
اچھابچہ بننے کیلئے حاضررہے گا،پاکستان پرامریکی ہی نہیں بلکہ بھارتی
دباؤبجھی بڑھتاجائے گا۔اس لئے ضروری ہے کہ کلبوشن اوراس کے اہل خانہ کے
کھاتے میں بھارت کیلئے سہولت کاری نہ کی جائے ۔کل کلاں پاکستانی یادوسرے
ملکوںسے تعلق رکھنے والے دہشتگرد بھی درجہ اوّل کے دہشتگردبننے کیلئے
امریکی اوربھارتی شہریت کاحصول ممکن بناکرپاکستان کا رخ نہ کرنے لگیں کہ ان
دونوں ملکوں کے دہشتگردوں کیلئے پاکستان میں کافی نرم گوشہ پایاجاتاہے۔
اب پاکستان کے مقتدرحلقوں کیلئے ازحدضروری ہوگیاہے کہ وہ کشمیریوں پر ہونے
والے مظالم کاسختی سے نوٹس لیتے ہوئے بھارت سے مطالبہ کرے کہ بزرگ حریت
پسندرہنماء جناب سیدعلی گیلانی کی نظربندی کوفی الفورختم کرکے ان کے تمام
انسانی وسیاسی حقوق کوبحال کیاجائے اوران کی نقل وحرکت پر غیر قانونی
پابندی ختم کی جائے اورپچھلے پچیس برسوں سے ڈاکٹرقاسم کی اسیری کوختم
کروانے کیلئے اقوام متحدہ اورنسانی حقوق کے عالمی اداروں کوباقاعدہ مطلع
کرکے بھارت سے برابری کی سطح پرسلوک روارکھاجائے۔یادرکھیں کہ اس وقت امریکا
کی تلملاہٹ اوربے چینی اس لئے عروج پرہے کہ وہ افغانستان میں نہ صرف مکمل
طورپرہزیمت وشکست کاشکارہے بلکہ اس خطے سے مکمل طورپراس کے اثر ورسوخ کے
خاتمے کا وقت آن پہنچاہے۔
امریکا،اسرائیل اوربھارت کی ٹرائیکاآنے والوں دنوں میں پاکستان
پردباؤبڑھانے کیلئے تمامترزورلگائیں گے جس میں پاکستان پربے پناہ بڑھتے
ہوئے قرضوں کی آئندہ سودکی قسط کی ادائیگی پرسودے بازی کرنے کی کوشش کی
جائے گی اور علاوہ ازیں ملک کے اندرانتشاربڑھانے کیلئے دہشتگردی کی لہر
کوخطرناک حدتک بڑھاوادیاجائے گا۔اس کے ساتھ ساتھ پاک چین اقتصادی راہداری
کے منصوبے کوختم کروانے کیلئے افغانستان میں بیٹھے ہوئے ٹی ٹی پی کو''را''
بلیک واٹراور موسادکے اشتراک سے دہشتگردوں کو بلوچستان میں سلیپنگ سیلز کی
مددسے فرقہ وارانہ اورمذہبی مقامات پرحملے کروانے کے بعدیورپی یونین
اورخودامریکامیں چلائی جانے والی ''فری بلوچستان''کی تحریک میں تیزی لاکر
پاکستان پردباؤ بڑھایا جائے گا۔اب ضرورت اس امرکی ہے کہ ان حالات میں ملکی
سلامتی کے ایک نکاتی ایجنڈے پرمکمل یکجہتی کااعلان کرتے ہوئے نہ صرف دشمن
کے مذموم عزائم کوناکام بنایاجائے بلکہ دنیاکوبھی یہ پیغام دیاجائے کہ
پاکستان اپنی سلامتی کیلئے کسی بھی حدتک جانے میں لمحہ بھرتاخیرنہیں کرے
گا۔ |