پاکستان کو سب سے پہلے اپنے گھر کے سارے گندھ کو صاف کرنا
ہے ۔یہ حکومتی موقف بھی ہے اور ترقی پسند حلقوں کی رائے بھی یہی ہے۔ ملک
میں دھشت گرد تنظیموں اور عسکریت پسند عناصر کی موجودگی میں اسی طرح کا
بیانیہ تشکیل پاتا ہے جس میں گھر کی صفائی پہلی ترجیح بن جاتی ہے ۔ اس بات
کا برملا اظہار سب سے پہلے خواجہ آصف نے کیا تھا جس پر بڑی لے دے ہوئی تھی
اور انھیں غدارِ وطن کہہ کر پکارا گیا تھا ۔وزیرِ داخلہ احسن اقبال اور
وزیرِ ریلوے خواجہ سعد رفیق نے خواجہ آصف کے بیان کی تائید کی تھی جس سے
مخالفین کا شور قدرے کم ہوا تھا لیکن شدت پسند عناصر کی بنیادی سوچ وہیں کی
وہیں تھی کہ ہم امن پسند لوگ ہیں اور ہمارے ہاں کوئی دھشت گرد تنظیمیں نہیں
ہیں بلکہ یہ امریکہ اور بھارت کا باہمی گٹھ جوڑھ ہے جو ہمارے ہاں دھشت گردی
کو ہوا د رہا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ حکومتی بیانیہ یورپی اور
امریکی اندازِ فکر کے قریب تر ہے کیونکہ یورپی اقوام بھی ہمارے ہاں دھشت
گرد تنظیموں کے متحرک ہونے کا رونا روتی رہتی ہیں اور یوں ہم سے ڈو مور کا
مطالبہ داغتی رہتی ہیں ۔ ہمارے ہاں مذہبی اور عسکریت پسند تنظیمیں شروع دن
سے ہی اس طرح کے بیانیے کی شدید مخالف رہی ہیں ۔وہ ملک میں اپنی مخصوص فقہ
کا اسلام نا فذ کرنا چاہتی ہیں اور ان کی نظر میں ایسا امریکی مخالفت کے
بغیر ممکن نہیں ہے ۔ امریکہ کی مخالفت در اصل ان کے اپنے وجود کو برقرار
رکھنے اور عوامی حمائت سمیٹنے کے لئے ضروری ہوتی ہے اس لئے وہ اس سے صرفِ
نظر نہیں کرتے حالانکہ وہ اندر سے امریکی سپر میسی کو تسلیم کر رہے ہوتے
ہیں اور امریکی انتظامیہ سے ان کے خفیہ روابط بھی ہوتے ہیں۔ پاکستان میں دو
قسم کے اندازِ فکر پائے جاتے ہیں ۔ ایک وہ ہیں جو دھشت گردی کے خلاف جنگ کو
امریکہ کی جنگ قرار دیتے ہیں اور دوسرے وہ جو اس جنگ کو ملکی وجود کے خلاف
گھناؤنی سازش قرار دیتے ہیں اور دھشت گرد تنظیموں کا قلع قمع چاہتے ہیں۔اول
الذ کر گروہ مذہبی عناصر کا ہے جبکہ ثانی الذکر گروہ ترقی پسندوں کا
ہے۔ہمارے ہاں تو ماضی میں اکثر مذہبی جماعتیں بیت اﷲ مسعود اور حکیم اﷲ
مسعود جیسے دھشت گردوں کو شہید کہہ کر افواجِ پاکستان کی قربانیوں کا مذاق
بھی اڑاتی رہی ہیں۔ہم مذہبی جماعتوں کو رجعت پسند اورشدت پسند کہہ سکتے ہیں
لیکن انھیں دھشت گردی میں ملوث نہیں کر سکتے ۔ داعش،ٹی ٹی پی اور القاعدہ
جیسی تنظیمیں دھشت گردی کے زمرے میں آتی ہیں لیکن پاکستان کی مذہبی جماعتوں
کو دھشت گردی سے جوڑنا غیر منطقی ہے کیونکہ وہ جمہوری اور انتخابی عمل پر
یقین رکھتی ہیں۔،۔
اس وقت پاکستان دو راہے پر کھڑا ہے۔ملک میں سیاسی عدمِ استحکام اپنے عروج
پر ہے ۔سیاسی جماعتیں باہمی جنگ و جدل میں مصروف ہیں اور ایک دوسرے کو نیچا
دکھانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں ۔ہر جماعت ہر حال میں اقتدار کا
حصول چاہتی ہے لہذا ملکی مفاد کا دور دورتک نام و نشان نہیں مل رہا ۔دھرنا
سیاست اور احتجاجی سیاست اپنا سکہ جمائے ہوئے ہے۔حکومت کومارچ (سینٹ الیکشن
) سے پہلے ختم کرنے کے منصوبوں پر تیزی سے کام ہو رہا ہے ۔ حکومت کا بیشتر
وقت اپنے مخالفین کی چالوں کو ناکام بنانے میں صرف ہو رہا ہے جس سے ملکی
ترقی کا سفر کھوٹا ہو تا جا رہا ہے۔ملک میں اس وقت مقبول قیادت اسٹیبلشمنٹ
کی ریشہ دوانیوں کا شکار ہے۔میاں محمد نواز شریف کی نا اہلی کے بعد حکومت
سکتے کے عالم میں ہے اور کوئی بھی بڑا فیصلہ کرنے سے محروم ہے۔اسے اپوزیشن
کے حملوں سے فرصت ملے گی تو وہ کوئی ڈھنگ کا فیصلہ کر پائیگی ۔ اسٹیبلشمنٹ
کا غم و غصہ اور عدلیہ کی سخت مزاجی حکومت کو مزید بے بس بنارہی ہے۔ایسے
غیر یقینی حالات میں امریکی صدر ڈولنڈ ٹرمپ کا پاکستانی امداد بند کرنے کا
اعلان کسی ٹائم بم سے کم نہیں ہے۔پاکستان طویل عرصے سے امریکی انتظامیہ کے
دباؤ کا شکار ہے۔امریکہ پاکستان سے ڈو مور کا مطالبہ کر ہا ہے جبکہ پاکستان
کا کہنا ہے کہ ہم نے دھشت گردی کی جنگ میں پہلے ہی بے شمار قربانیاں دے
رکھی ہیں لہذا پاکستان اب ہم مزید قربانیوں کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔ سوچ
کانظریاتی فرق دونوں قوموں کے درمیان دوریوں کا باعث بنا ہوا ہے ۔افغانستان
میں امریکی اڈوں اور اس کی افواج کی مو جودگی پاکستان کیلئے بے شمار مسائل
کو جنم دے رہی ہے۔بھارت دونوں ممالک کی سوچ کے فرق سے بھر پور فائدہ اٹھاکر
بد گمانیوں کو مزید ہوا دے رہا ہے۔بھارت کا ہدف ہمیشہ پاکستان رہا ہے لہذا
وہ اس موقع کوضائع نہیں کرنا چاہتا۔وہ تحریکِ طالبان اور داعش جیسے گروہوں
کہ پشت پناہی کرکے پاکستان میں انتشار کے بیج بو رہا ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ کی صورت
میں اسے ایک ایسا صدر مل گیا ہے جو خود بھی مسلم امہ کا دشمن ہے ۔مسلم امہ
کی دشمنی امریکہ اور بھارت میں قدرِ مشترک ہے ۔ڈونلڈ ٹرمپ کے سارے اقدامات
مسلم امہ کو دیوار کے ساتھ لگانے پر صرف ہو رہے ہیں لہذا پاکستان کے خلاف
اس کے تازہ اعلان کو بھی اسی تناظر میں دیکھنا ہو گا ۔اس میں کوئی شک نہیں
کہ امریکہ ایک زمانے سے حقانی نیٹ ورک اور حافظ سعید کی تنظیم جماعت الدعوہ
کو غیر قانونی قرار دینے کا مطالبہ کرتا رہا ہے لیکن حکومتِ پاکستان تال
مٹول سے کام لیتی رہی ہے جس سے ان کے درمیان خلیج مزید وسیع ہو تی جا رہی
ہے ۔
امریکہ کا اپنا مزاج ہے اور دنیا کو زیرِ اثر رکھنے کا اپنا طریقہ کار
ہے۔اقوامِ متحدہ میں یروشلم کو اسرائیلی دارلحکومت قرار دینے والے ایشو پر
امریکہ کو جو شکست ہو ئی ہے اس میں پاکستان پیش پیش تھا لہذا امریکہ کی
جانب سے ردِ عمل آنا ضروری تھا ۔اسرائیلی لابی اس وقت پاکستان کے خلاف مکمل
طور پر متحرک ہے اور اسے تنہا کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ڈو نلڈ ٹرمپ اسرائیل کے
زیرِ اثر ہے لہذا اس میں اسرائیلی دباؤ کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں ہے۔
امریکہ کا ہر صدر اسرائیلی خوشنودی کا متمنی رہتا ہے لہذا اسرائیل ان تمام
ممالک کے خلاف جو اس کو تسلیم نہیں کرتے اپنی سازشیں جاری رکھتا ہے
۔پاکستان مسلم امہ کا سب سے طاقتور ملک ہے ۔وہ ایٹمی قوت ہو نے کے ساتھ
دنیا کے چھ بڑے مما لک میں شمار ہو تا ہے لہذا اس کے خلاف اسرائیل کا
معاندانہ رویہ سمجھ میں آتا ہے۔یروشلم کے ایشو پر پوری پاکستانی قوم یک
زبان ہے لہذا حکومت نے پوری کاوشوں سے امریکی اقدامات کے خلاف اسلامی دنیا
کو متحرک کیا اور یوں امریکہ کو سرِ عام شکست سے ہمکنار ہو نا پڑا۔ایک تو
امریکہ پہلے ہی پاکستان کے اقدامات سے ناراض تھا اس پر اقوامِ متحد میں
شکست نے اسے سیخ پا کر دیا ۔پاکستان میں بے شمار تنظیمیں ہیں جو شدت پسندی
کو ہوا دیتی ہیں اور امریکہ کیلئے دردِ سر بنی ہو ئی ہیں ۔امریکہ کے پاس ان
تنظیموں کو بے اثر کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔لبیک یا رسول اﷲ ﷺ کی ملک
گیر تحریک نے امریکہ کو یہ باور کروانے میں اہم کردار ادا کیاہے کہ
پاکستانی قوم مذہب کے نام پر کچھ بھی کر گزرنے کا جذبہ رکھتی جو اسے کسی
بھی حال میں پسند نہیں ہے ۔وہ پاکستانیوں سے مذہبی شناخت چھیننا چاہتا ہے ۔
اسے تو ابھی تک اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی کہ فیض آباد کے چوک میں بیٹھے
ہوئے چند ہزار لوگ کس طرح ریاست کو مفلوج بنا سکتے ہیں؟امریکہ تو پاکستانی
سیاست سے مذہب کا خاتمہ چاہتا ہے لیکن پاکستانی عوام قدم قدم پر اسے مذہب
سے وابستگی کا عندیہ دیتے ہیں جس سے امریکہ کی راتوں کی نیندیں حرام ہوچکی
ہیں ۔ مذہبی جماعتیں جب محبوبِ خدا حضرت محمد مصطفے ﷺ سے محبت کی امین ہوں
تو بھلی لگتی ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ محبتوں کے امینوں کا دھشت گردی سے کوئی
تعلق نہیں ہوتا ۔وہ امن کے نقیب ہو تے ہیں لیکن اپنی محبوب ہستی کے خلاف
ایک بھی لفظ کو سننے کیلئے تیار نہیں ہوتے۔ان کا واحد مقصد ناموسِ رسالت کا
تحفظ ہو تا ہے ۔اگر امریکہ اس بنیادی بات کو سمجھ جاتا کہ مذہب دہشت گردی
کا نہیں بلکہ امن کی داعی ہوتا ہے تو اسے اس طرح کا اعلان کرنے کی چنداں
ضرورت محسوس نہ ہوتی۔علامہ اقبال نے اس ساری حقیقت کو اپنے ایک شعر میں سمو
کر رکھ دیا ہے۔( ہو حلقہِ یاراں تو ابریشم کی طرح نرم ۔،،۔ رزمِ حق و باطل
ہو تو فو لاد ہے مومن۔،۔)۔،۔ |